یوکرین روس جنگ: معاشی پابندیوں کی صورت میں کیا چین پوتن کی مدد کر سکتا ہے؟
- کائی وانگ اور وان یوان سانگ
- بی بی سی رئیلٹی چیک
یوکرین پر حملے کے بعد روس کے اہم تجارتی شراکت داروں یورپی یونین اور برطانیہ نے ماسکو پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
ایسے میں کیا چین روس کی معاشی مدد کر سکتا ہے؟
کیا روس پر پابندیاں تجارت کو متاثر کریں گی؟
چین کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ روس کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رکھے گا۔
لیکن چند روسی بینکوں کی عالمی بینکاری نظام سوئفٹ، جس کے تحت عالمی طور پر ادائیگیاں ممکن ہوتی ہیں، سے بے دخلی کے بعد خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اپنی برآمدات کے لیے ادائیگیاں کرنا اب ماسکو کے لیے اتنا آسان نہیں رہے گا۔
یہی وجہ ہے کہ چین نے حال ہی میں روس سے طے پانے والے چند سودوں سے ہاتھ کھینچ لیا کیوں کہ تاجروں کو ادائیگی کا بندوبست کرنے میں مشکلات درپیش تھیں۔
حالیہ برسوں میں دونوں ممالک چین اور روس اس کوشش میں بھی مصروف رہے ہیں کہ وہ ادائیگیوں کے لیے کوئی متبادل نظام مرتب کر لیں تاکہ سوئفٹ جیسے مغربی نظام پر انحصار کم ہو جو ڈالر میں سودے بازی کرتا ہے۔
روس ایک نظام بنا چکا ہے جسے سسٹم فور ٹرانسفر آف فننانشل میسیجز (ایس ٹی ایف ایم) کہا جاتا ہے جبکہ چین میں بھی کراس بارڈر انٹر بینک پیمنٹ سسٹم (سی آئی پی ایس) موجود ہے۔ لیکن یہ سسٹم اب تک صرف اندرون ملک اپنی اپنی کرنسی میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
کارنیگی ماسکو سینٹر کی ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چین اور روس کے یہ سسٹم سوئفٹ نظام کا متبادل نہیں بن سکتے۔
سنہ 2021 تک صرف ایک ہی چینی بینک نے ایس ٹی ایف ایم میں شمولیت اختیار کی تھی جبکہ دوسری جانب چین کے سی آئی پی ایس سسٹم سے بہت سے روسی اور بین الاقوامی بینک جڑ چکے ہیں۔
روس کے سرکاری اعداد و شمار پر مبنی میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت روس اور چین کے درمیان 17 فیصد باہمی تجارت کے لیے چین کی کرنسی یعنی یوآن استعمال ہوتا ہے جو 2014 کے مقابلے میں تین اعشاریہ ایک فیصد اضافہ ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان توانائی کی زیادہ تر تجارت اب بھی امریکی ڈالر میں ہی ہوتی ہے اگرچہ کہ چینی یوآن کا استعمال اس شعبے میں بھی آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔
روس اور چین کے درمیان تجارت کا حجم کتنا ہے؟
روس اور چین کے درمیان باہمی تجارت کا ہجم حالیہ سالوں میں بتدریج بڑھ رہا ہے۔
گذشتہ سال یہ حجم 147 ارب امریکی ڈالر پر جا پہنچا تھا جو 2020 کے مقابلے میں 36 فیصد اضافہ اور ایک نیا ریکارڈ تھا۔ 2021 میں روس کی تمام عالمی تجارت میں سے 18 فیصد چین کے ساتھ ہوئی۔
گذشتہ ماہ روس کے صدر پوتن نے چین کا دورہ کیا تو دونوں ملکوں کی جانب سے کہا گیا تھا کہ 2024 تک باہمی تجارت کو ڈھائی سو ارب ڈالر تک بڑھا دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ چین روس کی توانائی برآمدات جیسے تیل، گیس، کوئلہ اور زرعی اجناس کی کھپت کی سب سے بڑی منڈی ہے اور یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ حالیہ برسوں میں روس نے چین کو بھیجی جانے والی برآمدات میں ماضی کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔
حالیہ برسوں میں روس نے چین کو بھیجی جانے والی برآمدات میں ماضی کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ کیا ہے
اس کے باوجود یورپی یونین روس کے ساتھ تجارت کرنے والا مجموعی طور پر سب سے بڑا بلاک ہے۔ سنہ 2021 میں یورپی یونین سے روس کی تجارت کا حجم چین کی نسبت دو گنا زیادہ تھا۔
ماہر مالیاتی امور ڈاکٹر ریبیکا ہارڈنگ کہتی ہیں کہ موجودہ حالات میں صورت حال یکسر تبدیل ہو سکتی ہے۔
’میرے خیال میں یہ ناگزیر ہے کہ موجودہ پابندیوں کے نتیجے میں یورپ اور روس کی تجارت کم ہو گی۔ اس بحران نے یورپ کی اس سوچ کو مزید تقویت دی ہے کہ اس کو اپنی ضروریات کے لیے دیگر ذرائع پر بھی غور کرنا ہو گا۔‘
روس اور امریکہ کے درمیان ہونے والی باہمی تجارت کا حجم کافی کم ہے۔
روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج
کیا چین روس سے مزید گیس خرید سکتا ہے؟
روس کی معیشت کا دار و مدار کافی حد تک تیل اور گیس کی برآمدات پر ہوتا ہے جو اب تک مغربی معاشی پابندیوں کا نشانہ نہیں بنیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گذشتہ سال روس چین کو تیل فراہم کرنے والا دوسرا بڑا اور گیس فراہم کرنے والا تیسرا بڑا ملک تھا جس کی درآمدات کا تخمینہ 41 اعشاریہ ایک اور چار اعشاریہ تین ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔
روس کے صدر پوتن نے حال ہی میں چین کے ساتھ ہونے والے نئے تیل اور گیس معاہدوں سے بھی پردہ اٹھایا ہے جن کی مالیت تقریباً 117 ارب ڈالر بنتی ہے۔
روس کی توانائی کی سب سے زیادہ کھپت اب بھی یورپ میں ہی ہوتی ہے جس کی 40 فیصد گیس اور 26 فیصد تیل کی ضرورت ماسکو پوری کرتا ہے۔
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق دوسری جانب روس کی تیل کی برآمدات کا صرف 20 فیصد حصہ چین کو جاتا ہے، جبکہ بڑا حصہ یورپ استعمال کرتا ہے۔
ڈاکٹر ہارڈنگ کے مطابق روس کی چین کو تیل اور گیس کی برآمدات میں گذشتہ پانچ سال سے مسلسل سالانہ بنیاد پر نو فیصد کا اضافہ ہوا رہا ہے۔ ’یہ یقیناً بڑا اضافہ ہے لیکن روس کے تیل کی کھپت اب بھی چین کی نسبت یورپ میں زیادہ ہے۔‘
روس کی قدرتی گیس لینے والا جرمنی حال ہی میں اعلان کر چکا ہے کہ یوکرین پر حملے کے ردعمل میں گیس کی نئی پائپ لائن کا منصوبہ معطل کر دیا جائے گا جسے نورڈ سٹریم ٹو کا نام دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
ایک تجزیہ کار کے مطابق روس اور چین کے درمیان ہونے والے نئے معاہدے کے تحت پاور آف سائبیریا ٹو نامی گیس پائل لائن بنائی جائے گی لیکن اس کی استعداد نورڈ ٹو سٹریم پائپ لائن کے مقابلے میں ایک چوتھائی سے بھی کم ہو گی۔
اب تک یہ بھی واضح نہیں کہ سائبیریا سے گزرنے والی اس پائپ لائن کا آغاز کب ہو گا۔
چین روس سے کوئلہ خریدنے والا بھی سب سے بڑا ملک ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان ایک ہفتہ قبل ہی 20 ارب ڈالر کا نیا معاہدہ ہوا ہے۔
جلد یا بدیر چین ضرور یہ چاہے گا کہ کوئلے پر بھاری انحصار ختم کرنے اور گرین ہاوس گیسز کم کرنے کے لیے روس سے گیس کی درآمدات میں اضافہ کرے۔
روس دنیا بھر کو گندم فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے لیکن چین نے بیماریوں کے خداشت کے پیش نظر روس کے چند مخصوص علاقوں سے درآمد محدود کر رکھی تھی۔
لیکن جس دن روس نے یوکرین پر حملہ کیا، اسی دن چین کے کسٹم حکام نے اعلان کیا کہ روس کی گندم اور مکئی کی درآمد پر عائد تمام پابندیاں ختم کی جا رہی ہیں۔
Comments are closed.