روس اور شمالی کوریا کی بڑھتی قربت پوتن اور کم جونگ میں گہری دوستی کی علامت یا صرف ضرورت؟
- مصنف, ٹیسا وونگ
- عہدہ, ایشیا ڈیجیٹل رپورٹر، بی بی سی نیوز
شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن نے روس میں ولادیمیر پوتن سے ملاقات کی ہے جس میں اسلحے کے معاہدے کی توقع کی جا رہی ہے۔
روس کے سرکاری میڈیا کے مطابق ووسٹوچنی خلائی مرکز میں بات چیت ختم ہونے کے بعد شمالی کوریا کے رہنما کم جانگ اُن نے اپنی نجی بکتر بند ٹرین میں سفر کیا۔
بدھ کو بات کرتے ہوئے صدر پوتن نے کہا کہ دونوں سربراہوں نے فوجی تعاون کے ’امکانات‘ پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
ماسکو نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بدلے میں پیانگ یانگ کو سیٹلائٹ تیار کرنے میں مدد کرے گا۔
فریقوں نے امریکہ کے اس دعوے کی تردید کی کہ بات چیت کا مقصد یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کی حمایت کے لیے ہتھیار خریدنا ہے۔
جدید خلائی ٹیکنالوجی کے علاوہ، کم جونگ اُن نے بدلے میں خوراک کی مد میں امداد کی بھی خواہش ظاہر کی ہے۔
پابندیوں کی شکار دونوں ریاستوں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دونوں اطراف کے اعلیٰ حکام شامل تھے۔
واضح رہے کہ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب مغرب کے ساتھ ان کے تعلقات اب تک کے بد ترین دور سے گُزر رہے ہیں۔
اس اعلیٰ سطحی دورے میں کِم جونگ اُن دو دن کا سفر کر کے جب روس پہنچے تو صدر پوتن نے نہایت گرمجوشی سے اُن کا استقبال کیا۔ روس کے سرکاری میڈیا نے وہ لمحات محفوظ کیے جب دونوں رہنماؤں نے مُسکراتے ہوئے مصافحہ کیا۔
سوویت یونین اور شمالی کوریا کے درمیان تاریخی تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے صدر پوتن نے روسی کہاوت کے ساتھ اپنے ہم منصب کا خیر مقدم کیا ’ایک پرانا دوست دو نئے سے بہتر ہے۔‘
سالِ رواں کے اوائل میں شمالی کوریا نے دو مرتبہ جاسوسی کی غرض سے سیٹلائٹ لانچ کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تاہم اب پیانگ یانگ فوجی نگرانی کی صلاحیتوں کو بڑھانے کی غرض سے ایک نئی تیار کرنے کا منصوبے رکھتا ہے۔
دریں اثنا، کم جونگ اُن یوکرین میں صدر پوتن کی جنگ کی حمایت کا اظہار کرتے بھی نظر آئے۔
کم جونگ اُن نے صدر پوتن کو بتایا کہ ’روس مغرب کی بالادستی کی طاقتوں کے خلاف اپنی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لیے ایک مقدس جنگ میں کھڑا ہوا ہے۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم ہمیشہ صدر پوتن اور روسی قیادت کے فیصلوں کی حمایت کریں گے اور ہم سامراج کے خلاف جنگ میں ساتھ رہیں گے۔‘
تاہم دوسری جانب منگل کے روز، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ دونوں ممالک (روس اور شمالی کوریا) کے درمیان ہتھیاروں کا کسی بھی قسم کا معاہدہ یا منتقلی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہو گی اور یہ یوکرین کی جنگ کے دوران ’اُس مایوسی کی علامت ہے جس میں روسی حکومت خود مبتلا ہے۔‘
میتھیو ملر نے مزید کہا کہ ’اگر ضرورت پڑی تو ہم اِن لوگوں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے کارروائی کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔‘
ولادیمیر پوتن اور کم جونگ ان میں بہت کچھ مشترک ہے۔ یہ دونوں کم ہی ملک سے باہر نکلتے ہیں۔ صدر پوتن بھی رواں برس روس سے باہر نہیں گئے ہیں۔ کم جونگ تو چار برس سے اپنے ملک سے باہر نکلے ہی نہیں۔
روس اور شمالی کوریا دونوں پر ’غاصب ریاستیں‘ بننے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ دونوں ہی سخت بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں ہیں۔
دونوں حکومتیں امریکہ کی ’تسلط پسندی‘ کے خلاف ہیں۔ اکثر ایک مشترکہ دشمن، رہنماؤں کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتا ہے اور یہی معاملہ صدر پوتن اور کم جونگ کا ہے۔
دونوں کی یہ قربت اگر قدرتی نہیں بھی تو پھر بھی اس وقت زمینی حقائق کے پس منظر میں یہ ضرور قائم ہے۔
دونوں میں گہری دوستی ہے؟ بالکل نہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس جنھوں نے ایک بار یہ برملا کہا تھا کہ انھیں کم جونگ سے ’محبت ہو گئی‘ ہے۔
روس اور شمالی کوریا کے رہنما اپنی عوامی محبت کے اظہار میں زیادہ بات نہیں کرتے تاہم ولادیمیر پوتن اور کم جونگ دونوں کو ہی قریبی تعلقات سے ممکنہ فوائد واضح نظر آ رہے ہیں۔
