روسی ’قوم پرست‘رہنما ایگور گرکن کو سزا مسافر بردار طیارہ مار گرانے پر ہوئی یا پوتن کی توہین پر؟،تصویر کا ذریعہMAXIM SHIPENKOV/EPA-EFE/REX/SHUTTERSTOCK
،تصویر کا کیپشنگرکن قوم پرست محب وطن ہیں
ایک گھنٹہ قبلآخری بار میں نے ایگور گرکن کو پانچ سال قبل ماسکو کی ایک نیوز ایجنسی کی عمارت میں زینوں پر دیکھا تھا۔اور میں نے ان سے پوچھا تھا کہ ’کیا آپ مجھے ایک انٹرویو دینے پر غور کریں گے؟‘ جس پر انھوں نے پلٹ کر ’نہیں‘ میں جواب دیا اور تیز قدموں سے آگے بڑھ گئے۔میں نے آج پھر انھیں دیکھا۔ اس بار وہ سیڑھیوں پر نہیں تھے۔ اس بار گرکن ماسکو سٹی کورٹ میں پولیس کے گھیرے میں تھے۔دوسرے میڈیا ہاؤس کے ساتھ ہمیں بھی ان کے مقدمے کی سماعت ختم ہونے سے قبل صرف ایک منٹ کے لیے فلم کرنے کی اجازت دی گئی۔

دریں اثنا پولیس کا کتا بھونکتا رہا۔ گرکن کو یہ فیصلے سے زیادہ دلچسپ لگا۔ چند منٹ بعد انھیں انتہا پسندی کے الزامات میں قصوروار ٹھہرایا گیا اور انھیں چار سال قید کی سزا سنائی دی گئی۔واضح رہے کہ یہ پہلی بار نہیں کہ انھیں کو‏‏‏ئی سزا سنائی گئی ہے۔سنہ 2022 میں نیدر لینڈ کے شہر دی ہیگ میں گرکن کو ان کی غیر موجودگی میں ملائیشین ایئرلائنز کی فلائٹ ایم ایچ 17 کے 298 مسافروں اور عملے کے قتل کا مرتکب پایا گيا تھا۔بوئنگ جیٹ کو سنہ 2014 میں مشرقی یوکرین میں روس کی جنگ کے ابتدائی مراحل میں روس کے زیر کنٹرول فورسز نے مار گرایا تھا۔گرکن ان تین افراد میں سے ایک تھے جنھیں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ لیکن انھوں نے اس فیصلہ کو نظر انداز کر دیا تھا۔سیڑھیوں پر ٹکرانے کے ایک سال بعد میں فون پر گرکن تک رسائی حاصل کرنے میں اور ان سے دی ہیگ کے فیصلے کے بارے میں پوچھنے میں کامیاب رہا۔انھوں نے مجھے بتایا کہ ’میں اس معاملے پر ڈچ عدالت کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا۔‘’میں ایک فوجی ہوں اور میں اس بات کو قبول نہیں کرتا کہ کوئی غیر ملکی شہری عدالت کے پاس کسی ایسے شخص کو مجرم قرار دینے کا اختیار ہے جس نے کسی اور کی خانہ جنگی میں حصہ لیا ہو، صرف اس وجہ سے کہ اس کے شہری مارے گئے تھے۔‘’کیا آپ جانتے ہیں کہ (طیارے) کو کس نے مار گرایا؟‘انھوں نے کہا کہ ’باغیوں نے بوئنگ کو مار کر نہیں گرایا۔ اور میرے پاس کہنے کو مزید کچھ نہیں ہے۔‘اس پر میں نے پوچھا کہ ’اگر وہ باغی نہیں تھے تو کیا روسی فوجی تھے؟‘’یہی بات ہے۔ الوداع۔‘ اور انھوں نے فون منقطع کر دیا۔اب انھیں جیل بھیجا جا رہا ہے۔ لیکن اجتماعی قتل کے لیے نہیں اور نہ ہی زندگی بھر کے لیے۔

،تصویر کا کیپشنگرکن نے سنہ 2020 میں کہا تھا کہ وہ دی ہیگ عدالت کو نہیں مانتے

گرکن دراصل کون ہیں؟

تو آخر گرکن دراصل کون ہیں، جنھیں ان کے دوسرے نام ایگور سٹریلکوف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اور ماسکو کی عدالت نے انھیں جیل کیوں بھیجا ہے؟وہ روس کی ڈومیسٹک سکیورٹی سروس میں ایف ایس بی کے سابق افسر رہ چکے ہیں۔ سنہ 2014 میں انھوں نے یوکرین کے ڈونباس کے علاقے میں لڑائی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ یہ وہ تنازع ہے جسے ماسکو نے ترتیب دیا تھا۔اس وقت وہ مشرقی یوکرین میں روس نواز ملیشیا کو منظم اور کمانڈ کر رہے تھے۔نیدر لینڈ کی عدالت نے بعد میں یہ فیصلہ دیا کہ مشرقی یوکرین میں لڑنے والی علیحدگی پسند قوتوں پر روس کا کنٹرول تھا اور یہ کہ گرکن نے یوکرین میں بک میزائل سسٹم لانے میں مدد کی تھی جسے پرواز ایم ایچ-17 کو مار گرانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔سنہ 2022 میں یوکرین پر روس کے مکمل حملے کے بعد الٹرا نیشنلسٹ گرکن جنگ حامی ایک ممتاز بلاگر بن گئے۔

