hookup Mansfield Center edf8329we hookup sites like craigslist hookup hotshot mature

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

روس، یوکرین جنگ: ’یوکرینی بہت مہربان ہیں، لیکن ظالم فوج ہمیشہ جیت جاتی ہے‘

روس، یوکرین جنگ اور پناہ گزین: ’پولینڈ کی سرحد کسی کی منزل تو کسی کے لیے غیریقینی مستقبل کا آغاز‘

  • ٹام ڈونکن
  • بی بی سی ورلڈ سروس

A man and a woman stand by a car at the Poland-Ukraine border
،تصویر کا کیپشن

لوگوں کی ایک بڑی تعداد سرحد عبور کر کے یوکرین سے پولینڈ اور دیگر ممالک میں جا رہی ہے

رومن کہتے ہیں کہ ’ہم نے یہ جنگ شروع نہیں کی۔۔۔ لیکن اب بس یوکرین ہے اور یوکرین مضبوط ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہم جیتیں گے۔‘

وہ پولینڈ میں یوکرین کی سرحد پر کھڑے ہیں اور کسی کے منتظر ہیں۔ انھوں نے دیگر بہت سے لوگوں کی طرح اپنے کندھوں پر یوکرین کا جھنڈا لپیٹا ہوا ہے۔

وہ اندازاً ان پندرہ لاکھ یوکرینی باشندوں میں شامل ہیں جو پہلے ہی پولینڈ میں رہ رہے تھے۔ یہ وہ تعداد ہے جو روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق جنگ شروع ہوتے ہی چار لاکھ لوگ یوکرین سے نکل چکے ہیں۔ تارکین وطن کے لیے کام کرنے والے اداروں کو خدشہ ہے کہ روسی جنگ کی شدت اور ہلاکتوں کے بڑھنے سے ملک چھوڑ کر سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والوں کی تعداد پچاس لاکھ تک ہو سکتی ہے۔

رومن سرحد پر گاڑی میں تب سے رہ رہے ہیں جب انھیں پتا چلا کہ ان کے دوست کی بیوی اور بچہ یوکرین سے روانہ ہوئے ہیں جبکہ ان کے دوست وہیں رُک گئے ہیں۔

یوکرین
،تصویر کا کیپشن

رومن اپنے اُس دوست کی اہلیہ اور بچے کو لینے آئے ہیں جو خود لڑائی لڑنے کے لیے یوکرین میں ہی رہ گئے ہیں

رومن جانتے ہیں کہ وہ اپنے دوست سے نہیں مل پائیں گے مگر وہ اپنے دوست پر فخر محسوس کرتے ہیں جو ملک چھوڑنے کے بجائے اب مزاحمت کرنے والے یوکرینی شہریوں میں شامل ہو گئے ہیں۔

سرحدی راستے پر گاڑیوں کی ایک لمبی قطار ہے، یہ یوکرینی خاندان ہیں جو جنگ زدہ علاقوں سے آنے والے اپنے پیاروں کے منتظر ہیں۔

یورپ کے لیے اچانک سے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کی آمد نئی چیز نہیں۔ سنہ 2015 میں یہاں دس لاکھ سے زیادہ پناہ گزین اور تارکین وطن، جن میں زیادہ تر شامی باشندے شامل تھے، داخل ہوئے تھے۔

یہ افراد جنگ سے بچنے کے لیے یورپ میں بحری اور بری راستوں سے داخل ہوئے تھے۔ لیکن سنہ 1995 کی بلقان جنگ کے بعد سے دنیا نے اس براعظم سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو اتنی بڑی تعداد میں نہیں دیکھا ہے۔

جدا ہونے والے خاندانوں کا ملاپ خوشی اور ملال دونوں سے بھرپور ہوتا ہے۔ یقیناً سکون کا احساس ہوتا ہے اور طویل میل ملاپ ہوتا ہے لیکن یہاں لوگ خاموش ہیں۔ وہ اپنا سامان اور بچوں کو اٹھائے بسوں سے اترتے ہیں اور سامان اور بچے دونوں ان دوستوں اور رشتہ داروں کے حوالے کر دیتے ہیں جو طلوع آفتاب سے پہلے سے اُن کے منتظر ہیں۔

یوکرین
،تصویر کا کیپشن

سرحد عبور کرنے والے بہت سے ایسے ہیں جنھیں ابھی آگے بھی اپنا پیدل سفر جاری رکھنا ہو گا

بہت سے پناہ گزینوں کا سفر سرحد عبور کرنے کے بعد بھی جاری ہے۔ سینکڑوں لوگ آہستہ آہستہ پولینڈ کے اندرونی علاقوں کو جانے والی سیدھی سڑک کنارے پیدل چل رہے ہیں اور سامان سے بھرے اپنے سوٹ کیسوں بھی ساتھ گھسیٹتے جا رہے ہیں۔

وہ لوگ جن کا سرحد کے اس پار کوئی منتظر نہیں، ہنگامی بنیادوں پر بنائے جانے والی نو پناہ گاہوں میں قیام کریں گے۔

یوکرین کے مشرقی ہمسائے کی جانب سے اب تک انھیں پُرجوش انداز میں خوش آمدید کہا گیا ہے۔ پولینڈ میں موجود رضا کار پلاسٹک کی پلیٹوں میں لوگوں کو ڈمپلنگ اور پیسٹریاں پیش کر رہے ہیں۔ دیگر لوگ چھوٹے بچوں کو کپڑے، جوتے اور کھلونے دے رہے ہیں۔

