روس میں ناکام مسلح بغاوت کے بعد صدر پوتن کی ’باغی‘ پریگوژن سے کریملن میں ملاقات

روس

،تصویر کا ذریعہEPA

  • مصنف, ہیندی ایسٹیئر اور سٹیون روزنبرگ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مسلح گروہ ویگنر کے سربراہ یفگینی پریگوژن کی جانب سے ایک ناکام بغاوت کی سربراہی کے پانچ دن بعد ان سے ملاقات کی۔

یہ اعلان کریملن کی جانب سے کیا گیا ہے اور ڈپٹی ترجمان دمتری پیسکوو کا کہنا ہے کہ ویگنر کے سربراہ کو 35 کمانڈرز کے ساتھ دعوت دی گئی تھی۔

واضح رہے کہ 23 جون کو شروع ہونے والی بغاوت صرف 24 گھنٹے جاری رہی تھی جس کے دوران ویگنر گروپ نے ایک شہر پر قبضہ کیا اور ماسکو کی جانب پیش قدمی کی۔

تاہم بعد میں ایک معاہدے کے تحت کسی قسم کی کارروائی نہیں کی گئی اور یفگینی پریگوژن کو بیلاروس جانے کی پیشکش کی گئی۔

انٹر فیکس نیوز ایجنسی کے مطابق ڈپٹی ترجمان دمتری پیسکوو نے کہا کہ صدر نے یوکرین جنگ کے دوران کمپنی کی کارروائی کا تجزیہ کیا۔

’انھوں نے 24 جون کے واقعات کا بھی تجزیہ کیا اور کمانڈرز کی وضاحت سنی اور ان کے مستقبل کے بارے میں بات کی۔‘

ترجمان کے مطابق یفگینی پریگوژن نے صدر پوتن سے کہا کہ ’ویگنر گروپ ان کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے۔‘

گذشتہ ہفتے بیلاورس کے رہنما الیگزینڈر لوکاشینکو، جنھوں نے بغاوت ختم کرنے کے لیے ثالث کا کردار ادا کیا تھا، نے کہا تھا کہ یفگینی پریگوژن روس میں ہیں۔

بی بی سی نے جون کے آخر میں یفگینی پریگوژن کے طیارے کو بیلاروس جاتے ہوئے اور اسی شام روس لوٹنے کے بارے میں جان لیا تھا۔

واضح رہے کہ ویگنر گروپ ایک نجی فوج ہے جو روس کی فوج کے ساتھ مل کر یوکرین کے خلاف لڑ رہی ہے۔

لیکن میدان جنگ میں ناکامیوں کے بعد گروپ کے سربراہ نے فوج کی ہائی کمانڈ کو ٹی وی پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انھوں نے خصوصا وزیر دفاع سرگئی شوئگو اور چیف آف جنرل سٹاف کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

روس

،تصویر کا ذریعہReuters

کریملن کی جانب سے اس انکشاف کے بعد بی بی سی کے سٹیون روزنبرگ اس کہانی کے تازہ موڑ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

24 جون کی صبح، جس دن ان کے خلاف بغاوت ہوئی، صدر ولادیمیر پوتن نے ویگنر سربراہ پر ’غداری‘ اور ’پیٹھ پیچھے چھرا گھونپنے‘ کا الزام عائد کیا تھا۔

اسی دن ویگنر کے جنگجووں نے روسی ایئر فورس کے پائلٹ ہلاک کر دیے تھے۔ پھر اچانک علم ہوا کہ اب ویگنر گروپ کے مسلح جنگجو روسی دارالحکومت سے 200 کلومیٹر ہی دور رہ گئے ہیں۔

لیکن پھر اچانک ڈیل ہوئی اور بغاوت اپنے انجام کو پہنچی۔ کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ کسی کو سزا نہیں دی گئی۔ یفگینی پریگوژن کو ہتھکڑی تک نہیں لگی۔

اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ بغاوت کے پانچ ہی دن بعد وہ اپنے کمانڈروں کے ہمراہ کریملن میں موجود تھے اور پوتن کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھے گفتگو کر رہے تھے۔

روس

،تصویر کا ذریعہReuters

یہ اس کہانی میں ایک نیا موڑ ہے جس کے اسرار و رموز کسی روسی ناول جیسے ہیں۔

لیکن اب تک جو بات ہمیں معلوم نہیں ہے وہ یہ کہ پوتن اور پریگوژن کی ملاقات میں کیا کہا گیا اور اس کا انجام کیا ہوا۔ لیکن اس ملاقات کے بعد سے اب تک جو کچھ ہوا ہے، اس کا تجزیہ کیا جائے تو یقینا اس میز پر محبت کا اعادہ تو نہیں ہو گا۔

حالیہ دنوں میں روس کے سرکاری میڈیا پریگوژن کی برائیوں میں دن رات ایک کر رہا ہے۔

روسی ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر بھی جاری کی جا چکی ہیں جن میں ان کے سینٹ پیٹرز برگ میں موجود حویلی نما گھر پر چھاپے کے دوران سونے کی اینٹیں، ہتھیار اور بالوں کی وگ بازیاب کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

گزشتہ رات روس کے نیوز آف دی ویک شو پر ان کی کردار کشی کی مہم جاری تھی۔

ان سے متعلق ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ’وہ کوئی رابن ہوڈ نہیں ہیں جیسا کہ وہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ایک مجرمانہ ماضی رکھنے والے کاروباری ہیں۔ ان کے کئی پراجیکٹ شکوک و شبہات سے بھرپور ہیں اور انھوں نے ہمیشہ قانون کے اندر رہ کر کام نہیں کیا۔‘

اور پھر اس ڈیل کا کیا ہوا جس کے تحت 24 جون کو بغاوت کا خاتمہ ہوا؟

معاہدے کے تحت پریگوژن کو مبینہ طور پر روس چھوڑ کر بیلاروس چلے جانا تھا اور اپنے ساتھ ان ویگنر جنگجووں کو بھی لے کر جانا تھا جو ان کا ساتھ دینا چاہتے تھے۔

لیکن گزشتہ ہفتے بیلاروس کے سربراہ الیگزینڈر لوکاشینکو نے ہمیں بتایا کہ یفگینی پریگوژن اور ان کے جنگجو وہاں نہیں ہیں۔ ان کے نکتے کو مختصرا بیان کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’ہو سکتا ہے کہ وہ بیلاروس پہچ جائیں لیکن ایسا نہ ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔‘

یعنی اب سارا معاملہ واضح ہو گیا؟ نہیں۔

ویگنر کے لوگ اب کہاں ہیں؟ یفگینی پریگوژن کہاں ہیں؟ ان کا ارادہ کیا ہے؟ پوتن کے ساتھ ملاقات میں کیا طے پایا؟

کاش میں جان سکتا۔

فی الحال میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ روس کی کہانی کے اگلے موڑ کا انتظار کریں۔

BBCUrdu.com بشکریہ