بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

روسی اسلحے کا بڑا خریدار انڈیا یوکرین کے معاملے پر چُپ کیوں سادھے ہوئے ہے؟

یوکرین، روس تنازع انڈیا کے لیے آزمائش کیوں بن گیا ہے؟

  • سچن گوگوئی
  • بی بی سی مانیٹرنگ

پوتن، مودی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انڈیا اور امریکہ کے درمیان حالیہ دہائیوں میں بڑھتی ہوئی قربت کے باوجود روس، یوکرین تنازعے نے دونوں ملکوں کے درمیان کچھ بنیادی اختلافات کو ظاہر کیا ہے۔

امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین کے خلاف روسی صدر ولادیمیر پوتن کے اقدامات کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔ اُن کے ساتھ ساتھ جاپان اور جنوبی کوریا جیسی ایشیائی طاقتیں بھی روس کے خلاف پابندیاں عائد کر رہی ہیں۔

تاہم انڈیا ان چند ممالک میں سے ایک ہے جنھوں نے یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کی مذمت کرنے سے اب تک خود کو دور رکھا ہے۔ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 24 فروری کو پوتن کے ساتھ ایک فون کال میں ’تشدد کے فوری خاتمے‘ کی اپیل کی تھی۔

دوسری جانب انڈیا نے یوکرین پر روس کے حملے کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرارداد پر بھی ووٹ نہیں کیا۔

حالیہ مہینوں میں انڈیا نے امریکہ کو بڑی حد تک نظر انداز کیا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ نے نہ صرف انڈیا کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو بڑھایا ہے بلکہ اُسے ’کواڈ‘ نام کے اس گروپ میں بھی شامل کیا جس میں امریکہ ،جاپان، انڈیا اور آسٹریلیا شامل ہیں۔

چین کے جارحانہ انداز کے حوالے سے پائے جانے والے مشترکہ خدشات نے انڈیا اور امریکہ کو انڈو پیسیفک میں ایک دوسرے کے قریب کیا ہے۔ لیکن ان دونوں کے درمیان رشتوں کی یہ مٹھاس دوسرے جغرافیائی خطے میں نظر نہیں آ رہی جیسا کہ روس یوکرین بحران میں انڈیا اور امریکہ کے مختلف مؤقف سے ظاہر ہے۔

یوکرین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یوکرین کے معاملے پر انڈیا اور امریکہ تعلقات

24 فروری کو صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ انڈیا اور امریکہ نے مشاورت کی ہے اور روس کے بارے میں دونوں اپنے مؤقف کا فیصلہ کرنے کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں کر سکے۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے پر دونوں کا مؤقف ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اس سے قبل وائٹ ہاؤس نے عوامی طور پر کہا تھا کہ وہ کشیدگی میں کمی کرنے میں انڈیا کے کردار کا خیر مقدم کرتا ہے اور پھر امید ظاہر کی کہ نئی دہلی اس معاملے پر واشنگٹن کا ساتھ دے گا۔

یہ بھی پڑھیے

چین کے خلاف مغرب کی حمایت کا فائدہ اٹھانے لیکن روس کے اقدامات پر خاموش رہنے کے الزام کا جواب دیتے ہوئے انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے حال ہی میں واضح طور پر کہا تھا کہ ہند بحرالکاہل اور بحر اوقیانوس کی صورتحال ایک جیسی نہیں ہے۔

پندرہ فروری کو میونخ سکیورٹی کانفرنس میں ایک فورم پر بحث کے دوران، جے شنکر نے کہا کہ ’اگر دونوں صورتِ حال کے درمیان تعلق ہوتا تو یورپی طاقتیں بہت پہلے ہند بحرالکاہل میں بہت بہتر حالت میں ہوتیں، لیکن انڈیا نے ایسا نہیں دیکھا۔‘

موجودہ بحران پر انڈیا کی جانب سے امریکہ کا ساتھ نہ دینے پر تجزیہ کار سُبیمل بھٹاچارجی نے بی بی سی مانیٹرنگ سے کہا ’انڈیا کے لیے تاریخ کے سبق کو بھلانا ممکن نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب امریکہ نے انڈیا کے بجائے پاکستان کا ساتھ دیا تھا اور وہ روس ہی تھا جس نے انڈیا کو بھر پورحمایت دی تھی اور انڈیا کے پالیسی ساز اسے نہیں بھولیں گے۔‘

کیا انڈیا، امریکہ تعلقات روس کے امتحان سے گزرنے میں کامیاب ہوں گے

روس، یوکرین تنازع نے بھلے ہی انڈیا اور امریکہ تعلقات کی اصلیت کو بے نقاب کیا ہو لیکن طویل عرصے تک اس کے مضمرات پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔

انڈیا کے کچھ میڈیا اداروں نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ روس کے خلاف امریکی پابندیوں کا بالواسطہ اثر انڈیا پر پڑے گا، جو اپنے ہتھیاروں کا تقریباً 60 فیصد روس سے درآمد کرتا ہے۔

