بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

روسی دولت یو اے ای منتقل کرنے والے ’سہولت کار‘ شیخ منصور بن زید کون ہیں؟

روس، یوکرین تنازع: روسی دولت یو اے ای میں منتقل کرنے والے ’سہولت کار‘ شیخ منصور بن زید کون ہیں؟

الشيخ منصور بن زيد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

الشيخ منصور بن زيد

متحدہ عرب امارات سے باہر شیخ منصور بن زید النہیان انگلش فٹبال کلب مانچسٹر سٹی کے مالک کے طور پر مشہور ہیں۔ اپنے ملک میں وہ نائب وزیراعظم اور حکمران خاندان کے ایک اہم رکن ہیں۔

تاہم ابوظہبی کے روسیوں کے ساتھ تعاون سے واقف متعدد ذرائع نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، بلومبرگ ایجنسی کو بتایا ہے کہ پردے کے پیچھے شیخ منصور کا بھی ایک کردار ہے، ایک ایسا کردار جس کی اہمیت حالیہ مہینوں میں بڑھ گئی ہے۔

ان کی ذمہ داریوں میں ایسے دولت مند روسیوں کے ساتھ روابط کو استوار کرنا شامل ہے جو متحدہ عرب امارات میں رقم کی منتقلی کے منتظر ہیں۔

ان ذرائع نے مزید کہا ہے کہ شیخ منصور ایک طویل عرصے سے روس اور امارات کے تعلقات میں بہتری کی کوششوں میں شامل رہے ہیں، لیکن یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے اُن کے کردار کی اہمیت ابھر کر سامنے آئی ہیں۔

یوکرین پر حملے سے قبل شیخ منصور بن زید نے امارات کے ’حقیقی‘ حکمران ولی عہد محمد بن زید کے ہمراہ روسی کمپنیوں کے ساتھ مختلف ملاقاتیں کیں۔ اور سنہ 2019 میں، جب محمد بن زاید نے ابوظہبی میں روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کی تو وہ وہاں موجود تھے۔

یوکرین پر حملے سے پہلے امارات میں آنے والے سیاحوں میں روسی شہری چوتھے نمبر پر تھے۔ سنہ 2022 کے پہلے دو مہینوں میں دبئی جانے والے روسی سیاحوں کی تعداد تقریباً 137,000 تھی جو گذشتہ برس سال سے دوگنی سے بھی زیادہ ہے۔

یوکرین پر حملے کے بعد امریکہ، یورپی یونین اور دیگر ممالک نے روس پر نئی ​معاشی پابندیاں لگا کر اسے دنیا کا سب سے زیادہ پابندیوں کا سامنا کرنے والا ملک بنا دیا، لیکن متحدہ عرب امارات نے اب تک روس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔

حکام نے موقف اختیار کیا ہے کہ ابوظہبی بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتا ہے، لیکن اسے بعض ممالک کی طرف سے نافذ کردہ طریقہ کار پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

الإمارات وروسيا

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اسرائیل اور انڈیا سمیت امریکہ کے دیگر اتحادیوں نے بھی متحدہ عرب امارات جیسا ہی موقف اختیار کیا ہے۔

لیکن اس موقف نے کچھ مغربی حکام کو پریشان کر دیا ہے جو پابندیوں کے پروگراموں میں خامیوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔

بات چیت سے واقف دو افراد نے بلومبرگ کو بتایا اس ماہ کے آغاز میں، امریکی نائب وزیر خزانہ والی ایڈیمو نے اماراتی حکام کے ساتھ ایک فون کال میں دولت مند روسی تاجروں کے اثاثوں کو متحدہ عرب امارات میں منتقل کرنے کے بارے میں واشنگٹن کے خدشات کا اظہار کیا۔

کئی اندرونی ذرائع نے بلومبرگ کو بتایا کہ روس کے اعلیٰ سرکاری اہلکار، دولت مند روسی تاجر اور مالیات کے شعبے سے منسلک افسران متحدہ عرب امارات میں حکومتی کارروائیوں کو چلانے میں مدد کے لیے شیخ منصور اور اُن کے دفتر تک تیزی سے پہنچ رہے ہیں، انھوں نے مزید کہا کہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے روسی اس ملک میں سرمایہ کاری کرنے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔

