چچا کی ’جھڑکیاں اور سختیاں‘ جنھوں نے رافیل نڈال کو ایک بڑا چیمپیئن بنا دیا
- جوناتھن جُریکو
- بی بی سی سپورٹس
رافیل ندال نے جو 21 گرینڈ سللام جیتے ان میں سے 16 مرتبہ ان کے ہیڈ کوچ ٹونی تھے
ٹونی رافیل نڈال نے اپنے تین سالہ بھتیجے کی جانب جو پہلی بال پھینکی، اسی وقت انھیں معلوم ہو گیا تھا کہ کورٹ کی دوسری طرف شاٹ کھیلنے کے لیے تیار کھڑے اس بچے میں کچھ خاص ہے۔
سپین کے اس شوقیہ کھلاڑی نے ایک مرتبہ قومی چیمپئن شپ میں حصہ لیا تھا اور اس کے بعد سے آبائی جزیرے ملورکا میں واقع مناکور ٹینس کلب میں سینکڑوں بچوں کی کوچنگ کر رہے تھے۔
بی بی سی سپورٹس سے بات کرتے ہوئے ٹونی بتاتے ہیں ’جب میں نے رافیل کی جانب گیند ماری تو وہ اس کی طرف لپکا، اس نے بال کے خود تک پہنچنے کا انتظار نہیں کیا۔‘
’عام طور پر، جب میں کسی چھوٹے بچے کو بال پھینکتا تھا، تو وہ وہیں کھڑا رہتا اور اس وقت تک انتظار کرتا کہ گیند اس کے پاس آ جائے۔ لیکن میرا بھتیجا، وہ اس کی جانب گیا اور میرے لیے یہ خاص بات تھی۔‘
ان کا اندازہ درست ثابت ہوا، رافیل رافیل نڈال میں ایک خاص ٹیلنٹ تھا۔ ٹونی کی مدد سے آج تین سالہ رافیل ایک ایسے کھلاڑی اور انسان ہیں جس نے اپنے چچا کے اندازوں کو درست ثابت کیا ہے۔
اور آج کسی کھلاڑی نے مردوں کے سنگلز کے مقابلوں میں رافیل نڈال سے زیادہ گرینڈ سلام ٹائٹل نہیں جیتے۔
انھوں نے 2020 میں فرینچ اوپن میں اپنے ہسپانوی حریف راجر فیڈرر کے 20 گرینڈ سلیمز جیتنے کا ریکارڈ برابر کیا تھا لیکن گذشتہ برس سربیا کے نوواک جوکووچ سال کے چار میں سے تین گرینڈ سلیمز جیتنے کے بعد اسی نمبر پر پہنچ گئے تھے۔
لیکن گزشتہ اتوار 30 جنوری کو رافیل نڈال نے فیڈرر اور جوکووچ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنا دوسرا آسٹریلین اوپن ٹائٹل جیت لیا جو شاید ان کے کیرئیر کی سب سے غیر متوقع جیت تھی۔
لیکن جیسا کہ رافیل نڈال نے خود اکثر اس بات کا اعتراف کیا ہے، ٹینس کی دنیا میں ’انکل ٹونی‘ کے نام سے مشہور شخص کے بغیر شاید وہ یہ کامیابی حاصل نہ کر پاتے۔
ٹونی کی جھڑکیوں کی بہت سی کہانیاں ہیں۔ ان کی ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کے بغیر وہ نوجوان جسے اس کی بہن ماریبل نے ’ایک خوف زدہ بلی‘ کہا تھا ، شاید کبھی بھی اس ’بپھرے ہوئے بیل‘ میں تبدیل نہ ہوتا جسے ہم ٹینس کورٹ میں اپنی دور کے سب سے زیادہ سخت مقابلہ کرنے والے اور بہترین کھلاڑی کے طور پر جانتے ہیں۔
ٹیراکوٹا میں ٹینس کے کورٹس کے علاوہ، مناکور ٹینس کلب اور رولینڈ گیروس کے درمیان کوئی خاص مماثلت ڈھونڈنا مشکل ہے۔
سپین میں مناکور ایک عام سا گاؤں ہے جہاں ایک درمیانے درجے کا ایسا کلب ہاؤس ہے جس کے اندر بحیرہ روم کے دیگر جزیروں پر موجود ریستورانوں جیسا ہی ایک ریستوران ہے۔
ٹونی، فروری میں 61 سال کے ہو جائیں گے۔ وہ ابھی 30 برس سے کچھ اوپر تھے جب نڈال نے پہلی بار بچوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ انھیں جوائن کیا۔
ابتدائی دنوں میں، نڈال کے چچا نے ان سے مختلف سلوک کیا۔ لیکن یہ رشتہ داروں کے ساتھ بےجا رعایت کا معاملہ بھی نہیں تھا۔
ٹونی، رافیل کو ایک ایسا نوجوان بتاتے ہیں جو نرم مزاج اور خاموش طبع سا لڑکا تھا، مگر وہ اکثر اس بات پر ناراض ہو جاتا کہ اس کے ساتھ دوسروں سے زیادہ سختی کی جاتی ہے۔
ٹونی کا کہنا ہے کہ ’میں رافیل سے زیادہ توقعات رکھتا تھا کیونکہ مجھے اس کی زیادہ پروا تھی۔‘