ہندی کے مشہور روزنامہ ’نوبھارت ٹائمز‘ نے 24 فروری کو اپنے اداریے میں کہا کہ ’انڈیا کے لیے روس_یوکرین تنازع کا اثر خاص طور پر ہتھیاروں کی خریداری میں نظر آئے گا۔‘

ایس 400

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

’روس کے خلاف امریکی پابندیاں کچھ اور اہم دفاعی معاہدوں کو متاثر کر سکتی ہیں‘

امریکہ کا دباؤ بڑھ سکتا ہے

اس ہندی روزنامے میں کہا گیا تھا کہ امریکہ انڈیا پر دباؤ بڑھا سکتا ہے کہ وہ روس سے ہتھیار نہ خریدے۔ اس کا اثر انڈیا اور روس کے درمیان ایس 400 میزائل ڈیفنس سسٹم کے معاہدے پر بھی نظر آئے گا۔

روس کے خلاف امریکی پابندیاں کچھ اور اہم دفاعی معاہدوں کو متاثر کر سکتی ہیں، جن میں انڈیا اور روس کی طرف سے مشترکہ طور پر تیار کردہ براہموس کروز میزائل بھی شامل ہے۔

ایک ساتھ چار جنگی جہاز بنانے کا معاہدہ انڈیا کے ذریعے سو ایم کے آئی، 29 مگ طیاروں کی خریداری اور بنگلہ دیش کے روپ پور میں جوہری بجلی گھر کی تعمیر کا انڈیا، روس مشترکہ منصوبہ بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

حالیہ واقعات سے انڈیا کی اسلحے کی خریداری اثر انداز ہونے کے امکانات کے باوجود کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا، امریکہ تعلقات پر کوئی طویل مدتی منفی اثر نہیں پڑے گا۔

سابق انڈین سفارت کار امریندر کھٹوا نے بی بی سی مانیٹرنگ کو بتایا کہ ہتھیاروں کی درآمد میں کچھ چیلنجز ہو سکتے ہیں لیکن انڈیا اور امریکہ ایک دوسرے سے دور نہیں ہو سکتے، خاص طور پر تب جب چین انڈو پیسیفک میں قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہو۔

مزید پڑھیے

امریندر کھٹوا ارجنٹینا اور آئیوری کوسٹ میں انڈیا کے سفیر رہ چکے ہیں۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد روسی فیڈریشن کے ساتھ انڈیا کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی تعمیر نو میں اُن کا اہم کردار تھا۔

’کچھ لوگوں نے انڈیا کو اپنا مؤقف بدلنے کا مشورہ دیا‘

انڈین حکومت کا محدود عوامی رابطہ اور موجودہ بحران کے لیے پیوتن کی مذمت نہ کرنا غیر متوقع نہیں ہے، خاص طور پر ملک کی خارجہ پالیسی کے تزویراتی (سٹریٹیجک) خود مختاری کے اصول کے پس منظر میں۔

نئی دہلی نے کسی فریق کی حمایت نہ کرنے کے بارے میں اپنے مؤقف کو مضبوطی سے برقرار رکھا ہے۔ تاہم بعض ماہرین اور میڈیا نے تبصرہ کیا ہے کہ انڈین حکومت کے لیے حالات اتنے آسان نہیں ہو سکتے۔

انڈین حکومت دوراہے پر کھڑی ہے

امریندر کھٹوا نے کہا کہ انڈین حکومت دراصل ایک دوراہے پر ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ امریکہ چین کے ساتھ ڈیل کرے لیکن وہ تمام ہتھیاروں کے لیے روس کی حمایت بھی چاہتی ہے اور درمیان میں پھنس جانا اچھی صورتحال نہیں ہے۔

انگریزی روزنامے ’دی انڈین ایکسپریس‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ ’امریکی قیادت والے مغربی بلاک کے دباؤ کے ساتھ، نئی دہلی کے لیے سٹریٹجک متبادل بنانا ایک امتحان سے کم نہیں ہے۔ ایک طرف اصول اور اقدار ہیں تو دوسری جانب اپنے مفادات ہیں۔

جب کہ انڈین میڈیا کے اہم اداروں نے روس کے اقدامات پر تنقید کرنے سے گریز کیا ہے، میڈیا کے ایک حصے نے اس معاملے پر انڈیا کے موقف کا جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

معروف صحافی پرناب ڈھل سمانتا نے معروف انگریزی اخبار ‘دی اکنامک ٹائمز’ میں ایک تبصرے میں لکھا ہے کہ انڈیا کو ’روس کے ساتھ اپنے تعلقات پر گہری اور طویل مدتی نظر ڈالنی چاہیے۔‘ خاص طور پر اپنے حریفوں، چین اور پاکستان کے خلاف روس کے ساتھ تعلقات کے پس منظر کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح، انگریزی کے مشہور اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے ایک اداریے میں خبردار کیا گیا ہے کہ امریکہ کی قیادت میں مغرب کے ساتھ تعلقات ’پہلے سے زیادہ اہم ہیں اور اسے بنائے رکھنے کے لیے اپنے موجودہ سفارتی مؤقف پر نظر ثانی کی ضرورت ہے جو ایک بنیادی سوال ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.