روس کو چکما دینے کے لیے یوکرین کون سی پرانی فوجی ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے؟
- مصنف, جوناتھن بیل
- عہدہ, دفاعی نامہ نگار، بی بی سی
یوکرین کی جانب سے روس کے خلاف ایک بڑی جوابی کارروائی کی تیاریاں کی جا رہی ہے اور اس دوران یوکرین بڑی تعداد میں فوجی جمع کر رہا ہے اور اس تمام تر تیاری کو روس کی نظروں سے چھپانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
مگر ایسے میں یوکرین نے روسی فوج کو چکما دینے کے لیے نئی حکمت عملی تلاش کی ہے۔
یوکرین کے مشرقی محاذ پر ایک خندق میں موجود یوکرین کی مارٹر ٹیم جانتی ہے کہ روس نہ صرف ڈرون کے ذریعے اُن کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہا ہے، بلکہ ان کی پوزیشن کی نشاندہی کرنے کے لیے الیکٹرانک وارفیئر کا بھی استعمال کر رہا ہے۔
یعنی ایک ایسی قدیم مشین جسے دیکھ کر پہلی عالمی جنگ کی کسی خندق کی تصویر نظروں کے سامنے سے آ جاتی ہے۔ یہاں بات ایک پرانی تار والے ٹیلی فون کی ہو رہی ہے جسے ’فیلڈ فون‘ بھی کہا جاتا ہے۔
روس کی تکنیکی طاقت کا مقابلہ
ولاد اور ان کی کمان میں موجود یوکرینی فوج کے جوان جب بھی مارٹر فائر کرنے سے پہلے فیلڈ فون اٹھاتے ہیں۔ اس کی مدھم آواز زمانہ قدیم کی کسی آواز جیسی محسوس ہوتی ہے۔ آؤٹ گوئنگ کال کرنے کے لیے، انھیں ایک ہینڈل کو وائنڈ (گھومانا) کرنا پڑتا ہے۔ یہ کسی بلیک اینڈ وائٹ فلم کے منظر کی طرح لگتا ہے۔
ولاد نے دیگر قریبی خندقوں تک پھیلی ہوئی تاروں کو اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ مواصلات کا سب سے محفوظ ذریعہ ہے اور ’اس کے ذریعے کی جانے والی گفتگو کو ریکارڈ یا ٹیپ کرنا ناممکن ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ روسی الیکٹرانک وارفیئر سسٹم موبائل فونز اور ریڈیوز کا پتہ لگا سکتا ہے اور اسے روک سکتا ہے، لیکن اپنے پرانے فیلڈ فون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ولاد کہتے ہیں: ’یہ ٹیکنالوجی بہت پرانی ہے لیکن یہ بہت اچھی طرح سے کام کرتی ہے۔‘
روس کی افواج نے اب تک جنگ میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس دوران انھیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روس کے پاس دنیا کے جدید ترین الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز نہیں ہیں۔ وہ ان سٹسمز کے ذریعے دشمن کو ٹریک کرنے اور مواصلات کو کامیابی سے روکتے اور جام کرتے ہیں۔
ان سسٹمز کے ذریعے یوکرین کی پیش قدمی زیادہ خطرناک اور مشکل بنائی جا سکتی ہے۔ روسی زوپارک ریڈار آرٹلری فائر کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ زہیٹل گاڑیاں ریڈیو فریکوئنسیوں کا پتہ لگا سکتی ہیں انھیں ٹریک کر سکتی ہیں اور ریڈیو فریکوئنسیوں کو جام بھی کر سکتی ہیں۔ اس دوران سیٹلائٹ مواصلات میں خلل بھی ڈالا جا سکتا ہے۔
روس کی جانب سے الیکٹرانک وارفیئر کا استعمال یوکرین کے لیے ڈرونز استعمال کرنا بھی مشکل بنا رہا ہے، جو میدان جنگ کا فضائی معائنہ کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
مشرقی محاذ کے ایک اور مقام پر، اولیکسی اور ان کا 59 بریگیڈ ڈرون انٹیلیجنس یونٹ روسی پوزیشنوں کی نشاندہی کرنے کے لیے اپنے چھوٹے چینی تجارتی ڈرونز کو اڑانے کے لیے بمباری سے تباہ شدہ عمارت کا احاطہ استعمال کر رہے ہیں۔