نڈال کی والدہ اینا ماریا اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ کس طرح ان کا جوان بیٹا روتا ہوا ٹریننگ سے واپس آتا تھا لیکن وہ یہ نہیں بتاتا تھا کہ اسے کیا پریشانی ہے۔
ایک بار انھوں نے اپنی والدہ کو بتایا کہ ٹونی نے اسے ’ممیز بوائے‘ کہا ہے، یہ سن کر اینا ماریا اپنے دیور سے باز پرس کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن نڈال کوئی ہنگامہ نہیں چاہتا تھا اور کسی بدمزگی سے بچنے کے لیے انھوں نے اپنی خاموش رہنے کو کہا۔
نڈال 15 برس کی عمر میں ہی پروفیشنل کھلاڑی بن چکے تھے
نڈال کا کہنا ہے کہ چچا اس پر چیختے تھے اور اسے ڈرانے کی کوشش کرتے تھے، کبھی کبھی صرف وہ دونوں اکیلے ہیں تربیت کر رہے ہوتے تھے۔
اگر کورٹ پر کھیلتے ہوئے ندال کا دھیان ہٹتا تو ٹونی اس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ان کی طرف زور سے گیند پھینکتے۔
پریکٹس کے اختتام پر، ٹونی اصرار کرتے کہ نڈال تمام بالز اٹھا کر ان سے مٹی صاف کرے، جب کہ دوسرے بچے اپنی دنیا میں مگن ہوتے۔ اگر کسی دن نڈال اپنی پانی کی بوتل گھر بھول جاتے تو انھیں میلورکن کی تپتی دھوپ میں پانی کے بغیر ٹریننگ کرنا پڑتی تھی۔
ٹونی کا کہنا ہے کہ وہ سب کچھ، جو ان کے بھتیجے کی 2011 کی سوانح عمری میں بیان کیا گیا ہے، سچ ہے۔
وہ بی بی سی سپورٹس کو بتاتے ہیں ’میں محنت پر یقین رکھتا ہوں اور میں ان کھلاڑیوں پر یقین رکھتا ہوں جو مقابلے کی سکت رکھتے ہیں۔‘
’میرا خیال ہے کہ آپ کو ہمیشہ دنیا میں اپنے مقام کا پتا ہونا چاہیے۔‘
’یہی وجہ ہے کہ میں رافیل کے ساتھ ایسا ہی تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ مقابلہ کر سکتا ہے۔‘
سنہ 2000 میں نڈال 14 برس کے تھے جب انھوں نے فرانس میں شوقیہ کھلاڑیوں کے ٹورنامنٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی
جب 11 سالہ نڈال نے سپینش انڈر 12 کا قومی ٹائٹل جیتا تو ٹونی کا سخت رویہ پھر سے واپس آ گیا۔
کامیابی کا جشن منانے والی پارٹی میں ٹونی نے ماضی کے 25 ایسے کھلاڑیوں نام گنوائے جنھوں نے میچز جیتے تھے اور خود کو ایک صحافی ظاہر کرتے ہوئے سپینش ٹینس فیڈریشن سے مطالبہ کیا کہ آئیں اور میرے سے یہ نام حاصل کریں۔
نڈال نے صرف پانچ ایسے کھلاڑیوں کا سنا تھا جنھوں نے کھیل کو پیشے کے طور پر اپنایا۔ ٹونی نے، بظاہر فتح کے احساس کے ساتھ، اصرار کیا وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں: نڈال کے پاس ایسا کرنے کا پانچ میں سے صرف ایک فیصد چانس تھا۔
اس طرح کی ایک اور مثال چند سال بعد سامنے آئی جب 14 سالہ نڈال جنوبی افریقہ میں ایک بین الاقوامی ٹورنامنٹ سے خوشی خوشی گھر واپس آئے۔۔۔ اس سے پہلے نڈال نے اتنا دور کا سفر نہیں کیا تھا۔
اور یہ پہلا موقع تھا جب انھوں نے کسی اور کلچر کے ساتھ ساتھ ہاتھیوں اور شیروں جیسے جنگلی جانوروں کو بھی دیکھا تھا۔ اور وہ میچ بھی جیت کر آئے تھے۔
اپنی سوانح عمری میں، نڈال بتاتے ہیں کہ واپسی پر ان کی گاڈ مدر نے ایک پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔ انھیں بتایا گیا کہ اس پارٹی میں لگے ایک بینر پر جشن منانے کے ساتھ دھیان ہٹانے جیسا بھی کچھ پیغام درج تھا۔
نڈال یہ پیغام نہیں دیکھ پائے تھے۔ ٹونی نے بینر کو دیوار سے ہٹاتے ہوئے گاڈ مدر کو للکارا، نڈال کو پارٹی میں جانے سے روکا اور اگلے دن صبح نو بجے بھتیجے کو ٹریننگ کے لیے بلا لیا۔
