رمضان المبارک: برطانیہ کے گرجوں، میوزیم اور سٹیڈیم کے اندر افطاری میں غیر مسلم بھی شریک ہوئے
لندن کے وکٹوریا اور البرٹ میوزیم نے مارچ میں افطار کا شاندار اہتمام کیا
ماہ رمضان میں ایک جانب جہاں دنیا بھر کے مسلمان مذہبی اور روایتی جوش و جذبے کے ساتھ روزے رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں وہیں برطانیہ میں شیکسپیئر گلوب سے لے کر فٹ بال سٹیڈیم تک مختلف تاریخی مقامات پر مذہب اسلام کے مقدس مہینے رمضان کو منانے کے لیے خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔
کیمبرج، مانچسٹر کیتھیڈرل اورکنگز کالج ان مقامات میں سرفہرست رہے جنھوں نے روزانہ مختلف طبقات اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے بے شمار افراد کی بلا تفریق میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔
برطانیہ میں مسلمانوں کے لیے تاریخی مقامات پر اس منفرد افطاری کا اہتمام ’رمضان ٹینٹ پروجیکٹ ‘ کے تحت کیا گیا جس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد کمیونٹیز کو اکٹھا کرنا ہے۔
رمضان ٹینٹ پروجیکٹ کے مینیجر وسیم محمود نے کہا کہ عالمی وبا کے بعد سے لوگوں میں یہ احساس شدید ہو گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جڑے رہیں۔
کیمبرج یونیورسٹی نے 15ویں صدی میں قائم ہونے والے کنگز کالج میں افطاری کا شاندار اہتمام کیا۔
بچوں کے چینل سی بی بیز کے پریزینٹر جارج ویبسٹر نے بھی بریڈ فورڈ کی مسجد میں ایک افطار کے اہتمام میں دی گئی تقریب میں شرکت کی۔
رمضان ٹینٹ پروجیکٹ 22 مارچ کو رمضان کے آغاز کے بعد سے ہر رات افطار کی تقریبات کی میزبانی کر رہا ہے۔
ماہ رمضان مسلمانوں کے لیے ایک انتہائی مقدس و بابرکت مہینہ ہے جس میں اضافی عبادات اور خیرات کو فروغ دیا جاتا ہے۔
رمضان میں قران کے نزول کا آغاز بھی علم حاصل کرنے کی ہدایت سے ہواتھا اسی مناسبت سے برٹش لائبریری میں رضاکاروں نے ایک پروگرام بھی منعقد کیا
مانچسٹر یونائٹڈ کے ایک پرستار محمود پچھلے تین ہفتوں سے افطار کے اہتمام کے لیے سرگرم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ذاتی طور پرمذہب اسلام میں ایک بہت مضبوط عمودی اور افقی عنصر ہے۔ یہ عمودی عنصر خدا کے قریب ہونے کے بارے میں ہے لیکن اس مقصد کو پانے کے لیے اپنے آپ کو افقی طور پر پھیلانا ہوگا جو لوگوں کی خدمت سے ہی ممکن ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ افطار کے منتظمین چاہتے ہیں کہ لوگ سہل پسندی کو چھوڑ کر ایسے عوامی مقامات کا رخ کریں جو شاید انھوں نے پہلے کبھی نہ دیکھے ہوں۔
’مثال کے طور پر، مانچسٹر کیتھیڈرل اور آسٹن ولا کے ساتھ ایسے لوگ تھے جو چرچ نہیں جاتے یا فٹ بال کے فینز نہیں۔
’جب وہ اندر آتے ہیں تو ان کے چہروں پر حیرانی ہوتی ہے اور بیٹھنے سے پہلے فوراً تصویریں لیتے ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے کچھ اچھا ہی کیا ہے۔‘
مانچسٹر کیتھیڈرل میں 1400 افراد نے افطار میں شرکت کی اور اس بین المذاہب افطار سے خطاب کرنے والوں میں ایک ربی یا یہودی مذہبی پیشوا بھی شامل تھے
محمود کو لندن کلب میں تصویر لینے کے موقع پر چیلسی کا سکارف بھی اٹھانا پڑا جو کہ رمضان ٹینٹ پروجیکٹ کے ساتھ افطار کی میزبانی کرنے والے پانچ فٹ بال گراؤنڈز میں سے ایک تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’جس جس مقام پر اس افطار کا اہتمام کیا گیا انھوں نے اسے دوبارہ منقد کرنےکی اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے۔‘
افطار کے اس اہتمام میں تقریباً 20 ہزار سے زیادہ افراد شریک ہوئے اور ان پر تکلف افطار کا اہتمام لندن میں تقریباً 20 اور دارالحکومت کے باہر نو تاریخی اور اہم مقامات پر کیا گیا۔
لندن کے میئر صادق خان ٹریفلگر سکوائر پر افطاری میں شریک ہوئے
2021 کی مردم شماری کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں آبادی کا تقریباً سات فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے
ایک جانب جہاں منتظمین ان تقریبات سے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہتے ہیں وہیں ان اجتماعات میں انھوں نے پلاسٹک سے گریز اور فضلہ کو کم کرنے کی پائیدار حکمت عملی کو بھی مد نظر رکھا۔
برمنگھم کے ایسٹن ولا کے سٹیڈیم میں افطاری دسترخوان پر سینکڑوں افراد نے شرکت کی
یہ بھی پڑھیے:
چیلسی کے پرستار محمود کا کہنا ہے کہ ان تقریبات میں شامل تقریباً 40 فیصد شرکاء مسلمان نہیں تھے اور جو بعد میں رضاکاروں کے 500 مضبوط گروہوں میں بھی شامل ہو گئے’کیونکہ وہ بدلے میں کچھ واپس کرنا چاہتے تھے۔‘
’یہ اس بارے میں ہے کہ ہم کس طرح لوگوں کو ساتھ بیٹھ کر کھانے اور گفتگو کی ترغیب دیتے ہیں، لیکن یہی کھانے کی بات انھیں اپنی ذمہ داری کا احساس دلانے میں بھی معاون ہوتی ہے۔‘
محمود کے مطابق ’اس پورے سفر نے مجھے صرف متاثر ہی نہیں کیا بلکہ میرے دل کو خوشی اور اطمینان کی لذت سے بھر دیا۔‘
Comments are closed.