- مصنف, ڈیانا کرشیکو
- عہدہ, بی بی سی نیوز، یوکرینیئن
- ایک گھنٹہ قبل
’اس نے ٹن کے ڈبے سے شادی کی انگوٹھی بنائی اور مجھ سے پوچھا کہ کیا میں اس سے شادی کروں گی۔ میں نے ہاں کہہ دیا۔‘ ولیریا سبوٹینا کو وہ وقت یاد ہے۔’وہ میری محبت تھا۔ ہماری انگوٹھیاں بہترین تھیں۔‘ولیریا اور ان کے 34 سالہ شوہر آندریے سبوٹن، جو یوکرین کی فوج میں کپتان تھے، جنگ سے قبل ماریپول شہر میں شادی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔انھوں نے سوچ رکھا تھا کہ وہ دوستوں اور گھر والوں کے لیے ایک بڑی تقریب کا اہتمام کریں گے۔ لیکن روس کی جانب سے حملہ ہونے کے چند ہی دن کے اندر روسی فوج نے یوکرین کے جنوب میں واقع اس اہم ساحلی شہر کا رخ کرتے ہوئے اس کا محاصرہ کر لیا۔
شہر پر مسلسل گولہ باری کی وجہ سے گلیوں میں تباہی مچ گئی، خوراک، بجلی اور پانی نایاب ہو گئے اور باہر نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہ رہا۔ روسی فوج کا محاصرہ تین ماہ تک قائم رہا جس کے دوران ہزاروں عام شہری بھی ہلاک ہوئے۔اس دوران ماریپول کے کئی شہریوں نے پناہ کی تلاش میں ازوسٹال سٹیل پلانٹ کا رخ کیا جہاں سوویت یونین دور میں جوہری جنگ کے خدشے کے تحت 30 سے زیادہ بم شیلٹر یا پناہ گاہیں بنائی گئی تھیں۔اسی پلانٹ میں ولیریا کی شادی ہوئی اوراگلے ہی دن ہ بیوہ بھی ہو گئیں۔
’قحط‘
روسی حملے سے قبل ولیریا باقاعدہ طور پر شاعری کیا کرتی تھیں۔ لیکن جلد ہی وہ یوکرین نیشنل گارڈ کے ازوو بریگیڈ کی پریس افسر بن چکی تھیں۔ جیسے جیسے روسی حملے میں شدت آتی گئی، یوکرینی فوجی بھی اسی سٹیل پلانٹ کی جانب پسپا ہوتے چلے گئے۔ولیریا نے بتایا کہ ’فیکٹری میں بنے بنکروں میں داخل ہونے کا راستہ ایک گڑھے جیسا تھا اور اندر جانے کے لیے تباہ حال سیڑھیوں سے نیچے اترنا پڑتا۔‘،تصویر کا ذریعہOREST DMYTRO KOZATSKY
،تصویر کا ذریعہVALERIYA SUBOTINA’S FACEBOOK PAGE
جنگی قیدی
مئی میں سٹیل فیکٹری میں پناہ لینے والے ہزاروں لوگوں کو باہر نکلنے کی ضرورت تھی کیوں کہ خوراک اور دوایاں ختم ہو چکی تھیں۔عام شہریوں کو فیکٹری سے جانے کی اجازت دی گئی جس کے بعد فوجیوں کو روسی فوج نے قیدی بنا لیا۔ اس بات کی امید تھی کہ ان یوکرینی فوجیوں کو تبادلے میں رہا کر دیا جائے گا۔لیکن دو سال تک ہزاروں یوکرینی فوجی، جن میں ولرییا کے بریگیڈ کے 900 فوجی بھی شامل تھے اور قومی ہیرو مانے جاتے تھے، روسی قید میں رہے۔ان فوجیوں کے اہلخانہ نے یوکرین کی حکومت کے سامنے کئی بار احتجاج کیا لیکن جنگی قیدیوں کے تبادلے کا عمل پیچیدہ ہوتا ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب جنگ بھی جاری ہو۔،تصویر کا ذریعہVALERIYA SUBOTINA’S FACEBOOK PAGE
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.