لیکن اقوام متحدہ اور یورپی یونین سمیت ان حکومتوں نے بھی اسرائیلی وزیر اعظم کو اس حملے کی وجہ سے ہونے والے انسانی نقصان کے بارے میں خبردار کیا ہے جو روایتی طور پر اسرائیل کی اتحادی ہیں جیسے کہ امریکہ اور برطانیہ۔رفح میں وہ فلسطینی پناہ گزین ہے جن کے شہروں پر اسرائیل کا قبضہ ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر بڑی فوجی کارروائی ہوئی تو ان کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ مصر کے ساتھ سرحد بند ہے۔مصر میں بھی رفح شہر ہے۔ یہ دونوں شہر ایک زمانے میں ایک ہی تھے لیکن صدیوں پر محیط جنگیں، حملے اور قبضوں نے اس شہر کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
رفح کی تاریخ
جوئش ورچول لائبریری کے مطابق رفح شہر کی تاریخ تین ہزار سال قدیم ہے۔ اس شہر کا پہلا ذکر 1303 قبل مسیح کی قدیم تحریر میں ملتا ہے۔ اس وقت مصری فرعون سیتی اول کا دور حکومت تھا، جو مشہور رمسيس ثانی کے والد تھے۔ انھوں نے اس شہر میں چند شاندار عبادت گاہیں اور یادگاروں کی تعمیر کا حکم دیا جو آج سالانہ لاکھوں سیاحوں کو مصر کی طرف راغب کرتے ہیں۔اسرائیلی کالم نویس مائیکل فرونڈ انجہانی اپنے مضمون ’رفع: ایک ہنگامہ خیز تاریخ‘ میں اسرائیلی مورخ اور جغرافیہ دان زیف ولنائی کے مطالعے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سیتی اول نے اس علاقے اور شام میں متعدد عسکری مہمات کا ابتدا کیا۔تاریخ میں اس علاقے کو مختلف ناموں سے جانا جاتا رہا، مصری اسے روبیحوا کہتے، آشوری اسے رافیحو، یونانی اور رومی اسے رافیحا بلاتے اور آخرکار عربوں نے اسے رفح کا نام دیا۔رفح کا نام واضح طور پر توریت میں نہیں نظر آتا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ توریت کی پانچویں کتاب میں لفظ ’حاتزرم‘ ایک قصبے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو کہا جاتا ہے کہ رفح کا نام ہے۔غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع ہونے کی وجہ سے صحرائے سینا (مصر) کے داخلی راستے پر اور بحیرۂ روم کے پانیوں کا سامنا کرنے کی وجہ سے یہ قصبہ نہ صرف بحری سفر اور علاقائی تجارت کا ایک اہم مرکز بن گیا بلکہ متعدد تنازعات کا بھی گڑھ رہا۔رفح میں ہونے والی سب سے مشہور لڑائیوں میں سے ایک 217 قبل مسیح کے آس پاس ہوئی تھی جس میں مصری بادشاہ بطلیموس چہارم نے شام کے شہنشاہ انٹیوکس سوم کو شکست دی۔اسرائیلی-کینیڈین مصنف، برینڈن مارلن نے اس جنگ کا خلاصہ لکھتے ہوئے اخبار ’دی ٹائمز آف اسرائیل‘ میں اپنے مضمون ’رفح: ایک مختصر تاریخ‘ میں کہا ’یہ کلاسیکی دور کی سب سے بڑی لڑائیوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے جس میں کل 120,000 سے 150,000 سپاہی اور تقریباً 175 ہاتھی میدان جنگ میں کھڑے تھے۔‘اس جنگ میں امن قائم کرنے کے لیے شکست کا سامنا کرنے والے شہنشاہ انٹیوکس سوم نے اپنی بیٹی کلیوپیٹرا سیرا کی شادی اپنے حریف کے بیٹے کے ساتھ کروائی تھی اور اس شادی کا جشن رفح میں ہوا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
- رفح کراسنگ: غزہ کے باشندوں کے لیے ’فرار کا واحد راستہ‘ مگر مصر اس سرحدی گزرگاہ کو کیوں نہیں کھول رہا؟17 اکتوبر 2023
- رفح کراسنگ: ’غزہ میں بمباری سے بچنے کا واحد راستہ‘19 اکتوبر 2023
- رفح کراسنگ کھل گئی، 400 سے زائد غیر ملکی شہری اور زخمی غزہ سے مصر داخل1 نومبر 2023
شان و شوکت سے گمنامی تک