کیتھ اور کم
لیکن ایک طاقت عالمی نظام کو الٹ دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یوکرین پر اپنے بھر پور حملے سے ولادیمیر پوتن نے عالمی نظام کو روس کی پسند کے مطابق بنانے کے اپنے عزم کا اشارہ دیا۔ شمالی کوریا کے ساتھ فوجی تعاون اس کی ایک اور علامت ہو سکتی ہے۔
ماسکو اور پیانگ یانگ کے درمیان ہتھیاروں کا معاہدہ کافی تبدیلی کا عکاس ہو گا۔ حال ہی میں روس، شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کا شید حامی تھا دیگر پابندیوں کے علاوہ شمالی کوریا کے ساتھ ہتھیاروں کی تجارت پر بھی پابندی عائد کرانے میں خود روس پیش پیش تھا۔
روسی اخبار موسکوفسکی کومسومولٹس نے گذشتہ ہفتے اپنے قارئین کو یاد کرایا کہ کیسے ماسکو نے سلامتی کونسل کی ان قراردادوں پر اپنے دستخط ثبت کر رکھے ہیں۔
چلیں کوئی بات نہیں۔ دستخط تو واپس بھی لیے جا سکتے ہیں۔
اخبار نے روس کی کونسل برائے خارجہ اور دفاعی پالیسی کے چیئرمین فیوڈور لوکیانوف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ایک طویل عرصے سے یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ ہم ان پابندیوں پر عمل پیرا کیوں ہیں؟ بین الاقوامی تعلقات کا پورا نظام مکمل طور پر تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے۔‘
ان کے مطابق ’یقیناً، اقوام متحدہ کی پابندیاں جائز ہیں۔ اس سے انکار کرنا مشکل ہے۔ ہم نے بھی ان پابندیوں کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن صورتحال بدل گئی ہے۔ کیوں نہ ہمارا ووٹ منسوخ کر دیا جائے؟‘
یہ کم جونگ ان کے کانوں کے لیے ایک بہترین موسیقی ہو گی۔
کریملن ان تعلقات سے کیا فوائد اٹھا سکتا ہے؟
اب دونوں رہنماؤں کی قربت کے بعد یہ سوال تو ذہن میں آتا ہے کہ اس میں کریملن کو کیا فائدہ حاصل ہو سکے گا۔
فوری طور پر یہ بات اہم ہے کہ شمالی کوریا کے پاس بڑے پیمانے پر پیداواری صلاحیتوں کے ساتھ ایک بہت بڑی دفاعی صنعت موجود ہے۔ یوکرین کے خلاف جنگ کے لیے روس کے لیے ’پیانگ یانگ‘ جنگی سازوسامان کا ایک قیمتی ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔
واشنگٹن کو شبہ ہے کہ کریملن پہلے ہی سے اس ڈیل کے خدوخال طے کر چکا ہے۔
امریکہ کا دعویٰ ہے کہ روس اور شمالی کوریا کے درمیان ہتھیاروں کی بات چیت ’فعال طور پر آگے بڑھ رہی ہے‘ جس میں روس مبینہ طور پر گولہ بارود اور توپ خانے کے گولوں کی فراہمی کا مطالبہ کر رہا ہے۔
روسی حکام کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی لیکن بہت سارے غیر واضح اشارے ہیں کہ روس اور شمالی کوریا فوجی تعاون کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
جولائی میں سرگئی شوئیگو سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد شمالی کوریا کا دورہ کرنے والے پہلے روسی وزیر دفاع ہیں۔ اس دورے میں انھوں نے کوریا کی جنگ بندی کی 70ویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ تقریبات میں شرکت کی۔
کم جونگ نے ٹور گائیڈ کا کردار ادا کرتے ہوئے سرگئی شوئیگو کو ہتھیاروں کی نمائش کرائی۔ وزیر دفاع نے یہ اشارہ بھی دیا کہ مشترکہ فوجی مشقیں ابھی زیر غور ہیں۔
ہمیشہ کا اتحاد
شمالی کوریا روس سے اور کیا حاصل کرنے کی امید کر سکتا ہے؟ یقینی طور پر شمالی کوریا کی خوراک کی کمی کو دور کرنے میں انسانی امداد۔
یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ پیانگ یانگ جوہری طاقت سے چلنے والی آبدوزوں، مصنوعی سیاروں اور فوجی استعمال کے لیے جدید روسی ٹیکنالوجی کی تلاش میں ہے۔
یوکرین جنگ کے تناظر میں ماسکو کومزید ہتھیاروں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
اس کو حاصل کرنے میں مدد کے ایک طریقہ کے طور پر پیانگ یانگ کے ساتھ معاہدے کو اچھی طرح دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ شمالی کوریا کی مدد کے بغیر روس کی جنگی سازوسامان رک جائے گا۔
سابق وزیر خارجہ آندرے کوزیریف کا خیال ہے کہ ’پوتن مایوس نہیں۔ وہ اس صورتحال کو بہت طویل عرصے تک برقرار رکھ سکتے ہیں اور نئے طریقے سے موافقت اختیار کر سکتے ہیں۔ وہ ہر روز پابندیوں کے متعلق سوچتے ہیں۔‘
چین کے ساتھ شمالی کوریا اور افریقہ کی کچھ حکومتوں کے ساتھ کیسے تعاون کرنا ہے۔ یہ مستقبل کے لیے کوئی متبادل نہیں لیکن یہ موجودہ وقت کے لیے ایک متبادل ہے اور شاید آئندہ آنے والے برسوں کے لیے بھی ایسا ہی ہے۔
Comments are closed.