ان ذرائع نے مزید کہا کہ کچھ دبئی میں اپارٹمنٹس خریدنے کے خواہاں ہیں، جبکہ دیگر لگژری کاریں خریدنا چاہتے ہیں یا بینک اکاؤنٹس اور مالیاتی کمپنیاں کھولنے میں مدد کی ضرورت ہے۔

ان ذرائع نے بلومبرگ کو بتایا کہ شیخ منصور کی قیادت میں صدارتی امور کی وزارت نے روسی حملے کے بعد سے زیادہ امداد فراہم کی ہے۔

التقي وزير الخارجية الروسي، سيرغي لافروف، نظيره الإماراتي، الشيخ عبدالله بن زايد آل نهيان في موسكو نهاية فبراير/شباط الماضي

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے گذشتہ فروری کے آخر میں ماسکو میں اپنے اماراتی ہم منصب شیخ عبداللہ بن زید النہیان سے ملاقات کی تھی

اماراتی حکام شیخ منصور کی کوششوں کو عالمی کاروبار کو یو اے ای کی جانب راغب کرنے اور مشرق اور مغرب کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت کی وسیع حکمت عملی کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ان ذرائع نے کہا کہ روس اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات خاص طور پر تیل کی فروخت سے متعلق ہیں کیونکہ تیل برآمد کرنے والے ممالک کا اوپیک پلس اتحاد کے ساتھ تعاون ہے۔

اور بلومبرگ ایجنسی نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کی وزارت صدارتی امور نے اس خبر پر موقف جاننے کے لیے رابطے کی کوششوں کا جواب نہیں دیا، اور متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

مانچسٹر سٹی اور ان کے دفاتر کے ذریعے شیخ منصور تک پہنچنے کی کوششیں بھی ناکام رہیں۔ امریکی وزارت خزانہ کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

رواں برس کے آغاز پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے نمٹنے کے لیے متحدہ عرب امارات کے ایگزیکٹیو آفس کے ترجمان نے بلومبرگ کو بتایا تھا کہ یو اے ای بین الاقوامی مالیاتی بہاؤ کی نگرانی کے لیے غیر ملکی شراکت داروں کے ساتھ گہرے تعاون کی کوشش جاری رکھے گا۔

شیخ منصور بن زید کون ہیں؟

انسائیکلو پیڈیا بریٹنیکا کا کہنا ہے کہ شیخ منصور بن زاید النہیان 20 نومبر 1970 کو ابوظہبی میں پیدا ہوئے اور وہ ابوظہبی کی امارات میں حکمران خاندان کے ایک اہم رکن اور ملک کی نامور کاروباری شخصیات میں سے ایک ہیں۔

شیخ منصور بن زاید مانچسٹر سٹی کے کوچ پیپ گارڈیوولا کے ساتھ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

شیخ منصور بن زاید مانچسٹر سٹی کے کوچ پیپ گارڈیوولا کے ساتھ

انھوں نے سنہ 1997 اور سنہ 2004 کے درمیان متحدہ عرب امارات کے صدر کے دفتر کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں، اور سنہ 2004 میں صدارتی اُمور کے وزیر رہے۔ وہ بین الاقوامی سطح پر پیشہ ورانہ فٹ بال میں سرمایہ کاری کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ برطانیہ کے مانچسٹر سٹی فٹبال کلب کے مالک ہیں۔

منصور بن زید شیخ زید بن سلطان النہیان کے بیٹے ہیں جنھوں نے 1966 سے 2004 کے درمیان ابوظہبی کے حکمران اور 1971 سے 2004 کے درمیان متحدہ عرب امارات کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

ان کے بھائی خلیفہ سنہ 2004 میں ابوظہبی کے حکمران اور متحدہ عرب امارات کے صدر بنے، اور ان کے بھائی محمد سنہ 2004 میں ابوظہبی کے ولی عہد اور 2014 میں متحدہ عرب امارات کے ’حقیقی‘ حکمران بنے۔

