ولادیمر پوتن: روسی صدر اب کیا منصوبہ بنا رہے ہیں؟
- سٹیو روزنبرگ
- بی بی سی نیوز، ماسکو
جب ایک خفیہ ایجنسی کے جی بی کے سابقہ افسر دو دہائیوں قبل روس کے صدر بنے، تو مغربی ممالک میں ہر کسی کی زبان پر یہی سوال تھا کہ ‘مسٹر پوتن کون ہیں؟
آج وہ سوال تبدیل ہو گیا ہے اور اب سب یہی پوچھ رہے ہیں کہ ‘مسٹر پوتن کیا منصوبہ تیار کر رہے ہیں؟’
ہزاروں روسی فوجی یوکرین کی سرحد پر تعینات کیے گئے ہیں، ماسکو میں مغربی ممالک کے خلاف بیانیہ عروج پر ہے، روس کی جانب سے کیا گیا ایک سفارتی اقدام جو سنجیدہ بات چیت سے زیادہ مغرب کو دھمکی دینے کی کوشش نظر آتی ہے، تو کیا یہ سب تیاریاں ایک بڑے روسی فوجی آپریشن کے لیے ہیں؟
کیا یوکرین پر قبضے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں؟ کیا یہ تمام اقدامات جنگ کا پیش خیمہ ہیں؟
ماسکو میں اکثر غیر ملکی صحافیوں کی طرح میرے پاس بھی کریملن یعنی روسی حکومت کے مرکز کے پریس آفس کا ٹیلی فون نمبر ہے۔ لیکن جو چیز میرے پاس نہیں ہے وہ ولادیمیر پوتن کے ذہن تک رسائی ہے۔
شاید صرف وہی جانتے ہیں کہ اس وقت اندرونی اور بیرونی معاملات کے حوالے سے کیا منصوبے ہیں اور وہ سب کو پہیلیاں بجھوا رہے ہیں۔
لیکن چند باتیں کافی واضح ہیں۔
اس ہفتے سوویت یونین کے خاتمے کو 30 برس گزر چکے ہیں۔ صدر پوتن نے اسے 20ویں صدی کا سب سے بڑا جیو پولیٹکل سانحہ قرار دیا تھا۔ انھیں اس بات کا اب بھی افسوس ہے کہ سرد جنگ کا اختتام ماسکو سے زمین، اثرو رسوخ اور سلطنت کھونے کی صورت میں ہوا۔
انھوں نے ایک حالیہ ریاستی ٹی وی ڈاکیومینٹری میں کہا کہ ‘سوویت یونین کا خاتمہ کیا تھا؟ یہ دراصل یہ تاریخی روس کا خاتمہ تھا۔ ہم نے 40 فیصد اراضی کھو دی۔۔۔ اکثر وہ چیزیں جو ہم نے پچھلے 1000 برس میں سمیٹی تھیں، کھو دی گئیں۔’
کریملن کو اس بات کا بھی افسوس ہے کہ ناٹو نے سرد جنگ کے بعد سے مشرق کی جانب اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ ماسکو کی جانب مغرب پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے زبانی دعدے توڑے ہیں کے یہ نیٹو اتحاد مشرقی یورپ میں داخل نہیں ہو گا جو سابقہ سوویت یونین کا حصہ تھا۔ نیٹو کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی وعدہ کبھی کیا ہی نہیں گیا تھا۔
کیا روس وہ سب ختم کر سکتا ہے جو ہو چکا ہے؟ وہ بظاہر اس کی کوشش ضرور کر رہا ہے۔
گذشتہ ہفتے ڈپٹی وزیرِ خارجہ سرجی ریابکوو نے اس سکیورٹی معاہدے کے مسودے کی رونمائی کی جس پر ماسکو امریکہ کے دستخط چاہتا ہے۔ اس پر دستخط کرتے ہوئے امریکہ کو یہ گارنٹی دینا ہو گی کہ نیٹو مشرقی یورپ اور یوکرین میں اپنی کارروائیاں ختم کر دے گا۔
اس معاہدے کے تجاویز کے مطابق نیٹو ان ممالک میں اپنی افواج تعینات نہیں کر سکے گا جو 1997 کے بعد اس کے اتحادی بنے ہیں۔ روس کی جانب سے سابقہ سوویت اراضی میں بھی نیٹو کی توسیع کے خاتمے کی بات کی جا رہی ہے۔
ایک آن لائن بریفنگ میں میں نے مسٹر ریابکوو سے کہا تھا کہ روس کی تجاویز دراصل ‘سرد جنگ کے نتائج کا ازسرِ نو جائزہ لینے کے مترادف ہے۔’
انھوں نے جواب دیا تھا کہ ‘میں اسے سرد جنگ کے نتائج کا از سرِ نو جائزہ تو نہیں کہوں گا لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہم مغرب کی جانب سے حالیہ سالوں میں روسی مفاد کے خلاف اثر و رسوخ بڑھانے کی روش کا دوبارہ جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ مختلف طریقوں سے کیا گیا ہے اور اس میں مختلف وسائل کا استعمال کیا گیا ہے اور ایسا جارحانہ انداز میں کیا گیا ہے۔ اب حد ہو چکی ہے۔’
نیٹو جو ایک دفاعی اتحاد ہے اس الزام کی تردید کرتا ہے کہ اس کے روس کے خلاف ’جارحانہ ارادے‘ ہیں۔
اور جہاں تک بات ’اب حد ہو چکی ہے‘ کی ہے تو مغربی حکومتیں کریملن کے رویے کے بارے میں بھی یہیں کہتی ہیں۔