جیسا کہ پہلی صدی عیسوی کے مؤرخ فلاویس جوزیفس نے اپنی کتاب ’دی وارز آف دی جیوز‘ میں بیان کیا ہے صدیاں گزرتی گئیں اور یہ شہر ایک اہم یہودی برادری کا مرکز بن گیا اور یہ ایک ایسی صورتحال تھی جو یونانیوں، رومیوں اور بعد میں مسلمانوں کی آمد کے باوجود بدستور قائم رہی۔تاہم یہ سب کچھ صلیبی جنگوں کے ساتھ بدل گیا۔ 12 ویں صدی میں شہر کو مسمار کر دیا گیا اور جو باشندے ہلاک نہیں ہوئے تھے وہ دوسرے شہروں میں منتقل ہونے پر مجبور ہو گئے۔قرون وسطی کے دوران جب سلطنت عثمانیہ نے اس علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا تو یہ قصبہ صحرا کے ابتدا پر ایک سادہ ڈاک خانہ بن گیا۔اپنی مطابقت کھو جانے کے باوجود رفح خونریز لڑائیوں کا منظر بنتا رہا جس نے اسے کئی مواقع پر ملبے میں تبدیل کر دیا۔مثال کے طور پر، برینڈن مارلن نے اس بارے میں لکھا کہ 19ویں صدی کے آخر میں نپولین بوناپارٹ کی فرانسیسی افواج نے مصر اور شام کو فتح کرنے کی اپنی مہم کے دوران اسے تباہ کر دیا تھا۔20ویں صدی کے آغاز میں، صہیونی تنظیموں نے اس علاقے میں زمین حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ یورپ میں ظلم و ستم سے بھاگنے والے یہودیوں کے ساتھ اسے آباد کیا جا سکے۔ تاہم عثمانی حکام نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا تھا۔پہلی جنگ عظیم (1914-1919) اور سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد یہ علاقہ برطانوی کنٹرول میں آیا تب بھی اس منصوبے کی دوبارہ کوشش کی گئی لیکن یہ بھی ناکام رہا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
فوجی اڈے سے پناہ گزین کیمپ تک
دوسری عالمی جنگ کے دوران رفح برطانوی فوج کا ایک عسکری اڈا بن گیا اور روزگار کی تلاش میں مسلمان تارکین وطن اور فلسطین کے دیگر علاقوں کے لوگ یہاں پہنچے۔جب اس علاقے کو تقسیم کر کے فلسطین اور اسرائیل بنائے گئے تو برطانوی فوج نے رفح کو ایک جیل کے طور پر استعمال کیا اور یہاں اس وقت دہشتگرد سمجھی جانے والی یہودی تنظیمیں ہاگانہ اور ارگن کے رہنماؤں کو قید میں رکھا جاتا تھا۔تاہم جب اسرائیل کی ریاست کا قیام آیا تو یہ شہر اپنی موجودہ شکل یعنی بحیثیت پناہ گزین کیمپ کی صورت اختیار کرنا شروع ہو گیا۔جو علاقے نئی ریاست میں آئے جیسے کہ بیرشیبا اور سحرا نیگیو وہاں تقریباً 41 ہزار فلسطینی مسلمان رہتے تھے انھیں یہاں پناہ لینا پڑی۔سنہ 1949 میں رفح پناہ گزین کیمپ کھولا گیا اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ انرا کی ویب سائٹ کے مطابق یہ اس وقت کا ’ غزہ کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی والا‘ پناہ گزین کیمپ تھا۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق موجودہ کشیدگی کی ابتدا کے بعد سے اب تک 28 ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں اور اب رفح کی آبادی پہلے سے پانچ گنا بڑھ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے کے مطابق پہلے یہ دو لاکھ 80 ہزار تھی اب یہ تقریباً 15 لاکھ ہو چکی ہے۔ فلاحی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان پناہ گزینوں کی اکثریت بہت برے حالات میں ہیں ان کے پاس خوراک، پانی اور ادویات تک نہیں ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
مشرق وسطیٰ کا برلن
