تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ ایسا بہت حد تک ممکن ہے کہ امریکہ اور برطانیہ یوکرین پر عائد وہ پابندی ہٹا دیں جس کے تحت وہ روس پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے حملے نہیں کر سکتا۔یوکرین کے پاس ان میزائلوں کی کثیر تعداد موجود ہے، تاہم ملک پر پابندی ہے کہ وہ روس کے خلاف ان کا استعمال نہیں کر سکتا چاہے روس کے طیارے یوکرین کی اپنی سرحدی حدود میں ہی کیوں نہ گردش کر رہے ہوں۔یوکرین کے دارالحکومت کیئو کی جانب سے کئی ہفتوں سے درخواست کی جا رہی ہے کہ اسے اپنی سرحدی حدود میں یہ میزائل استعمال کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ مگر مغربی ممالک جنگ کو مزید بڑے پیمانے پر پھیلنے سے روکنے کے لیے یوکرین کو یہ اجازت نہیں دے رہے ہیں۔بی بی سی کے فوجی نامہ نگار پاولو اکسیونوف اس بارے میں لکھتے ہیں کہ اس خطرے کا وجود ہی روس کو جنگی ہوا بازی کی شدت کو کم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ چونکہ یہ خطرہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے اس لیے روسی افواج اس کے مطابق تیاری کر رہی ہیں اور اپنی نئی مؤثر جنگی حکمت عملی پر کام کر رہی ہیں۔ ،تصویر کا ذریعہRUSSIAN DEFENSE MINISTRY/ANADOLU
روس نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں؟
اتوار کو امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے صحافی فرید ذکریا کے ساتھ ایک انٹرویو میں پاولو اکسیونوف نے کہا ہے کہ یوکرین کو روس کے خلاف طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب روس نے بھی اپنے جنگی جہاز محاذ سے دور کر دیے ہیں۔ ان کے مطابق روس ان جہازوں کو کئی سو کلومیٹر دور لے جا رہا ہے۔ اگر یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے الفاظ کا جائزہ لیا جائے تو اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ’ایئرفیلڈز‘ یعنی فضائی اڈے بہت اہم اہداف ہیں جنھیں یوکرین ہدف بنانے جا رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ روس کے ایس یو-34 جنگی جہازوں نے یوکرینی فوجیوں پر بم برسائے جس سے یوکرین کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ یوکرین کے انٹیلیجنس جمع کرنے والے ادارے اوسینٹ کے ایک تفتیش کار نے ایکس پر اپنی عرفیت تاتارگامی سے لکھا کہ روس جون سے اپنے جنگی جہازوں اور بیڑوں کو فرنٹ لائن زون سے ہٹا کر دور دراز منتقل کر رہا ہے۔
اوسینٹ کے تفتیش کار کا کہنا ہے کہ جولائی کے وسط سے جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹرز اور ان کی مرمت کرنے والا پورا انفراسٹرکچر ہی دوسری جگہوں پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس کا صاف الفاظ میں مطلب تو یہی ہے کہ اگر امریکی صدر جو بائیڈن 13 ستمبر کو سٹارم شیڈو یا سکیلپ میزائل استعمال کرنے کی اجازت دے بھی دیتے تو یہ فیصلہ روس کے فوجی اڈوں کے لیے زیادہ تباہ کن نہیں ثابت ہوتا کیونکہ پہلے ہی روس نے اپنے جہاز اس میزائل کی پہنچ سے دور مقامات پر منتقل کر دیے ہیں۔ یوکرین کو ان میزائلوں کے استعمال کے لیے اجازت حاصل کرنے کا عمل چونکہ طویل ہے اس لیے روس کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اس عرصے میں اپنے اثاثوں کی حفاظت یقینی بنا سکے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرچہ روس کے جنگی طیارے اس وقت محفوظ مقامات پر ہیں اور وہ یوکرین کے ان میزائلوں کی رینج سے بہت دور ہیں مگر مستقبل میں میزائلوں کی رینج میں اضافے کے خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Images
نووروسیسک: بحری مشقیں یا انخلا
14 ستمبر کو اونسیٹ کے ایک محقق نے اپنی عرفیت ایچ آئی سکٹن سے ایکس پر ’تسیمیسکا بے‘ کی ایک پارکنگ کی جگہ کے سیٹلائٹ امیجز شئیر کیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان تصاویر سے ایسا لگتا ہے کہ روسی بحری بیڑے وہاں سے اب کہیں اور منتقل کر دیے گئے ہیں۔ تفتیش کار کے مطابق یہ یوکرین کی طرف سے ممکنہ میزائل حملے کے خطرے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ وہاں حقیقت میں ایسا خطرہ موجود تھا کہ یوکرین کو روس پر ان میزائلوں سے حملے کی اجازت مل جاتی اور اس بات کے بھی امکان تھے کہ افواج کو دور تک مار کرنے والے میزائل حاصل ہو جاتے۔ اگر ایسا ہوجائے تو پھر یوکرینی افواج کو زیر قبضہ علاقے میں 500 کلومیٹر تک ان میزائلوں کو ’لانچ‘ کرنے کی اجازت ہو گی۔ کریمیا کے ساحلوں کے قریب سے 250 کلومیٹر کے فاصلے پر مار کرنے والے میزائلوں کو بہت خطرناک انداز میں ’لانچ‘ کرنا ہو گا۔،تصویر کا ذریعہPLANET LABS،تصویر کا ذریعہLANET LABSدستیاب معلومات سے یہی پتا چلتا ہے کہ یوکرین کے پاس اس وقت طویل فاصلے پر مار کرنے والے میزائل دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی انھیں روس میں اہداف کو نشانہ بنانے کی اجازت ہے۔ بی بی سی نے سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کا بغور جائزہ لیا اور یہ معلوم کیا کہ نوروسیسک بحری بیڑے میں مسلسل جہازوں کی جگہ تبدیل کی جاتی ہے۔ 15 اگست کو یہ اڈہ بحری جہازوں سے بھرا ہوا تھا اور پھر ایک ہفتے بعد 23 اگست کو یہ خالی پڑا تھا۔ سیٹلائٹ سے یہاں کی تصویر کشی 11 ستمبر کو کی گئی تھی۔ مگر پھر اس کے اگلے ہی دن پارکنگ کی جگہ خالی نظر آ رہی تھی۔ اس کے بعد 16 ستمبر کو یہ بحری جہاز پھر اس بیڑے پر نظر آئے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بحری بیڑے نے بحری مشقوں میں حصہ لیا اور اسی لیے وہ بیس پر موجود نہیں تھے۔ایک اور روسی ماہر کا کہنا ہے کہ بحیرہ اسود کے بحری بیڑے میں روس کے جہاز مسلسل ادھر ادھر جا رہے ہیں۔ جو کہ ایک جنگی چال بھی ہے اور یہ جہاز بحیرہ اسود میں مختلف بندرگاہوں اور خلیج پر جاتے نظر آئے ہیں۔ یہ نہ صرف روس کے ساحل بلکہ کریمیا کے ساحل پر بھی جاتے نظر آئے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.