ماسکو کی جانب سے کرائمیا سے سنہ 2014 میں الحاق اور مشرقی یوکرین میں اس کی جانب سے فوجی کارروائیوں نے مغربی ممالک کی جانب سے اس پر پابندیاں لگوائیں اور ولادیمیر پوتن کے روس ایک جارحیت پسند ملک کے طور پر سامنے آیا۔ یہی وجہ ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین کی سرحد پر فوجیوں کی تعداد بڑھانے سے خدشات جنم لے رہے ہیں۔
اگر روس کو وہ سکیورٹی گارنٹیاں نہیں ملتیں جو وہ چاہتا ہے تو پھر کیا ہو گا؟
روس کے سرکاری ٹی وی پر ایک مقبول شو کے میزبان اور کریملن کا پیغام عوام تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے دمیتری کیزیلیو کہتے ہیں کہ ’ہم میزائل نصب کر دیں گے۔ ہمارے پاس اس کے سوا کو چارا نہیں ہے۔ ہم یہ نہیں چاہتے۔‘
کیزیلیو جو خود بھی مغربی پابندیوں کا شکار ہیں، وہ ایک بڑے ریاستی میڈیا ہاؤس راسیا سیگادنیا کے سربراہ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر یوکرین نیٹو کا حصہ بنتا ہے یا نیٹو اپنی فوجی تنصیبات یوکرین میں بناتا ہے تو ہم امریکہ کے سر پر بندوق رکھ دیں گے۔ ہمارے پاس اتنی فوجی صلاحیت موجود ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’روس کے پاس دنیا کے بہترین ہتھیار بھی ہیں، ہائپرسانک بھی۔ وہ امریکہ اتنی ہی رفتار سے پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جتنی امریکی اور برطانوی ہتھیار ماسکو یا یوکرین تک پہنچنے کی۔ یہ کیوبن میزائل تنازع جیسا ہو سکتا ہے لیکن اس دوران میزائلوں کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کا وقت کم ہو گا۔‘
میں کیزیلیو سے پوچھا کہ ’کیا روس اپنی ریڈ لائنز کی حفاظت کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کے لیے تیار ہے؟‘
’ایک سو فیصد تیار ہے، کیونکہ روس کے لیے یہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔‘
تاہم میں نے پھر سوال کیا کہ ’روس اپنے ہمسائیوں کو احکامات دے رہا ہے۔ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ قازقستان، آزربائیجان، مولڈووا یہ تمام سابقہ سوویت ریاستیں نیٹو کے ساتھ نہیں دے سکتیں؟‘
انھوں نے جواب میں کہا کہ ’روس کے ہمسایہ ممالک یا تو خوش نصیب ہوتے ہیں یا بدنصیب۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ وہ اسے تبدیل نہیں کر سکتے۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے میکسیکو کے لیے ہے۔ یا تو وہ خوش نصیب ہے یا بدنصیب کے وہ امریکہ کے اتنے قریب ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ بہتر ہو گا کہ ہمارے مفادات کے مطابق فیصلے کیے جائیں اور روس کو ایسی پوزیشن میں نہ ڈالا جائے کے میزائل یہاں چار منٹ میں پہنچ سکتے ہیں۔ روس بھی ایسا ہی خطرہ پیدا کر سکتا ہے اور اپنے ہتھیاوں کو اپنے فیصلہ ساز مرکز کے قریب نصب کر سکتاہے۔ لیکن ہم ایسے کسی بھی نتیجے سے بچنے کی بات کر رہے ہیں، تاکہ خطرات نہ پیدا ہوں۔ ورنہ سب کچھ تابکاری راکھ میں تبدیل ہو جائے گا۔
تو کیا روس کی جانب سے یوکرین کی سرحد پر فوج میں اضافہ سفارتی طور پر دباؤ بڑھانے کی کوشش ہے؟ کیا کریملن کا مقصد واشنگٹن سے جنگ کیے بغیر سکیورٹی گارنٹیاں اور رعایت حاصل کرنا ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو اس طرزِ عمل کے گرد خطرات بھی بہت زیادہ ہیں۔
اینڈری کورٹینوو روسی انٹرنیشنل افیئرز کونسل کے ڈائریکٹر جنرل ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ‘اس وقت ایک نادانستہ کشیدگی پیدا ہونے کا ممکنہ خطرہ موجود ہے چاہے وہ ڈانباز میں ہو، روس اور یوکرین کی سرحد کے ساتھ، یا شاید بحیرہ اسود میں۔
‘اگر آپ کسی کشیدگی میں فریق ہیں یا آپ کے ہاں ایک انتہائی زہریلا سیاسی ماحول ہے اور آپ کی فوجی کارروائیاں بہت زیادہ ہیں چاہے وہ بری ہوں، بحری ہوں یا فضائی، یہ خطرہ ہمیشہ رہے گا کہ اگر کچھ غلط ہو گیا تو کیا ہو گا۔ اس سے ایک ایسا تنازع پیدا ہو سکتا ہے جو کسی کے حق میں نہیں ہے۔
اور اگر ایک بڑا تنازع کھڑا ہو گیا؟ روسی عوام میں کرائمیا کی آزادی خاصی مقبول ہوئی تھی۔ تاہم روسی یوکرین کے خلاف جنگ یا مغربی ممالک کے ساتھ تناؤ کے بھی حق میں نہیں نظر آتے۔
Comments are closed.