مسلمان صحافی کی شراب کے تحفے پر ناراضگی کے بعد سوشل میڈیا پر بحث
اچھا یہ بتائیں اگر آپ کو کسی کے ہاں مبارک دینے کے لیے جانا ہو، یا کچھ بھیجنا ہو تو اکثر کیا بھیجتے ہیں؟
جیسے کشمیر میں بیکری کا بڑا رواج ہے، تو ہر طرح کے کیک، پیسٹری، بِسکِٹ اور اگر کچھ زیادہ ہی اہم رشتہ ہو تو کبابوں، تبخ ماز سے بھرے ٹرے کے ساتھ ساتھ بادام سے بھری ٹوکریاں بھی جاتی ہیں۔
اسی طرح کہیں پھل کی ٹوکریاں، تو کہیں جوس کے کریٹ، نہیں؟ اب سوچیں کہ آپ ایک مصنف یا صحافی ہیں اور آپ کا پبلشر آپ کو تحفے میں شراب بھیجے، وہ بھی رمضان کے مہینے میں!
ظاہر ہے ایسا پاکستان میں تو نہیں ہوگا، لیکن برطانیہ میں رہنے والی فری لانس صحافی سارہ شفیع کے ساتھ جب ایسا ہوا تو ان سے برداشت نہیں ہوا۔ اور اس کے بعد انھوں نے جو ٹویٹ کیا اس سے لگتا ہے کہ ایسا ان کے ساتھ پہلی بار نہیں ہوا۔
‘ابھی ایک پبلِشر کی طرف سے آیا ایک پارسل کھولا تو دیکھا کہ اس میں جِن کے دو کین ہیں۔ میں اب تھک گئی ہوں ایسے پبلشرز سے جو یہ سوچے بغیر کہ سامنے والا شراب پیتا بھی ہے یا نہیں اس طرح شراب بھیجتے ہیں۔ اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مجھے بہت برا لگ رہا ہے۔ ایک طرف معاشرے میں سب کی شمولیت کی باتیں کرنا اور دوسری طرف یہ طے کر لینا کہ سب شراب پیتے ہیں۔۔ ایسا کرنا بند کریں۔ نفرت ہے مجھ اس سے۔’
یہ بھی پڑھیے
ان کے اس ٹویٹ سے ایک اچھی خاصی بحث شروع ہو گئی۔ جہاں ایک طرف کئی لوگوں نے ان کی بات کی حمایت کی، وہیں کئی لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ تحفہ تو آخر تحفہ ہوتا ہے، آپ کو شراب پسند نہیں، تو کسی اور کو دے دیں!
لیکن ہمیں جو بات دلچسپ لگی وہ یہ بھی تھی کہ ان کی بات کی حمایت کرنے والوں میں صرف مسلمان ہی نہیں تھے۔ اس میں زیادہ تر لوگ ایسے بھی ہیں جن کی خود کی زندگی شراب کی لت کی وجہ سے اس قدر متاثر ہوئی کہ انھوں نے شراب چھوڑ دی، یا پھر وہ اس بات کو سمجھتے ہیں۔
اکثر مغربی معاشروں میں مل بیٹھ کر شراب پینا ایک طرح سے ثقافت اور طرز زندگی کا حصہ ہے۔ وہ چاہے برطانیہ کے پب ہوں یا یورپ کی وائین بارز، دوستوں، رشتہ داروں کے ساتھ مل بیٹھ کر شراب پینا معمول کی بات ہے۔ ایسے میں کئی بار یہ بھی ہو جاتا ہے کہ شراب کی لت لوگوں کی زندگیاں تباہ کر رہی ہوتی ہے لیکن معاشرے میں تفریح کا تصور شراب سے اس قدر جڑا ہوا ہوتا ہے کہ وہ اس کا اعتراف بھی نہیں کر پاتے۔
سارہ شفیع کے ٹویٹ پر کئی لوگوں نے جواب میں انھیں ناشکرا اور خود کو زیادہ اہمیت دینے والی کہا۔ جیسے کہ ٹوئٹر صارف سٹینڈ ایون سیرچر، جنہوں نے لکھا، ‘بڑے لوگوں کے مسائل! اگر آپ کو پسند نہیں، تو کسی اور کو دے دیں۔ اتنی چھوٹی، معمولی سی بات پر اس طرح سرعام شکایت کرنا! اتنی ناشکری۔ مجھے دے دیں۔ مجھے جِن بہت پسند ہے۔’
لیکن ساتھ ہی کئی جواب ایسے بھی تھے جن میں ان کے موقف کی واضح حمایت کی گئی۔
برطانوی مصنف جیک منرو نے سارہ کے ٹویٹ کے جواب میں لکھا ‘یہ کہنے کے لیے شکریہ۔ پی آر کمپنیاں بھی ایسا کرتی ہیں، اور ایک ایسے شخص کی حیثیت سے جو کہ شراب کی لت پر قابو پا کر آگے بڑھنا چاہتی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ یہ چاہنا کہ کوئی آپ کو گھر بیٹھے بیٹھے بنا مانگے شراب نہ بھیجے، اس میں ناشکری کی کوئی بات ہے۔ اور رمضان کے مہینے میں آپ کو شراب بھیجنا تو اور بھی بدتمیزی ہے۔ اور یہ کہنے کے لیے آپ کو جس طرح کے جواب مل رہے ہیں ان کے لیے معذرت۔’
انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ان لوگوں کے لیے جو شراب کی لت سے چھٹکارا پانا چاہ رہے ہوتے ہیں، اس طرح کے تحفے موت کے فرمان کی طرح ہوتے ہیں۔
اسی طرح لینا نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا ‘بہت سے لوگوں کے لیے شراب اس طرح کا ‘نیوٹرل’ یا بیزرر تحفہ نہیں ہوتا جیسا آپ کو لگتا ہے۔ کئی لوگ اپنے رشتوں کو بہتر بنانے کے لیے یا خود اپنے لیے شراب کی لت سے چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں کو پھول بھیجیں، یا خوشبودار شمع۔’
ویسے یہ بات بھی صحیح ہے کہ شاید ہی کوئی ایک ایسا تحفہ ہو جو ہر کسی کو خوش کر سکے لیکن شاید ہم سبھی کو، خاص طور پر کمپنیوں کو تحفے بھیجنے سے پہلے تھوڑا سوچ لینا چاہیے، نہیں؟
Comments are closed.