’کتے کے انسانی متبادل‘ کے طور پر بھرتی کیے گئے روسی خلابازوں کی ذہنی و جسمانی تربیت کیسے کی گئی؟
- رچرڈ ہالنگھم
- نامہ نگار سائنس
سوویت یونین نے خلائی پروگرام میں بے پناہ وسائل خرچ کیے لیکن یہ باضابطہ طور پر وجود نہیں رکھتا تھا
13 اپریل 1961 کو سویت اخبار ازویستیا کے نمائندہ خصوصی جارجی اوستروموف نے خلا میں جانے والے پہلے شخص سے ملاقات کی۔ زمین پر لوٹنے کے ایک دن بعد خلائی پائلٹ یوری گاگارن ہشاش بشاش، صحت مند اور چہرے پر ایک حیران کن مسکراہٹ لیے ہوئے تھے جس سے ان کا چہرہ جگمگا رہا تھا۔
ہر تھوڑی دیر بعد ان کے چہرے پر ایک ڈمپل نمودار ہوتا۔ اوستروموف لکھتے ہیں ’انھوں نے لوگوں کے تجسس پر خلا میں گزارے اپنے ڈیڑھ گھنٹے کے دواران جو کچھ دیکھا وہ تفصیل سے بتایا۔‘
ایک کتابچے ’سوویت مین ان سپین‘ یعنی سوویت آدمی خلا میں کے نام سے شائع ہونے والے اس متعدد صفحات پر مبنی انٹرویو میں خلا نورد کا اپنے اس تجربے کے بارے میں کہنا تھا ’افق بہت ہی نایاب اور غیر معمولی طور خوبصورت دکھائی دے رہا تھا۔‘
انھوں نے سوویت یونین کی تعریف کی ’میں اپنی پرواز ان تمام لوگوں کے نام کرتا ہوں جو انسانیت کے لیے پیش پیش ہیں اور ایک نیا معاشرہ تخلیق دے رہے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
ایسے سیاسی نظام میں جہاں صحافت اصل واقعات کی نمائندگی کے بجائے پروپیگینڈا کا حصہ ہو وہاں ممکن ہے کہ گاگارن کی یہ بات من گھڑت ہوں۔ شاید ان الفاظ کو سنسرشپ سے گزارا گیا ہو گا تاہم یہ عین ممکن ہے کہ یہ گاگارن کے اصل الفاظ ہی ہوں۔
روس کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پرورش پانے والے گاگارن خاندان کے پسندیدہ شخص تھے۔ وہ یقیناً ایک خوش شکل، وجہیہ اور کمیونسٹ پارٹی کے ایک وفادار رکن تھے۔
یوری گاگارِن بائیں سے دوسرے نمبر پر
اگرچہ انسان کے خلا میں جانے کے ڈرامائی واقعات کو ناسا کی جانب سے عوامی سطح پر بیان کیا گیا لیکن حال ہی میں اس بات کا علم ہوا ہے کہ کس طرح سوویت یونین نے اپنے خلا بازوں کو چنا اور ان کی تربیت کی گئی۔
کمیونسٹ حکومت اس خیال کو فروغ دینا چاہتی تھی کہ پہلے خلا باز مرد اور عورت ویلنٹینا تریشکووا کا چناؤ آزادانہ تھا اور یہ دونوں رضا کار تھے، لیکن یہ مکمل طور پر سچ بات نہیں ہے۔
فائٹر پائلٹ کے طور پر کوالیفائی کرنے کے بعد گاگارن کو ناروے کے ساتھ روسی سرحد پر تعینات کیا گیا۔ وہ سرد جنگ کے دوران مغربی سرحد پر مگ 15 جیٹ جنگی طیاروں کی ایئر فیلڈ میں تعینات تھے۔
سنہ 1959 کے موسم گرما کے اواخر میں دو ڈاکٹر اس اڈے میں آئے اور پہلے سے چنے ہوئے چند ہوا بازوں کا انٹرویو کیا۔ اس مقصد کے لیے پہلے 3500 ممکنہ امیدواروں کا انتخاب کیا گیا۔ ڈاکٹروں نے پہلے ہی مغربی روس سے 300 پائلٹس کو الگ کر لیا تھا۔
برسوں تک روسی آرکائیوز کو کھنگالنے کے بعد گاگارن کی مکمل کہانی لکھنے والے سٹیفن واکر کا کہنا ہے کہ ’ان نوجوانوں کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ان کا انٹرویو کیوں لیا جا رہا ہے۔‘
انٹرویو میں ان سے کریئر، خاندان اور مستقبل کے خوابوں سے متعلق بہت غیر رسمی سی گپ شپ کی گئی۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو دوبارہ بات چیت کے لیے بلوایا گیا۔ اگرچہ ڈاکٹروں نے یہ اشارہ دیا تھا کہ انھیں ایک نئی اڑنے والی مشین کے لیے امیدواروں کی تلاش ہے تاہم انھوں نے کبھی بھی صحیح مقصد نہیں بتایا۔
واکر کا کہنا تھا کہ ’وہ لوگ فوجی پائلٹس تلاش کر رہے تھے جو پہلے سے ملک کی خاطر جان دینے کے عہد نامے پر دستخط کر چکے تھے کیونکہ اس مشن سے زندہ واپسی کے امکان زیادہ روشن نہیں تھے۔‘
