بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

روسی حملے کا راجپوتوں کی مبینہ نسل کشی سے موازنہ، انڈیا میں یوکرینی سفیر پر تنقید

روس یوکرین کشیدگی: روسی حملے کا راجپوتوں کی مبینہ نسل کشی سے موازنہ، انڈیا میں یوکرینی سفیر تنقید کی زد میں

ایگور پولیکھا

،تصویر کا ذریعہANI

،تصویر کا کیپشن

ایگور پولیکھا انڈیا میں یوکرین کے سفیر ہیں

روس کے یوکرین پر حملے کے دوران انڈیا میں یوکرین کے سفیر ایگور پولیکھا کا ایک بیان انڈیا سیاسی اور سماجی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔

منگل کو انڈیا میں یوکرین کے سفیر ایگور پولیکھا نے یوکرین میں روسی حملے کا موازنہ قرون وسطیٰ کے انڈیا میں مغلوں کی جانب سے راجپوتوں کی مبینہ نسل کشی سے کیا تو مختلف حلقوں سے ان کے اس بیان پر تنقید کی گئی۔

پولیکھا یوکرین کے شہر کیئو میں روسی حملے میں ایک انڈین طالبعلم کی ہلاکت کے بعد نئی دہلی میں انڈین وزارت خارجہ گئے تھے۔

اسی دوران یہ بات انھوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ انھوں نے کہا کہ وہ انڈین وزیراعظم نریندر مودی سمیت دنیا کے تمام با اثر رہنماؤں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ روسی صدر پوتن کو روکیں۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے یوکرین کے سفیر نے کہا کہ ’روسی حملہ اسی طرح ہے جس طرح مغلوں نے راجپوتوں کا قتل عام کیا تھا۔ میں دنیا کے تمام بڑے رہنماؤں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ تمام وسائل کا استعمال کرتے ہوئے یہ حملے بند کروائیں۔ میں مودی جی سے بھی اپیل کرتا ہوں۔‘

مغلوں کے بارے میں یوکرین کے سفیر کے بیان کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور حیدرآباد سے لوک سبھا کے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے شدید مذمت کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’جناب قرونِ وسطی کی تاریخ کا آدھا ادھورا علم آپ اپنے پاس ہی رکھیں۔ اس میں اسلاموفوبیا کی بو آتی ہے، غلط بیانی نہ کریں۔ میں حیران ہوں کہ نریندر مودی کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مغلوں کو استعمال کرنے کا خیال آپ کو کہاں سے آیا؟‘

سویڈن میں ‘پیس اینڈ کانفلِکٹ’ یعنی امن اور تنازعات کی تحقیق کے پروفیسر اشوک سوائن نے یوکرین کے سفیر کے مغلوں والے ریمارکس پر اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’بہتر ہوتا اگر وہ دائیں بازو کے ہندوؤں کی زبان استعمال نہ کرتے۔‘

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے ایک مشہور مورخ ہربنس مکھیا نے بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’قرون وسطی کے انڈیا کی ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ مغل بادشاہوں کے ساتھ یا اس سے پہلے کی سلطنتوں کے ساتھ راجپوتوں کی لڑائیاں 300 سال تک جاری رہیں۔ جب مغل آئے تو انھوں نے راجپوتوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس وقت اکبر کے سب سے بڑے معتمد راجہ مان سنگھ تھے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’اورنگزیب کے زمانے میں سب سے اونچے منصب پر مہاراجہ جسونت سنگھ اور مہاراجہ جئے سنگھ تھے اور مرہٹے بھی بھرے ہوئے تھے۔

’اس وقت اسے ہندو بمقابلہ مسلمان کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ مغلوں اور راجپوتوں کے درمیان، مغلوں اور سکھوں کے درمیان، مغلوں اور مرہٹوں کے درمیان، مغلوں اور جاٹوں کے درمیان لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔

’ان لڑائیوں میں خونریزی ہوئی لیکن اُن 550 سالوں میں جِسے جیمز مل نے مسلم حکمرانی کا دور کہا تھا اس میں ایک بھی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا تھا۔‘

’اس سے پہلے جس دن روس نے یوکرین پر حملے کا اعلان کیا تھا، اس دن دہلی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے یوکرین کے سفیر نے کہا تھا کہ ’انڈیا کی سفارت کاری کوٹیلیہ، چانکیہ کے زمانے کی ہے۔ اس وقت یورپ میں کوئی تہذیب بھی نہیں تھی۔ انڈیا برسوں سے عالمی طاقت رہا ہے۔ بھارت ناوابستہ تحریک کا رہنما بھی رہا ہے۔‘

یوکرین پر روسی حملے کے معاملے میں انڈیا کسی کا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ انڈیا امریکہ کی قیادت میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے خلاف لائی گئی تمام قراردادوں کے حق میں ووٹنگ سے باہر رہا ہے۔

Presentational grey line

روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج

Presentational grey line

تاہم انڈیا نے اپیل کی ہے کہ تشدد فوری طور پر بند کیا جائے۔ انڈیا نے یہ بھی کہا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کا احترام کیا جانا چاہیے۔ تاہم انڈیا نے روس کی مذمت نہیں کی ہے۔

بڑی تعداد میں انڈین شہری اب بھی یوکرین میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انڈیا نے بھی یوکرین کو انسانی امداد بھیجنا شروع کر دی ہے۔ یوکرین کے سفیر نے انڈیا کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

اس سے قبل یوکرین پر روس کے حملے کے بعد وہاں پھنسے میڈیکل کے کچھ انڈین طلبا نے الزام لگایا تھا کہ پولینڈ سے متصل یوکرین چیک پوسٹ پر ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔

انڈیا کے انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق انڈین طلبا کا کہنا تھا کہ انھیں تقریباً یرغمال بنانے جیسے حالات میں رکھا گیا ہے اور وہ شدید سردی میں خوراک اور پانی کو ترستے رہے۔

طلبا کا الزام ہے کہ ان کے ساتھ یہ سلوک اس لیے کیا گیا کیونکہ انڈیا نے یوکرین پر روسی حملے کے خلاف اقوام متحدہ میں پیش کی گئی قرارداد پر ووٹنگ سے خود کو دور رکھا۔

طلبا نے ایسی ویڈیوز بھی شیئر کی ہیں جس میں فوجی طلبا کو منتشر کرنے کے لیے ہوا میں گولیاں چلاتے اور طاقت کا استعمال کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

ایک اور ویڈیو کلپ میں یوکرین کا ایک گارڈ ایک انڈین لڑکی کو دھکے دیتا نظر آ تا ہے۔ یہ لڑکی سپاہی کے قدموں میں گر کر اس سے التجا کر رہی ہے کہ مجھے سرحد پار کرنے دو۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.