یوکرین پر روس کا حملہ: یوکرین کے لیے اپنا دفاع کرنا کتنا مشکل ہے؟
- جوناتھن بیل
- دفاعی نامہ نگار، بی بی سی نیوز
روس کے مقابلے میں یوکرین کی فوجی طاقت بہت کم ہے
اب جب روس نے تین اطراف سے یوکرین پر حملہ کیا ہوا ہے، یوکرین کے لیے اپنا دفاع کرنا کتنا مشکل ہو گا؟
یوکرینی فوج اسلحے اور تعداد کے لحاظ سے روس سے بہت پیچھے ہے۔ صدر پوتن کے دور میں فوج کو جدید بنانے کے لیے جتنی سرمایہ کاری کی گئی ہے اس کے بعد یوکرین اور روس کی فوجی طاقت کا کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹوٹ کے ڈاکٹر جیک واٹلنگ کا کہنا ہے: ’میرے خیال میں یوکرین بہت مشکل صورتحال میں ہے اور اس کے فوجی سربراہوں کو بہت مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔‘
مغربی سکیورٹی حکام کے اندازوں کے مطابق روس نے ایک لاکھ 90 ہزار فوج کو یوکرین کی سرحد پر اکٹھا کر رکھا ہے جبکہ یوکرین کی پوری فوج ایک لاکھ 25 ہزار فوجیوں پر مشتمل ہے۔
روسی افواج کئی سمتوں سے یوکرین میں داخل ہو رہی ہیں۔
یوکرین کے لیے روس اور بیلاروس کے ساتھ ہزاروں میل لمبی سرحد کا دفاع کرنا مشکل ہو گا۔ شمال میں بیلاروس سے جنوب میں کریمیا تک ہزاروں میل لمبی سرحد کا دفاع بھی آسان نہیں۔
اگر آپ یوکرین کے نقشے کو گھڑیال کا سامنے والا حصہ تصور کر لیں تو اسے 10 بجے سے 7 بجے تک اپنی سرحد کا دفاع کرنا ہو گا۔
انٹرنیشنل انسٹیٹوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز سے منسلک اور برطانوی فوج کے سابق برگیڈیئر بین بیری سمجھتے ہیں کہ اس کا دفاع بہت مشکل ہو گا۔
اس سے بڑھ کر یہ کہ یوکرین کو کئی اطراف سے خطرات لاحق ہیں اور اس کی افواج ساری جگہوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔.
روس نے یوکرینی شہر خارکیف کے قریب فوجی اڈے کو نشانہ بنایا
روس کی فضائی برتری
لیکن سب سے زیادہ فرق یوکرین اور روس کی فضائی طاقت میں ہے۔
یوکرین کے پاس 105 جنگی طیارے ہیں جبکہ روس کے پاس سرحد پر 300 طیارے موجود ہیں۔ ڈاکٹر جیک واٹلنگ سمجھتے ہیں کہ روس بہت جلد یوکرین پر ہوائی برتری حاصل کر لے گا۔
روس کا جدید دفاعی نظام ایس 400 میزائل بھی روسی ایئر فورس کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اس کے مقابلے میں یوکرین کا ایئر ڈیفنس کا نظام بہت پرانا ہے۔
ڈاکٹر واٹلنگ اسرائیل کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسرائیل کئی اطراف سے اپنی سرحد کا اس لیے دفاع کر لیتا ہے کیونکہ اس کی ہوائی طاقت بہت زیادہ ہے۔ جبکہ یوکرین کے پاس یہ سب کچھ نہیں ہے۔
برگیڈیئر بین بیری کہتے ہیں کہ روس نے ابتدائی حملے میں ہی اپنے حریف کو مغلوب کرنے کا طریقہ وضح کر رکھا ہے جس میں ہوائی، میزائل اور توپ خانے کا مربوط نظام تیار ہے۔ اس کے تحت وہ یوکرین کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر، اسلحہ ڈپو، ایئر فورس اور ایئر ڈیفنس کے نظام کو دور سے ایک ہی وقت میں نشانہ بنا سکتا ہے۔
روس یوکرین کے دارالحکومت کیئو کے نزدیک ٹھکانوں پر کروز میزائلیوں سے حملہ کر کے اس کا عملی مظاہرہ کر چکا ہے۔
مسٹر واٹلنگ کا کہنا ہے کہ روس کے پاس ایسے جدید ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ ہے جس کا یوکرین کے پاس جواب نہیں ہے۔
یوکرین کو حال ہی میں امریکہ اور برطانیہ سے فوجی امداد کی صورت میں کم فاصلے تک فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کے علاوہ اینٹی ٹینک ہتھیار شامل ملے تھے۔
مختصراً یہ کہ یوکرین اور روس کی فوجی طاقت کا کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔
اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ روس اپنے فضائی اور دور تک مار کرنے والے ہتھیاروں کی برتری کے زور پر جلد ہی یوکرین کی افواج کو قابو کر لے گا۔