منصور اپنی مالیاتی سرگرمیوں کے لیے مشہور تھے کیونکہ انھوں نے ابوظہبی میں کئی مالیاتی اداروں کی سربراہی کی جن میں ابوظہبی فنڈ فار ڈویلپمنٹ، فرسٹ گلف بینک اور انٹرنیشنل پیٹرولیم انویسٹمنٹ کمپنی قابل ذکر ہیں۔

اس کے علاوہ، انھوں نے سپریم کونسل برائے مالیاتی اور اقتصادی امور سمیت کئی دیگر اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے طور پر خدمات انجام دیں۔

ان کی متحدہ عرب امارات سے باہر بے شمار سرمایہ کاری ہے، اور منصور غالباً اپنی نجی سرمایہ کاری کمپنی، ابوظہبی یونائیٹڈ گروپ فار ڈویلپمنٹ اینڈ انویسٹمنٹ کے ذریعے بیرون ملک اپنے پیشہ ورانہ فٹبال منصوبوں کے لیے مشہور ہیں، جس نے 2008 میں مانچسٹر سٹی فٹ بال کلب میں کنٹرولنگ حصص خریدے اور جو اب انگلش پریمیئر لیگ کے کامیاب کلبوں میں سے ایک ہے۔

سنہ 2013 میں منصور بن رید نیویارک سٹی ایف سی میں اہم سرمایہ کار بن گئے اور بعد میں انھوں نے دنیا بھر کے کئی دوسرے کلبوں میں حصص خریدے جن میں 2014 میں میلبورن سٹی اور 2019 میں ممبئی سٹی میں اکثریتی حصص شامل تھے۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹنیکا کے مطابق منصور بن زید کا اماراتی پبلک پالیسی میں بھی خاموش مگر اہم کردار ہے۔ صدارتی امور کے وزیر کے طور پر اپنے کام کے علاوہ، وہ ابوظہبی کے عدالتی محکمے کے سربراہ تھے، جس نے 2006 میں امارات کے عدالتی نظام کی نگرانی شروع کی۔

شیخ منصور کی پرتعیش کشتی ترکی کے ساحل پر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

شیخ منصور کی پرتعیش کشتی ترکی کے ساحل پر لنگر انداز ہے

اس کے علاوہ دبئی کے حکمران اور متحدہ عرب امارات کے وزیر اعظم شیخ محمد بن راشد المکتوم کے داماد کے طور پر، منصور ملک کی دوسری سب سے طاقتور امارات تک اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتے ہیں۔ سنہ 2009 میں، انھیں بطور وزیر اعظم محمد بن راشد کا نائب مقرر کیا گیا تھا۔

تاہم، دیگر حکام اور غیر ملکی معززین کے ساتھ کبھی کبھار عوامی ملاقاتوں کے علاوہ، ملک کے سیاسی معاملات میں منصور کی سرگرمی زیادہ تر نظروں سے اوجھل رہی ہے۔

امریکہ کے ساتھ کشیدگی

اگرچہ متحدہ عرب امارات نے روس پر کوئی پابندیاں عائد نہیں کی ہیں، تاہم کچھ اماراتیوں نے بشمول خودمختار دولت فنڈ مبادلہ انوسٹمنٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو خلدون المبارک اور واشنگٹن میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ نے امریکہ، برطانیہ اور یورپی حکام کو اس حوالے سے یقین دلانے کی کوشش کی ہے۔

گذشتہ ماہ دبئی میں ہونے والی ایک مالیاتی کانفرنس میں، مبارک نے کہا تھا کہ مبادلہ اس وقت روس میں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کرے گا۔

مبادلہ نے، جس میں شیخ منصور نائب چیئرمین ہیں، ایک ای میل بیان میں کہا کہ انھوں نے ’صورتحال کی وجہ سے‘ روس میں کسی بھی اضافی سرمایہ کاری کو عارضی طور پر روک دیا ہے، لیکن مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

تاہم، مغربی حکام نے مبادلہ کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔

درحقیقت، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کے درمیان تعلقات حال ہی میں خراب ہوئے ہیں کیونکہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب چاہتے ہیں کہ امریکہ یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کے میزائل حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید اقدامات کرے۔

دریں اثنا، دونوں خلیجی ممالک اب تک قیمتوں میں کمی لانے کے لیے تیل کی پیداوار بڑھانے کی واشنگٹن کی درخواستوں کو مسترد کر چکے ہیں۔

اختلافات یوکرین کی جنگ کی فائل تک پھیل گئے ہیں۔

أموال

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر جوڈی وٹوری نے، جو مالیاتی بہاؤ اور امریکی قومی سلامتی کے درمیان تعلق کا مطالعہ کرتے ہیں، کہا ہے کہ پابندیوں کی پالیسی پر اختلافات ایک کانٹے دار موضوع رہے گا۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اب بھی 24 فروری کو یوکرین میں شروع ہونے والے روسی فوجی آپریشن میں فریق نہ بننے کے موقف پر قائم ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں واشنگٹن کے زیادہ تر اتحادی ایسی پوزیشن لینے سے گریز کرتے ہیں جس سے ان کی معیشتوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے، اور خطے کے ممالک کے چین اور روس کے ساتھ بھی سٹریٹیجک تعلقات رہے ہیں۔‎

یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو تیل کی قیمتوں میں نئے متوقع اضافے کو روکنے کے لیے تیل کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے امریکی دباؤ کا سامنا ہے، جس کی قیمت 140 ڈالر فی بیرل سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔

توانائی کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات عالمی منڈی میں تیل کی اضافی مقدار برآمد کرنے کی امریکہ کی خواہش کا جواب نہیں دیں گے۔

متحدہ عرب امارات، جو سعودی عرب اور عراق کے بعد اوپیک میں تیل پیدا کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے، تنظیم کے اندر اور اوپیک پلس اتحاد دونوں میں سعودی تیل کی پالیسیوں پر کاربند ہے۔

یو اے ای کے توانائی اور انفراسٹرکچر کے وزیر سہیل بن محمد فراج المزروعی نے یو اے ای ویم ایجنسی کو ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کا ملک اوپیک پلس معاہدے اور ماہانہ پیداوار کو ایڈجسٹ کرنے اور اس کے موجودہ طریقہ کار کا پابند ہے۔

بشار الاسد، منصور بن زید کی ملاقات

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

شام کے صدر بشار الاسد کی مانچسٹر سٹی فٹ بال کلب کے مالک متحدہ عرب امارات کے نائب وزیر اعظم شیخ منصور بن زید النہیان سے ملاقات

مبصرین کا خیال ہے کہ اماراتی موقف اور سعودی عرب کے موقف میں ہم آہنگی ہے اور یہ کہ دونوں ممالک ’اوپیک پلس‘ اتحاد کے اندر ایسے فیصلے لینے سے انکار کرتے ہیں جس سے ان کے اتحادی روس کو نقصان پہنچے۔

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے گزشتہ فروری کے آخر میں ماسکو میں اپنے اماراتی ہم منصب شیخ عبداللہ بن زید النہیان سے ملاقات کی۔

18 مارچ کو، شام کے صدر بشار الاسد نے، جو ماسکو کے اتحادی ہیں، متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا، جہاں انھوں نے ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید سے ملاقات کی، جنھوں نے اس بات پر زور دیا کہ شام عرب سلامتی کا ایک لازمی ستون ہے۔

متحدہ عرب امارات اس کے ساتھ سیاسی اور انسانی امداد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کے سلسلے میں تعاون کو مضبوط کرنے کا خواہاں ہے۔

شیخ منصور بن زید نے اس اجلاس میں شرکت کی، جس کی وجہ سے برطانیہ میں انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب مشرق وسطیٰ کے ممالک کے درمیان تعلقات میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے اور بہت سے عرب ممالک بشار الاسد کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

واشنگٹن نے 19 مارچ کو شام کے صدر بشار الاسد کے یو اے ای کے دورے پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔

اس طرح ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات یوکرین کی جنگ میں فریق بننے گریز سے کر رہے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.