اس سخت ٹریننگ میں ناسا کے برعکس خلائی جہاز اڑانے کی تربیت پر کم توجہ دی گئی تھی
جہاں ناسا نے اپنے مرکری خلائی جہاز کو اڑانے کے لیے خلا بازوں کے طور پر تربیت یافتہ فوجی پائلٹس کو بھرتی کیا وہیں سوویت خلائی جہاز ’ووسٹوک‘ کو زمین سے کنٹرول کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ صرف ہنگامی حالت میں ہی پائلٹس اسے چلاتے ورنہ ان کا پرواز سے زیادہ لینا دینا نہیں تھا۔
واکر کا کہنا تھا کہ ’انھیں بہت زیادہ تجربہ کار لوگوں کی ضرورت نہیں تھی۔ صرف کتے کا انسانی متبادل چاہیے تھا، ایسا فرد جو وہاں بیٹھے اور مشن پورا کرے، بڑھتے دباؤ سے نمٹے اور زندہ واپس لوٹ آئے۔‘
سوویت سائنسدانوں کی جانب سے ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے خلا میں بھیجے جانے والے کتوں کی طرح ان خلابازوں کو بھی صحت مند، فرماں بردار اور اتنا چھوٹا ہونا تھا کہ وہ اس تنگ کیپسول میں سما سکیں۔
بالآخر 134 نوجوان پائلٹس کو چنا گیا جن کا قد پانچ فٹ سات انچ کے اندر تھا۔ انھیں رضا کارانہ طور پر ایک انتہائی خفیہ مشن سر انجام دینے کا موقع دیا گیا۔ کچھ کو بتایا گیا کہ اس دوران انھیں خلائی جہاز اڑانا ہو گا، کچھ کا خیال تھا یہ ہیلی کاپٹر کا کوئی نیا ماڈل ہے۔ کسی بھی پائلٹ کو اپنے ساتھیوں یا خاندان والوں سے اس بابت بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
اسی اثنا میں اپریل سنہ 1959 میں امریکہ نے مرکری کے لیے اپنے سات خلا بازوں کے ناموں کا اعلان کر دیا۔ ان امیدواروں کو کڑے جسمانی، طبی اور نفسیاتی امتحانوں سے گزرنا پڑا جن کی تفصیل ٹام وولف کی کتاب ’دی رائٹ سٹف‘ میں موجود ہے۔
ایک پریس کانفرنس میں امریکہ کے خلابازی کے امیدوار جان گلین سے جب ان امتحانات کے تجربے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا ’ان میں سے کسی ایک کا انتخاب مشکل ہے کیونکہ اگر آپ اس بات کا تعین کر سکیں کہ انسانی جسم کے کتنے داخلی راستے ہیں اور آپ کسی میں سے بھی کتنا اندر تک جا سکتے ہیں ۔۔۔ تو آپ کا کیا جواب ہو گا کہ ان میں سے کون سا سب سے زیادہ مشکل ہو گا۔‘
لیکن زیادہ تر سوال اس حوالے سے ہیں کہ انسان خلائی سفر کی سختیاں، دباؤ، بے وزنی پن اور تنہائی سے کیسے نمٹے گا اس لیے جسمانی اور نفسیاتی طور پر سب سے اہل شخص کا انتخاب کرنا تھا۔
ماسکو کے انسٹیٹیوٹ آف ایوی ایشن اور سپیس میڈیسن کے پروفیسر ولادیمر یزدووسکی کو سوویت امیدواروں کے امتحانات لینے کے لیے متعین کیا گیا تھا۔ وہ اس سے قبل خلا میں کتے بھیجنے کے پروگرام کے سربراہان میں سے تھے اور انھیں ان کے ساتھیوں کی جانب سے (نجی محفلوں میں) سخت گیر اور متکبر قرار دیا جاتا تھا۔
واکر کہتے ہیں کہ ’وہ جیمز بانڈ کی فلموں میں سامنے آنے والی ڈراؤنے کرداروں جیسے تھے اور وہ ان لڑکوں کے ساتھ بہت سختی سے پیش آتے تھے۔‘
ان خلابازوں کو ناسا کے خلابازوں کی طرح کی کئی ٹریننگز کرنی پڑیں جس میں بے وزنی کی کیفیت سے خود کو ہم آہنگ کرنا بھی شامل ہے
سوویت خلابازوں کو جن امتحانات سے گزارا گیا وہ ہر اعتبار سے امریکی خلابازوں کے امتحانات سے زیادہ سخت گیر اور مشکل تھے۔ ایک مہینے کے دوران امیدواروں سے متعدد سوالات پوچھے جاتے، انھیں انجیکشنز لگائے جاتے اور انھیں مختلف جسمانی ورزشیں کروائی گئیں۔ انھیں مختلف کمروں میں رکھ کر درجہ حرارت 70 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھا دیا گیا، انھیں ایسے چیمبرز میں بھی رکھا گیا جہاں آکسیجن نہ ہونے کے برابر ہوتی اور ایسی سیٹوں پر بٹھایا گیا جو مسلسل لرز رہی ہوتیں۔ کچھ امیدوار ان امتحانات کے باعث بے ہوش ہو جاتے، کچھ پر سکون انداز میں ان میں سے گزر آتے۔
