پیر 19؍محرم الحرام 1445ھ7؍اگست2023ء

رضوانہ تشدد کیس، جج کی اہلیہ سومیہ عاصم کو گرفتار کرنیکا حکم

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج فرخ فرید نے رضوانہ تشدد کیس میں سومیہ عاصم کی ضمانت خارج کرتے ہوئے ان کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں کمسن ملازمہ رضوانہ تشدد کیس میں سول جج کی اہلیہ ملزمہ سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری پر سماعت ہوئی۔

ڈیوٹی ایڈیشنل سیشن جج فرخ فرید بلوچ نے سماعت کی۔

ملزمہ سومیہ عاصم اور متاثرہ بچی کے والدین اپنے وکلاء کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔

جج فرخ فرید نے پراسیکیوشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سچ تلاش کرنے میں ڈرنہیں ہونا چاہیے، شواہد ایمانداری سے جمع کریں، پریشر نہ لیں، تفتیش میرٹ پر ہونی چاہیے۔

جج فرخ فرید نے استفسار کیا کہ ملزمہ سومیہ عاصم کے خلاف کیس کا ریکارڈ کہاں ہے؟

اسلام آباد پولیس نے کیس کا ریکارڈ عدالت میں پیش کر دیا۔

وکیلِ صفائی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمہ سومیہ عاصم جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہوئی اور اپنی بے گناہی کا اظہار کیا، ریکارڈ میں پولیس نے لکھا کہ ملزمہ سومیہ عاصم نے تشدد نہیں کیا، انہوں نے ملازمہ کو واپس بھیجنے کا بار بار کہا، سومیہ عاصم نے کمسن بچی کو اس کی ماں کو صحیح سلامت دیا۔

وکیل صفائی نے کہا کہ آج دوپہر کو جے آئی ٹی نے بچی کی ماں کو بلایا ہوا ہے، شام تک انتظار کر لیا جائے تو بہتر ہو گا، جے آئی ٹی کی تفتیش مکمل ہو جائے گی، کیا سومیہ عاصم کو جیل بھیجنا ضروری ہے؟

پراسیکیوشن نے ملزمہ سومیہ عاصم کی ضمانت خارج کرنے کی استدعا کر دی۔

جج فرخ فرید نے کہا کہ ملزمہ سومیہ عاصم تو ہر حال میں شامل تفتیش ہونے کی پابند ہے۔

وکیل صفائی نے کہا کہ تفتیشی افسر نے تمام پہلوؤں پر تفتیش نہیں کی، کیا تفتیشی افسر نے وقوعہ کی ویڈیو حاصل کی؟

جج فرخ فرید نے کہا کہ تاحال کوئی دلیل درخواست ضمانت میں توسیع کرنے کے لیے کافی نہیں۔

وکیل صفائی نے کہا کہ مقدمے کی پہلی پانچ لائنیں ہی جھوٹ پر مبنی ہیں۔

جج فرخ فرید نے کہا کہ میں یہاں ٹرائل کے لیے نہیں بیٹھا،درخواست ضمانت پر دلائل دیں۔

وکیل صفائی نے کہا کہ جے آئی ٹی ملزمہ کو گناہ گار قرار دیتی ہے تو ضرور جیل جانا چاہیے۔

جج فرخ فرید نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے تک سماعت ملتوی کی جائے۔

جج فرخ فرید نے درخواست ضمانت پر دلائل دینے کی ہدایت کر دی۔

وکیل صفائی نے کہا کہ ہم کہتے ہیں ویڈیو موجود ہے، ویڈیو لیں، کیا تفتیشی نے ویڈیو حاصل کی؟ بس اسٹاپ پر بچی کی 3 گھنٹے کی ویڈیو موجود ہے، کل آخری دن ہے پھر ویڈیو کا ڈیٹا ختم ہو جائے گا اور کہا جائے گا پتہ نہیں یہ اس کیمرے کی ویڈیو ہے یا نہیں۔

عدالت نے تفتیشی افسر کو ویڈیو حاصل کرنے کی ہدایت کر دی۔

جج فرخ فرید نے کہا کہ تفتیشی کا کام دونوں فریقین سے ثبوت حاصل کرنا ہے۔

وکیل صفائی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میڈیکل رپورٹ 24 جولائی کی سرگودھا کی ہے، مقدمہ 25 جولائی کا ہے، الزام لگایا گیا بچی پر روز ڈنڈوں سے تشدد ہوتا تھا اور بھوکا پیاسا رکھا جاتا تھا، بچی سرگودھا بھی جاتی ہے اور مہمانوں سے بھی ملتی ہے، سومیہ عاصم کے خلاف من گھڑت کہانی بنائی گئی ہے، تفتیشی افسر نے سرگودھا میں بس اسٹینڈ کی ویڈیو نہیں لی، ویڈیو میں دو کردار اور بھی ہیں جن کی ویڈیو مقامی ہوٹل سے ملی، عدالت سے پہلے سومیہ عاصم کا میڈیا ٹرائل شروع کر دیا گیا، رپورٹ کے مطابق بچی اسپتال 3 بجے صبح پہنچتی ہے، یہ والی رپورٹ کہاں ہے؟ طبی رپورٹ کے مطابق 23 جولائی 5 بجے انجری ہوئی، پولیس کو کہا گیا بچی اپنا بیان دینے کی کنڈیشن میں نہیں، سرگودھا تک بچی بلکل ٹھیک گئی، کوئی ٹریٹمنٹ کی ضرورت نہیں تھی، 3 بجے سرگودھا پہنچنے کے بعد طبی معائنے کی ضرورت اچانک کیسے پڑ گئی؟ گرفتاری کے بعد بھی ضمانت ملنی ہی ہے تو ملزمہ کو جیل نہیں بھیجنا چاہیے، قانون کے مطابق عورت کو ضمانت ضرور ملنی چاہیے، کیس میں حقائق مسخ کیے گئے، جے آئی ٹی کیوں بنی ہے؟ کیا مقصد ہے؟ ممبران کون ہیں؟ کیا جے آئی ٹی کے ممبران پولیس افسران ہیں؟ جب ممبران پولیس اہلکار نہیں تو جے آئی ٹی میں کیوں شامل ہیں؟

