روس کا مغربی ممالک سے قیدیوں کا تبادلہ: پوتن اپنے جاسوسوں کو پیغام دینا چاہتے ہیں ’ہم اپنوں کو نہیں بھولتے‘
لیکن گذشتہ رات ماسکو کے ونوکووو ہوائی اڈے پر وہ غیر مُلکی جیلوں سے رہا ہو کر وطن واپس آنے والے اُن فوجیوں کے استقبال کے لیے پہنچے کے جن کی آزادی کے لیے وہ کوشش کر رہے تھے۔ سرد جنگ کے بعد یہ روس اور مغرب کے درمیان قیدیوں کے سب سے بڑے تبادلے کا ایک حصہ ہے۔10 افراد طیارے سے باہر نمودار ہوئے، اس سے جُڑی سیڑھیوں سے نیچے آنے والے ان روسیوں میں جاسوس، سلیپر ایجنٹ اور ایک سزا یافتہ قاتل شامل تھے۔روسی صدر نے اُن کا استقبال یہ کہتے ہویے کیا ’مادر وطن واپسی پر مبارک ہو!۔‘اس سب کے بعد آپ بڑے واضح طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ کریملن کے پاس جشن منانے کے لیے کچھ ہے۔واپس آنے والے روسیوں کا استقبال سرخ قالین بچھا کر اور گارڈ آف آنر دے کر کیا گیا تھا۔ پھولوں کے گلدستوں کے ساتھ کچھ قیدیوں کو صدر کی جانب سے گلے بھی لگایا گیا۔ صدر پوتن نے ایف ایس بی کے ہٹ مین ودیم کراسیکوف کو گلے لگایا جو جارجیائی نژاد چیچن باغی کو قتل کرنے کے جرم میں جرمنی میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔’پوتن نے انھیں تمام ریاستی اعزازات دینے کا وعدہ کیا تھا۔انھوں نے مزید کہا کہ میں آپ میں سے ان لوگوں سے مخاطب ہونا چاہوں گا جن کا براہ راست تعلق فوج سے ہے ’اپنے حلف سے وفاداری اور مادر وطن کے لیے وہ فرض نبھانے کا شکریہ جو آپ کو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں بھولا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاس وقت کریملن کی حامی پریس ایک اور پیغام بھی دے رہی ہے اور وہ یہ کہ روس نے اپنی جیلوں سے رہائی پانے والوں اور بیرون ملک بھیجے جانے والوں کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔سرکاری اخبار میں کہا گیا ہے کہ نیٹو ممالک میں قید آٹھ روسی ان افراد کے بدلے وطن واپس پہنچ گئے ہیں جو روس کی قومی سلامتی کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ماسکو کی جانب سے رہا کیے جانے والے باغیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کومسومولسکایا پراوڈا نے دعویٰ کیا کہ ’انھوں نے اپنی سابقہ مادر وطن کو چھوڑ دیا ہے اور انھیں ان لوگوں کے پاس لے گئے ہیں جنھوں نے انھیں ملازمت پر رکھا تھا۔‘ناقدین اور مخالفین کو بدنام کرنے کی کوششیں اور وفادار حامیوں کے لیے زبردست تعریف جنھیں سچے محب وطن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔۔۔ یہ سب کچھ روسی حکام کو عوام کے ساتھ یہ موقف قائم کرنے رکھنے مدد دیتا ہے کہ قیدیوں کا تبادلہ کریملن کے لیے ایک کامیابی تھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاس میں کوئی شک نہیں کہ کریملن قیدیوں کے تبادلے کو ماسکو کی فتح کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس نے وہ حاصل کر لیا ہے جو وہ چاہتا تھا۔۔۔ اس نے اپنے ایجنٹوں کو واپس حاصل کر لیا، رہا ہونے والوں میں وہ بھی شامل ہیں جن کا نام ہمیشہ سے اُس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا اور جن کی رہائی کا مطالبہ روس ہمیشہ سے کرتا آ رہا ہے اور وہ نام تھا ’کراسیکوف۔‘ جرمن حکام ابتدائی طور پر ایک سزا یافتہ قاتل کو رہا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ جرمن عدالت کے مطابق وہ روسی حکام کے آلہ کار کے طور پر کام کر رہے تھے۔لیکن ایک بڑے معاہدے کے پیشِ نظر یہ ہچکچاہٹ کم ہوتی گئی۔لیکن کریملن کے لیے ودیم کراسیکوف کی رہائی کو یقینی بنانا اور انھیں وطن واپس لانا اتنا اہم کیوں تھا؟آج کے روسی اخبارات اس سوال کے جواب میں کچھ اشارے دے رے ہیں۔سرکاری اخبار روسیسکایا گزیٹا کی ہیڈ لائن ہے ’ہم اپنے لوگوں کو واپس لا رہے ہیں۔‘پوتن کے حامی اخبار کومسومولسکایا پراوڈا کا کہنا ہے کہ ’ہم اپنوں کو نہیں بھولتے۔‘کریملن اپنے ایجنٹوں اور جاسوسوں کو بس یہی پیغام دینا چاہتا ہے ’اگر ہم آپ کو بیرون ملک کسی اہم مشن پر بھیجتے ہیں اور وہاں پر معاملات ہمارے حق میں یا ہمارے اندازوں کے خلاف رخ اختیار کرتے ہیں، تو ہم آپ کو اپنے وطن واپس لانے کا راستہ تلاش کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھیں گے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.