جنگ کے ابتدائی مراحل میں یوکرین ڈرون استعمال کرنے میں زیادہ ماہر دکھائی دیتا تھا لیکن اولیکسی کا کہنا ہے کہ اب ’آسمان بھرا ہوا ہے‘ ہر قسم کے ڈرونز سے۔
ان کا کہنا ہے کہ روسی بھی وہی ماڈل استعمال کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس زیادہ ڈرون ہیں۔ مگر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھیں ان ڈرونز کی ’زیادہ پرواہ‘ نہیں ہے۔
اولیکسی کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی چینی ساختہ پانچ چھوٹے ڈرون کھو چکے ہیں اور ان کی بریگیڈ ’ایک دن میں تین سے چار ڈرون کھو سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ دشمن کے پاس ریڈیو، الیکٹرانک وارفیئر سٹیشنز اور ڈرون گرانے والی بندوقوں تک رسائی ہے جو ان کے ڈرونز کو غیر فعال کرنے کے لیے ’جامنگ اور مواصلات میں خلل ڈال سکتی ہیں۔‘
لیکن یہ ڈرونز اگر کوئی قابل ہینڈلر کے ہاتھوں میں ہوں تو ایک چھوٹا کمرشل ڈرون جیسے میوک ’دو سے تین ہفتے‘ چل سکتا ہے۔
وہ انکرپشن کا استعمال کر کے اور اپنے ڈرون کے جغرافیائی محل وقوع میں ترمیم کر کے نگرانی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جو ڈرون روسی خندقوں کے اوپر اڑ رہا ہے وہ آسٹریلیا میں وی پی این کا استعمال کرتا ہے، جس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ اُس براعظم پر پرواز کر رہا ہے لیکن یہ طریقہ ہر دفعہ کارآمد نہیں ہوتا۔
دوسری جانب یوکرین کا روس کے ڈرون گرانے کا طریقہ کار زیادہ پرانا ہے۔
یوکرین کے فوجی دور سے اونچی اڑان والے ڈرونز کی طرف اشارہ کرتے دکھائی دیے۔ یہ ’اورلان‘ نامی روسی ڈرون ہے جو نگرانی یا مواصلات کو روک سکتا ہے۔ اس بار وہ توپ خانے سے فائر کرنے کے لیے قریبی یوکرین کی دفاعی پوزیشنوں کا معائنہ کر رہا ہے۔
ہم اس کے اثرات کو دیکھنے سے پہلے گولوں کی آواز سنتے ہیں اور کچھ فاصلے پر دھواں اٹھتا دیکھتے ہیں۔
یوکرین کے فوجیوں کا جواب اپنی خودکار رائفلوں سے آسمان پر فائر کرنا ہے لیکن روسی ڈرون بہت زیادہ اونچائی پر ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں فائر کرنا بھی بیکار ہے۔
ایک قریبی کمانڈ سینٹر میں یوکرین کی 10ویں بریگیڈ کے بوہدان نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا کہ وہ مزید کچھ نہیں کر سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ روسی ڈرون ’ہر روز، ہر گھنٹے، ہر سیکنڈ میں اڑتے ہیں۔ ان کے پاس اس کے لیے وسائل ہیں۔ ہم ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہم اتنا نہیں کر پاتے جتنا ہم چاہتے ہیں۔‘
تاہم ان کے پیچھے بڑی سکرین سے معلوم ہوتا ہے کہ یوکرین کو ایسا ہی کرنا چاہیے لیکن انھیں اب اپنے ڈرونز کو ڈسپوزایبل جنگی سامان سمجھنا چاہیے۔
ہم قریبی خندقوں پر منڈلاتے ہوئے یوکرین کے ڈرون سے لائیو ویڈیو فیڈ دیکھتے ہیں۔ روس کو الیکٹرانک وارفیئر اور مزید ڈرونز میں فائدہ ہو سکتا ہے، جو یوکرین کے اگلے حملے کے لیے ایک چیلنج ہے۔
تاہم روس ابھی تک آسمان پر کنٹرول حاصل کرنے یا یوکرین کی مزاحمت اور چالاکی کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
Comments are closed.