ان تمام مراحل کے دوران ان امیدواروں کو اپنے گھر والوں کو یہ بتانے کی اجازت نہیں تھی کہ وہ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ اس ایک ماہ کے دوران بھی اکثر امیدواروں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کا کس چیز کا امتحان لیا جا رہا ہے۔
آخر ان امتحانات کے آخر میں 20 نوجوانوں کو ٹریننگ کے لیے نئے خلابازی کے مرکز لے جایا گیا۔ اسے بعد میں سٹار سٹی کا نام دیا گیا لیکن شروعات میں یہ ماسکو کے قریب ایک جنگل میں چند فوجی کمروں پر مشتمل تھا۔ اس حوالے سے کوئی پریس کانفرنس یا اعلان نہیں کیا گیا یعنی سرکاری طور پر اس دوران سوویت یونین کا انسانوں کو خلا میں بھیجنے کا پروگرام سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔
واکر کے مطابق ’اگر وہ اس مرکز کو چھوڑتے تو انھیں کسی کو بھی اس بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ کیا کر رہے ہیں یا اس جگہ کیوں موجود ہیں۔ اگر کوئی پوچھتا تو وہ کہتے کہ ہم ایک کھیلوں کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ سب کچھ کنٹرولڈ اور خفیہ رکھا گیا تھا۔ سب کچھ بند دروازوں کے پیچھے ہو رہا تھا۔‘
یہ ٹریننگ پروگرام امریکی پروگرام سے خاصی مماثلت رکھتا تھا، لیکن اس میں خلائی جہاز کو کنٹرول کرنے پر کم توجہ دی گئی تھی۔ خلا میں بھیجے جانے والے کتوں کی طرح ان امیدواروں کو بھی انتہائی تیز رفتاری سے گول گھمایا جاتا، انھیں کئی کئی دن ایسے چیمبرز میں بند کیا جاتا جن میں آواز داخل نہ ہو سکے اور پھر ان کے مسلسل جسمانی اور ذہنی امتحانات لیے جاتے۔
ایک بڑا فرق جو ان دونوں پروگرامز میں تھا، وہ یہ کہ روسی خلابازوں کو پیراشوٹ کی ٹریننگ بہت زیادہ کروائی گئی تھی۔ یہ اس لیے تھا کیونکہ انھیں واپسی پر خلائی جہاز سے نکل کر پیراشوٹ کے ذریعے زمین پر اترنا تھا تاکہ وہ لینڈنگ کے دوران شدید زخمی ہونے سے بچ سکیں۔ یہ تفصیل کہ کیپسول اور پائلٹ علیحدہ لینڈ کریں گے اسے بھی کافی سالوں بعد منظر عام پر لایا گیا۔
ان 20 میں سے بھی اکثر امیدوار امتحانات میں ناکام ہوتے گئے اور یوں صرف چھ خلاباز باقی رہ گئے اور انھیں پہلے خلائی سفر کے لیے چنا گیا۔ ناسا کی جانب سے جب اس حوالے سے عوامی طور پر اعلان کیا گیا کہ وہ خلا میں پہلا شخص 1961 میں بھیجے گا تو سوویت خلائی پروگرام کے سربراہ سرگی کورولیف کو معلوم تھا کہ ان پاس وقت بہت کم ہے۔
پانچ اپریل 1961 کو یہ تمام امیدوار قزاقستان کے صحرا میں قائم بیکونور کوسموڈروم پہنچے جہاں کورولیف کا آر سیون راکٹ ان کا منتظر تھا۔ ابھی تک کسی کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ کون سب سے پہلے خلا میں جائے گا۔ لانچ سے کچھ ہی روز قبل گاگارن کو خلا میں جانے کی اجازت مل گئی۔
گاگارن جب زمین کے اوپر موجود مدار میں پہنچے تو ہی اس پروگرام سے منسلک افراد کے علاوہ لوگوں کو ایک سرکاری اعلان کے باعث ان کا نام معلوم ہوا۔
ازویسیتیا کے خصوصی نمائندے کے مطابق 12 اپریل کی صبح گاگارن نے ’اپنے ساتھیوں اور اہلکاروں کو آخری مرتبہ ہاتھ ہلایا اور خلائی جہاز میں بیٹھ گئے۔ کچھ ہی سیکنڈز کے بعد کمانڈ دے دی گئی اور یہ دیوہیکل جہاز ستاروں اور بادلوں کی جانب سے لپکا۔‘
وہ جب زمین پر واپس پہنچے تو وہ سوویت یونین کے ’پوسٹر بوائے‘ تھے ایک ایسا خلائی پائلٹ جو صیحیح معنوں میں روسی تھا۔
Comments are closed.