ڈاکٹر واٹلنگ سمجھتے ہیں کہ یوکرین کی فوج مختلف اطراف سے حملوں سے نمٹنے اور فوجی دستوں کو دوسرے مقامات تک پہنچانے کے شاید قابل ہی نہیں۔
یوکرین کے سب سے زیادہ تربیت یافتہ فوجی لوہانسک اور ڈونیسک کی سرحد پر تعینات ہیں جہاں 2014 سے لڑائی جاری ہے۔
مغربی انٹیلیجنس حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ روس کی جانب سے ان دستوں کو گھیرے میں لیے جانے کا خطرہ موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیے
’یوکرین کی فوج اب زیادہ تربیت یافتہ ہے‘
البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب روس نے کریمیا پر حملہ کیا تھا تو اس وقت کے مقابلے اب یوکرین کی موجودہ فوج زیادہ تربیت یافتہ اور بہتر ہتھیاروں سے لیس ہے۔
برگیڈیئر بین بیری سمجھتے ہیں کہ یوکرینی فوجیوں نے ملک کے مشرقی حصوں میں علیحدگی پسندوں کے ساتھ جنگ میں مفید تجربہ حاصل کیا ہے۔
برگیڈیئر بیری کہتے ہیں کہ یوکرینی فوج نے ملک کے مشرقی حصوں میں جاری جنگ میں زیادہ تر خندقوں میں لڑنے کا تجربہ حاصل کیا ہے لیکن بڑے پیمانے پر جنگ کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔
روسی افواج موبائل راکٹ لانچرز اور ایئر ڈیفنس کے ہمراہ تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا تجربہ رکھتی ہیں اور ان کے پاس کریمیا اور شام کی جنگ کا تجربہ موجود ہے۔
شہروں میں لڑائی
اگر جنگ یوکرین کے شہروں تک پہنچ جاتی ہے تو اس صورت میں یوکرینی افواج کی پوزیشن بہتر ہو سکتی ہے۔ وہ شہروں میں لڑی جانے والی جنگوں میں شہر کا دفاع کرنے والے حملہ آوروں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔
اس کا عملی مظاہرہ دوسری عالمی جنگ کے دوران سٹالن گراڈ اور حالیہ برسوں میں عراقی شہر موصل میں دیکھا جا چکا ہے۔
ڈونیسک کے علاقے میں ایک خاتون راکٹ لگنے کے بعد گھر کے کونے میں نقصان کا جائزہ لے رہی ہے
’روسی فوجی شہری جنگ سے بچ نہیں سکیں گے‘
برگیڈیئر بین بیری سمجھتے ہیں کہ روسی افواج شروع میں شہروں اور قصبوں میں گھسنے سے گریز کریں گے لیکن روسی فوجی شہری جنگ سے بچ نہیں سکیں گے۔
ڈاکٹر جیک واٹلنگ کہتے ہیں کہ اگر یوکرین نے اپنے شہروں کا دفاع کر لیا تو پھر اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ جنگ لمبے عرصے تک چلے۔
ایسی صورت میں برطانیہ نے جو ہتھیار یوکرین کو دیے وہ شاید ان کے بہت کام آئیں جنھیں شہری علاقوں میں ایک جگہ سے دوسرے جگہ باآسانی منتقل کیا جا سکتا ہے۔ کچھ عام شہری بھی شاید ہتھیار اٹھا لیں۔
روس شہروں کو کنٹرول کرنے کے لیے صرف ہوائی حملوں اور توپ خانے پر انحصار نہیں کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر واٹلنگ کہتے ہیں کہ روس کے ایجنٹ پہلے ہی گراؤنڈ پر موجود ہیں۔
ڈاکٹر واٹلنگ سمجھتے ہیں کہ کیئو کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے تخریبی اور غیر روایتی حربے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ روس شہروں کو گھیر کر دور تک مار کرنے والی توپوں کے ذریعے مزاحمت کی آماجگاہوں کو تباہ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے اور پھر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سول سوسائٹی لیڈروں کو قتل کروا سکتا ہے۔
یوکرین اب اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے
یوکرین پچھلے آٹھ برسوں سے ملک کے مشرقی حصوں میں روس کے حمایت یافتہ جنگجووؤں سے لڑ رہا ہے۔ لیکن اب پورے ملک کی بقا کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
ڈاکٹر واٹلنگ، جو حال ہی میں یوکرین سے ہو کر آئے ہیں، کا کہنا ہے کہ یوکرینی شہریوں میں اپنے ملک کو بچانے کا عزم موجود ہے۔
لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا دشمن ان سے بہت زیادہ طاقتور ہے۔
Comments are closed.