سرحد پر آنے والی ایک پولش ڈاکٹر کہتی ہیں کہ وہ صرف یہ دیکھنے کے لیے آئی تھیں کہ وہ کیا مدد کر سکتی ہیں۔ کچھ لوگوں گھر سے یوکرینی زبان میں ایسے پلے کارڈ لکھ کر لائے ہیں جن پر پناہ گزینوں کو پولینڈ کے مرکزی شہروں تک مفت لے جانے کی پیشکش کی گئی ہے۔

یوکرین
،تصویر کا کیپشن

سرحد پر موجود لوگوں میں سے بہت سوں نے یوکرین کا جھنڈا اٹھا رکھا تھا

تاہم ہر کوئی یہاں سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کر رہا۔

یوکرین کے نوجوانوں کا ایک گروپ ڈنمارک سے آیا ہے اور کوشش کر رہا ہے کہ وہ یوکرین کے تحفظ کی جنگ میں شامل ہوں۔

میکس اور مارک اپنا اصل نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے مگر وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے یوکرین کے صدر کی جانب سے ہتھیار اٹھانے اور لڑنے کے مطالبے کا جواب دینے کے لیے 50 گھنٹوں تک سفر کیا اور وہ یوکرین پہنچے ہیں۔

میکس کہتے ہیں کہ ’ہم اپنی زمین، اپنے ملک اور اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے جائیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

ان دو دوستوں نے یوکرین کے دس دیگر شہریوں کے ساتھ سفر کیا تھا جن کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ کسی منظم گروپ کے ساتھ مل جائیں جو روس کی پیش قدمی روکنے کے لیے لڑ رہا ہے۔

’اگر انھیں فوج میں میری ضرورت ہے، یا وہ مجھے شہر میں رکھنا چاہتے ہیں، میں جانتا ہوں کہ گولی کیسے چلانی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ مارتے کیسے ہیں۔‘

یوکرین
،تصویر کا کیپشن

ان یمنی شہریوں کے علاوہ یوکرین میں بہت سے ممالک کے بچے پڑھنے آتے ہیں

یہ ایک تنازع ہے جس نے نہ صرف یوکرینی شہریوں کو دربدر کر دیا ہے بلکہ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے آبائی ملکوں کو مسائل کی وجہ سے چھوڑ کر یہاں آئے تھے اور اب انھیں بھی یہاں سے جانا ہو گا۔

کبھی یوکرین ان کی پناہ گاہ تھا لیکن اب وہ اپنے آپ کو ویسی ہی صورتحال سے دوچار پاتے ہیں جس میں ان کے پاس جانے کے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں۔

خارخیو اور کیئو میں تعلیم حاصل کرنے والے پانچ یمنی نوجوان لڑکوں کے گروپ کو پولینڈ کی سرحد تک پہنچنے میں دو دن لگے۔

احمد عمر کا کہنا ہے کہ یوکرین میں ’صورتحال بہت تکلیف دہ ہے، کسی کے لیے کوئی رحم نہیں ہے۔ عورتیں اور بچے اس جنگ کی افراتفری میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔‘

ان کے دوست محمد عبدالعزیز کہتے ہیں کہ ’یوکرین کے لوگ بہت مہربان ہیں لیکن ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ ظالم فوج جیت جاتی ہے۔‘

A bus carrying people who are crossing over into Poland
،تصویر کا کیپشن

بسوں میں کچھ وہ لوگ بھی سوار ہیں جو پولینڈ کی سرحد کو عبور کر کے آئے ہیں

ایرانی شہریوں کا ایک بڑا گروپ پولینڈ میں داخل ہونے کے لیے تین دن تک سرحد پر پھنسا رہا۔

وحید نے ایران میں اپنا گھر بیچ دیا تھا تاکہ وہ کیئو میں ایرانی ریستوران کھول سکیں۔ وہ بتانے لگے کہ ’میں نے اپنی زندگی کی تمام جمع پونجی ایک رات میں کھو دی۔ میں نہیں جانتا کہ میرے ریسٹورنٹ کا کیا ہو گا۔‘

مزید پڑھیے

مسعود بھی ایران سے تعلق رکھتے ہیں وہ ایک ایسی معذوری کا شکار ہیں جس کی وجہ سے انھیں بولنے اور چلنے میں دقت ہوتی ہے۔

وہ اپنے ایک دوست کے منتظر ہیں، وہ بھی معذور ہے اور پولینڈ کی سرحد عبور کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’معذور افراد کو سرحد عبور نہ کرنے دینا غیر انسانی ہے۔ انھیں ترجیح دی جانی چاہیے۔‘

A sign at the Polish border with Polish and EU flags
،تصویر کا کیپشن

جنگ سے بچنے کے لیے یورپ میں یوکرین سے بڑی تعداد میں لوگوں کی آمد متوقع ہے

یوکرین کے لیے جنگ یورپ کے دہانے پر ہے اور ممکنہ طور پر آنے والے مہینوں میں انسانوں کو ہونے والے نقصان کی صورت میں اسے پورے خطے میں محسوس کیا جائے گا۔

اس سرحد کو عبور کرنے والے بہت سے لوگ ان جیسے ہیں جن کا خطرناک سفر ختم ہو گیا ہے لیکن دیگر لوگوں کے لیے تو یہ غیر یقینی مستقبل کا فقط آغاز ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.