وہ روسی حکام کے جنگ لڑنے کے طریقے پر شدید تنقید کرنے لگے کیونکہ ان کے خیال میں وہ سخت حملہ نہیں کر رہے تھے۔انھوں نے ’دی کلب آف اینگری پیٹریٹس‘ نامی ایک سخت گیر قوم پرست تحریک کی بنیاد بھی رکھی۔ان کے لیے پریشانی اس وقت شروع ہوئی جب انھوں نے اپنا غصہ صدر ولادیمیر پوتن پر نکالنا شروع کیا۔روسی صدر کے لیے ان کی عوامی تنقید توہین میں بدل گئی۔ گذشتہ سال ایک پوسٹ میں گرکن نے پوتن کو ’غیر اہم شخص‘ اور ’خلا کا بزدل فضلہ‘ قرار دیا۔چند روز بعد انھیں گرفتار کر لیا گیا اور پھر ان پر مقدمہ چلایا گیا اور سزا سنائی گئی۔بلاشبہ چار سال قید کی سزا روسی عدالتوں کی طرف سے سنائی گئی دیگر حالیہ سزاؤں کے مقابلے میں ہلکی ہے۔پچھلے سال جمہوریت کے حامی کارکن ولادیمیر کارا مورزا کو غداری کے جرم میں 25 سال قید کی سنائی گئی تھی۔ وہ اور ان کے حامیوں کا اصرار ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ سیاسی مقصد کے تحت چلایا گيا ہے۔،تصویر کا ذریعہMAXIM SHIPENKOV/EPA-EFE/REX/SHUTTERSTOCK

،تصویر کا کیپشنگرکن کے کچھ حامیوں کو ماسکو میں حراست میں لے لیا گيا

سزا پر رد عمل کیا ہوگا؟

گرکن کی قید کی سزا پر ’اینگری پیٹریٹس‘ کا کیا ردعمل ہوگا؟ کیا وہ احتجاج میں سڑکوں پر اتریں گے؟اس کا جواب نفی میں ہے۔ چند درجن حامی ماسکو سٹی کورٹ کے باہر جمع ہو کر ’سٹریکوو (گرکن) کو رہا کرو‘ کے نعرے لگا رہے تھے لیکن ان کی نعروں میں کوئی جان نہیں تھی۔وہاں موجود ڈینس نے کہا کہ ’ایک روسی قوم پرست محب وطن پر مقدمہ چلایا گيا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے لوگ جاگیں گے اور لڑیں گے۔ بدقسمتی سے ہمیں زیادہ حمایت نظر نہیں آرہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر کوئی چھپ رہا ہے۔‘وہاں موجود ہجوم میں ریٹائرڈ کرنل اور کھل کر بولنے والے الٹرا نیشنلسٹ ولادیمیر کواچکوف بھی تھے۔انھوں نے کہا کہ ’روس ہمیشہ اینگلو سیکسن مغرب کا دشمن رہے گا‘ اور مجھے یقین دلایا کہ برطانیہ کا ٹوٹنا ناگزیر ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسٹر کواچکوف نے دعوی کیا کہ گرکن کو ’نظام کے خلاف لڑنے‘ کی سزا دی جا رہی ہے۔حالیہ برسوں میں ’نظام‘ نے روس کے سیاسی منظر نامے کو جمہوریت کے حامیوں، مغرب نواز ناقدین اور چیلنج کرنے والوں سے پاک کرنے پر مرکوز رکھا ہے۔گرکن کو دی جانے والی قید کی سزا سے پتہ چلتا ہے کہ روسی حکام نے اب اس کے دوسری طرف کے ناقدین ’نام نہاد الٹرا محب وطن‘ کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اور اس کی وجہ یوگینی پریگوزن کی قیادت میں ویگنر کے کرائے کے فوجیوں کی گذشتہ سال کی بغاوت ہو سکتی ہے۔پوتن حکومت اس چیلنج سے بچ گئی۔ لیکن اس ڈرامے نے کریملن کو روسی معاشرے میں انتہائی متحرک قوم پرست اور محب وطن عناصر کے ممکنہ خطرات سے آگاہ ضرور کر دیا۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}