سمیع چوہدری کا کالم: رضوان کا پلان الٹا پڑ گیا
- سمیع چوہدری
- کرکٹ تجزیہ کار
جارج لنڈا بھانپ گئے تھے کہ رضوان انھیں دباؤ میں لانے کی کوشش کرنے والے تھے۔ اسی لیے انھوں نے رضوان کو کریز سے نکلتے دیکھا تو فوراً اپنی لینتھ واپس کھینچ لی اور یقینی بنایا کہ گیند رضوان کے ’ہٹنگ زون‘ میں نہ پہنچے۔
یہ رضوان کا ’ہٹنگ زون‘ ہی تو تھا جو پہلے میچ میں جنوبی افریقہ بلے بازوں کی ایک اچھی کاوش اور شمسی کے بہترین سپیل پہ بھاری پڑ گیا تھا۔
لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ رضوان اننگز کی پہلی ہی گیند پہ ایسا جارحانہ قدم کیوں اٹھانا چاہ رہے تھے۔ یہ شاٹ سلیکشن رضوان کے مزاج کے مطابق نہیں تھی کہ وکٹ کی نبض جانچے بغیر پہلی ہی گیند پہ ایسا خطرہ مول لے لیتے۔
شاید یہ پچھلے میچ کا کوئی ’غصہ‘ تھا جو رضوان اتارنا چاہ رہے تھے کہ اننگز کے آغاز سے ہی لنڈا کو دباؤ میں لایا جائے اور کلاسن کی جارحانہ پلاننگ کو فوراً پچھلے قدموں پر دھکیل دیا جائے۔ لیکن یہ پلان اس طرح سے روپذیر ہو نہ پایا۔
یہ بھی پڑھیے
کلاسن نے اس میچ میں حکمتِ عملی بہت اچھی ترتیب دے رکھی تھی۔ یہ محسوس ہو رہا تھا کہ ایک ایک بلے باز کے فیورٹ ایریا پر کام کر کے آئے ہیں اور اس سٹریٹیجی کا کمال دیکھیے کہ بابر اعظم جیسا مشاق سٹروک میکر بھی اننگز کے کسی حصے میں اپنے بازو نہ کھول پایا۔
محمد حفیظ نے بھی پاور پلے کے آخری اوورز میں جو ٹیمپو مقرر کیا، ان کے بعد آنے والا کوئی بھی بلے باز اس رفتار سے قدم نہ ملا پایا جو میچ کے ان مراحل میں درکار تھی۔
ون ڈے سیریز سے ہی ہمیں یہ رجحان دیکھنے کو ملا ہے کہ اگر بیٹنگ آرڈر کے ٹاپ تھری بلے باز تگڑا آغاز مہیا نہ کر پائیں تو پاکستانی مڈل آرڈر بری طرح آشکار ہو جاتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ امر کہ ہر میچ میں بیٹنگ آرڈر بھی کسی نہ کسی ردوبدل سے گزر رہا ہوتا ہے۔
چونکہ جنوبی افریقی ٹیم اپنے بہترین کھلاڑیوں سے محروم ہے تو سیریز کے آغاز سے قبل یہی متوقع تھا کہ مقابلے کانٹے کے نہیں ہوں گے۔ لیکن پچھلے میچ میں کلاسن کی ٹیم نے شکست کے باوجود جو ہمت دکھائی تھی، جوہانسبرگ میں وہ ہمت عین صحیح مواقع پر کارگر ہوتی بھی نظر آئی۔
لنڈا اور شمسی نے اس بولنگ اٹیک کو جو کنٹرول مہیا کیا ہے، اس میں ہینڈرکس، ولیمز اور مگالا بھی زیادہ پر اعتماد دکھائی دے رہے ہیں۔ نتیجہ اس کا یوں ظاہر ہوا کہ پاکستان کے سبھی بلے بازوں کو اپنے ‘کمفرٹ زون’ سے نکلنے پر مجبور کیا گیا۔
یوں تو ٹاس جیت کر بیٹنگ کرنے کا فیصلہ بھی اس وکٹ کی تاریخ کے اعتبار سے درست نہیں تھا۔ لیکن اگر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کر ہی لیا گیا تھا تو اسی وکٹ پر ایک اچھی مسابقتی اننگز بُنی جا سکتی تھی۔
یہ سال ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا سال ہے اور پاکستان اس فارمیٹ میں اپنی وہ شکل سامنے لانا چاہتا ہے جو متواتر دو سال تک ناقابلِ تسخیر رہنے والی ٹیم کی تھی۔ جہاں نہ تو بولنگ اٹیک میں کوئی کمزور مہرہ تھا اور نہ ہی بیٹنگ آرڈر میں کسی شائبے کی گنجائش۔
اس کے لیے مصباح الحق کے تھنک ٹینک کو چند بنیادی فیصلے کرنے ہیں جو اس بیٹنگ آرڈر کی شکل واضح کریں۔ بابر اعظم کو اوپن نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ون ڈاؤن پر کھیل کر وہ مڈل آرڈر کے لیے زیادہ مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ محمد حفیظ بالکل درست نمبر پر بیٹنگ کر رہے ہیں اور انھیں اپنی جگہ سے ہلانا درست نہ ہو گا مگر ٹیم مینیجمنٹ کو حیدر علی کا مسئلہ بھی حل کرنا ہے۔ پانچویں نمبر کی بیٹنگ ابھی تک ان کے مزاج کو راس نہیں آئی۔
وہ کھلے ہاتھ سے کھیلنے والے بلے باز ہیں۔ انھیں پاور پلے کے بیچ میں کھلانا زیادہ فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ اگر پاکستان فخر زمان یا شرجیل کے ساتھ حیدر علی کو اوپنر بھیجے اور محمد رضوان کو پانچویں نمبر پہ بھیجے تو مڈل آرڈر کی کافی مشکلیں آسان ہو سکتی ہیں۔
Comments are closed.