جج فرخ فرید نے کہا کہ ابھی تو آپ کہہ رہے تھے جے آئی ٹی کے سامنے دوپہر میں پیش ہونا ہے۔

وکیل صفائی نے کہا کہ میں کس کس کے پاس جاؤں تا کہ اصل حقائق منظر عام پر آئیں، شفاف تفتیش کا مطلب ہی دونوں طرف سے حقائق منظر عام پر لانا ہوتا ہے، بچی کو مارنا ہی مقصد ہوتا تو بچی سومیہ عاصم کے ساتھ کیوں بس اسٹینڈ پر پائی گئی؟ بچی تو خود سومیہ عاصم کے ساتھ موجود دکھائی دی ہے، کیا تفتیشی افسر نے بچی کے والدین کو شامل تفتیش کرنے کی زحمت کی؟ سومیہ عاصم کی تو زندگی کو خطرہ ہو گیا ہے، میڈیا پر مجرم بنا دیا گیا ہے، بچی کے والدین کو کیوں شامل تفتیش نہیں کیا جا رہا؟  تاخیری حربے استعمال کر کے بیان کو تاخیر سے ریکارڈ کرایا گیا۔

 جج فرخ فرید نے تفتیشی افسر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا موبائل فون کی سی ڈی آر لی گئی ہے؟

وکیل صفائی نے کہا کہ تفتیشی افسر کو بتایا گیا بچی کو صحیح سلامت بس میں بٹھا دیا گیا تھا، مقدمے میں بچی کوصحیح سلامت بس اڈے پہنچنے کا ذکر نہیں، تفتیشی افسر کڑی سے کڑی نہیں ملا پا رہا، جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، مختار نے کہا مجھے سومیہ عاصم نے کال کی اور کہا بچی کو لے جاؤ، والدین اور رشتے داروں کے پولیس کو دیے بیانات میں تضاد نظر آرہا ہے، بچی کی طبی رپورٹ کے مطابق بچی کو فریکچر نہیں ہے، میڈیا سے سنا ہے کہ بچی کو فریکچر کا شک ہے، شک کا لفظ آ جائے تو کیس واضح ہو جاتا ہے، حقائق بتانے میں بد دیانتی کی جا رہی ہے، سومیہ عاصم پر الزام لگایا گیا کہ بچی کو تیزاب پلایا گیا، بچی کو بس اسٹینڈ پر چھوڑنے سومیہ عاصم گئیں تو انہیں پھنسایا گیا، واقعے کا پلان کس کے کہنے پر بنایا گیا؟ پولیس نے سائیڈ پلان کی تفتیش نہیں کی، تفتیشی افسر نے واقعے میں ملوث دیگر افراد کا بیان ریکارڈ کرنا گوارہ نہیں کیا، سائیڈ پلان میں 3 چشم دید گواہ ہیں جنہوں نے بچی کی اصل حالت دیکھی ہے، تینوں چشم دید گواہ سومیہ عاصم کے گھر موجود تھے ہی نہیں، جو کہانی بنائی گئی وہ تو جھوٹی ثابت ہو رہی ہے، کون سا کیس رہتا ہے پھر، ملزمہ سومیہ عاصم کے خلاف ڈرامہ دراصل سرگودھا میں بنایا گیا، تفتیشی افسر کو آخر سومیہ عاصم کی گرفتاری کیوں درکار ہے؟ان سے کیا برآمد کرنا ہے؟ کچھ ہے ہی نہیں، سومیہ عاصم شاملِ تفتیش ہونے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔

مدعی وکیل کےدلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ تفتیشی افسر کو ڈکٹیٹ نہیں کیا جا سکتا کہ تفتیش کیسے کرنی ہے، عدالت بھی تفتیشی افسر کو کوئی ڈائریکشن نہیں دے سکتی، سومیہ عاصم کس بنیاد پر اپنی ضمانت میں توسیع مانگ رہی ہے، کیا عورت کوئی بھی جرم کر لے اور اسے ضمانت دے دی جائے؟ اگر عورت کو ایسے ہی ضمانتیں ملتی رہیں تو معاشرہ ختم ہو جائے گا۔

جج فرخ فرید نے کہا کہ مرحوم پرویز مشرف کے دور میں ایسا ہی ایک کیس ہوا تھا۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.