سن 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے یہ قصبہ اور غزہ کی باقی پٹی کا کنٹرول مصر کے پاس تھا لیکن یہ صورتحال جون 1967 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد تبدیل ہو گئی جب اسرائیلی افواج نے غزہ کے تمام علاقے اور پڑوس میں موجود جزیرہ نما سینا پر قبضہ کر لیا تھا۔1973 کی یوم کیپور جنگ کے دوران مصر طاقت کے زور پر اپنے علاقے واپس نہیں لے سکا لیکن ایک دہائی کے عرصے کے بعد جس مقصد کو وہ میدان جنگ میں حاصل نہ کر پائے انھوں نے مذاکرات کے ساتھ حاصل کر لیا، وہ سینا کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور اس پر عمل درآمد 1982 میں ہوا۔تاہم 1977 میں ہونے والے کیمپ ڈیوڈ امن معاہدے کا اثر رفح پر پڑا کیوں کہ اسرائیل اور مصر کے درمیان سرحد کی لکیر اس پر کھینچی گئی۔اس ساری صورتحال نے اس فلسطینی شہر کو دوسری عالمی جنگ کے بعد برلن جیسا بنا دیا کیونکہ مکانوں کے درمیان، بغیچوں کے درمیان اور گلیوں میں باڑ لگا دی گئی اور شہر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔صحافی جینٹ ہولی نے 1982 میں آسٹریلیا میں شائع ہونے والے ایک اخبار ’دی سڈنی مارننگ ہیرالڈ ‘ میں اس تقسیم پر لکھی گئی اپنی رپورٹ میں کہا ’جن کے گھروں کو دو میں تقسیم کیا گیا انھیں یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ کہاں رہنا چاہتے ہیں (اسرائیل میں یا مصر میں) اور اس جانب دروازہ لگانا ہو گا۔‘اس نئی تقسیم نے سینکڑوں خاندانوں کو بانٹ دیا اور وقت کے ساتھ ساتھ باڑ زیادہ مضبوط ہوتی گئی اور اس کے گرد غیر آباد علاقہ بن گیا جسے فلاڈیلفی کوریڈور کہا جاتا ہے اور یہ وسیع ہوتا گیا۔اسرائیل اور مصری حکومتوں کے درمیان ایک معاہدے کے مطابق فلاڈیلفی کوریڈور ایک غیر عسکری علاقہ ہے جسے ’دہشت گردی، مصر سے غزہ تک ہتھیاروں کی سمگلنگ اور مجرمانہ سرگرمیوں کی دراندازی‘ پر قابو پانے کے لیے بنایا گیا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesکئی دہائیوں سے دو رفح ہیں ایک مقبوضہ غزہ میں اور دوسرا مصر میں لیکن یہ 2013 میں تبدیل ہونے شروع ہو گیا۔ اس سال مصر کی حکومت نے سرحد کے احاطے میں موجود گھر، کاروبار اور تعمیرات کو منہدم کرنا شروع کیا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فلسطین کے علاقے سے تقسیم کرنے والی لکیر کے 79 مربع کلومیٹر کے کوریڈور کو مزید وسیع کریں اور ایک ’بفر زون‘ تشکیل دیں۔اس گھروں کو منہدم کرنے کے کام نے مزید زور اس وقت پکڑا جب سینا سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند گروہ انثار بیت المقدس نے 24 اکتوبر 2014 کو ایک مصری فوج کی چوکی پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں 33 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔جولائی 2013 سے جولائی 2020 کے درمیان مصری فوج نے سرحد کے ساتھ سے 12350 تعمیرات کو منہدم کیا جس کی وجہ سے 12300 خاندان بے گھر ہو گئے۔ ہیومن رائٹس واچ تنظیم کی 2021 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اس اقدام کی مذمت کی اور اس کا عنوان تھا ’مصر: سینائی میں بڑے پیمانے پر انہدام ممکنہ جنگی جرائم۔‘رپورٹ میں تنظیم نے یہ بھی بتایا کہ فوجیوں نے 6000 ہیکٹر سے زائد فصلوں کو تباہ کیا۔لورینزو ناوون یونیورسٹی آف سٹراسبرگ اور فرانس کے انسٹی ٹیوٹ کنورجینس مائیگریشنز کے ایک محقق ہیں انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا ’2014 میں مصر نے فلاڈیلفی کوریڈور کو وسعت دینے کے لیے اپنی سرحد کے ساتھ مکانات اور عمارتوں کو مسمار کرنے کی ایک اور مہم شروع کی۔‘وہ کہتے ہیں ’تو آج کوریڈور سمیت جو زمین تھی اس کا رقبہ دو گنا ہو گیا ہے اور اس کا مقصد سرحد پر کنٹرول رکھنا اور غزہ کے فلسطینیوں کو دور رکھنا ہے۔ ماضی میں جو ’نو مین لینڈ‘ سرحد پار غزہ میں موجود تھا وہ اب کھچ کر مصر کی طرف بھی آ گیا ہے۔‘اب جب اسرائیلی فوج نے رفح کی طرف پیش قدمی کی ہے تو اس شہر کی شورش اور خون ریزی سے بھری تاریخ میں ایک نیا باب لکھا جائے گا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.