ٹونی کا کہنا ہے کہ ’میں چاہتا تھا کہ وہ جان لے کہ اس عمر میں اس نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے، مستقبل کے حوالے سے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔‘
’میں اس کی امیدوں کو کم کرنا چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ جان لے کہ یہ صرف ایک چھوٹی سی کامیابی ہے اور اگر وہ ترقی کرنا چاہتا ہے تو اسے بہت محنت کرنا ہو گی۔‘
سنہ 2009 کے آسٹریلین اوپن کے دوران بھی ٹونی نڈال کو کورٹ میں بار کچھ سمجھا رہے تھے
اس تمام عرصے کے دوران ٹونی کے بھائی اور رافیل نڈال کے والد، سبیسچیئن بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتے تھے کہ ان کے چھوٹا بھائی ان کے بیٹے پر بہت سختی تو نہیں کر رہا۔ سبیسچئن کی اہلیہ کو بھی اپنے دیور کے رویے پر تحفظات تھے۔
اسی طرح خاندان سے باہر کے کچھ لوگ بھی جب 30 برس پہلے کے حالات اور تربیت کے دوران کھلاڑیوں کی دیکھ بھال کے حوالوں سے تبدیل ہوتے ہوئے ریوں کو دیکھتے ہیں، تو ہو سکتا ہے ان کے ذہن میں بھی ٹونی کے طور طریقوں کے بارے میں سوال اٹھتے ہوں۔
اپنی کتاب میں نڈال نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے خیال میں ان کی شخصیت میں ’عدم تحفظ‘ کے احساس کے پیچھے کسی حد تک ان کے چچا کے رویے کا بھی ہاتھ تھا۔ لیکن وہ اگلے ہی پیراگراف میں لکھتے ہیں کہ وہ صرف کھیل کے میدان میں عدم تحفظ کی بات کر رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں کئی مرتبہ ان کی کارکردگی ’ان کے اپنے معیار سے نیچے` رہی۔
جہاں تک ٹونی کا تعلق ہے تو ان کے بقول وہ صرف یہی چاہتے تھے کہ ان کے بھتیجے کو ’بہترین تربیت ملے۔‘
’میں اس پر سختی کرتا تھا، لیکن بلاوجہ ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتا تھا۔ میں اس کی بھلائی کے لیے سختی کرتا تھا۔‘
ٹونی کہتے ہیں کہ اس حوالے سے خاندان میں بھی ’کوئی بہت زیادہ اختلافات‘ نہیں ہوتے تھے۔ سبیسچئن اور اینا ماریا بھی یقیناً یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے بیٹے کی خواہشوں کی تکمیل میں ٹونی کا کردار کس قدر اہم رہا ہے۔
اسی وجہ سے جب نڈال 14 برس کے تھے اور انھیں بارسلونا جا کر ٹینس کی تربیت حاصل کرنے کے لیے وظیفہ ملا تو ان کے والدین نے نڈال کو بارسلونا نھیں بھیجا۔
تب صرف 14 برس کی عمر میں نڈال جانتے تھے کہ ان کے چچا کے ساتھ تربیت کا یہ رشتہ کتنا خاص ہے، اسی لیے وہ خود بھی بارسلونا نہیں جانا چاہتے تھے۔
’میں گھر چھوڑ کے نہیں جانا چاہتا تھا اور مجھے خوشی ہے کہ میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔‘
’ٹونی (بعض اوقات) میرے سر پر سوار ہو جاتے، لیکن میں جانتا تھا کہ میرے اور چچا کے درمیان رشتہ اچھا چل رہا ہے اور اسی چیز میں میری بہتری ہے۔ ‘
’کیونکہ میں جانتا تھا کہ ٹونی ٹھیک بات کر رہے ہیں۔ مجھے ان پر شدید غصہ آتا تھا، لیکن بحیثیت مجموعی یہ چیز میرے لیے اچھی رہی ہے۔‘
گزشتہ برس کے میڈرڈ اوپن کے مقابلوں کے دنوں میں ندال کے ہر میچ سے پہلے سپین کے دارالحکومت کی تاریخی جھیل، لاس وینٹاس کے کنارے بڑی بڑی سکرینوں پر ٹی وی اشتہاروں، ڈرونز کے ساتھ شوٹنگ کے ساتھ ساتھ بہت شور شرابا ہوتا تھا۔
ان مقابلوں میں نڈال نے جو کِٹ پہنی تھی اس کی شرٹ پر بیل کی تصویر تھی جس کے سینگ ایسے بنائے گئے تھے جیسے کڑکتی ہوئی آسمانی بجلی ہو۔
لیکن نڈال کے گھر والے ہمیشہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں کہ بچپن سے لیکر آج 36 برس کی عمر تک نڈال کو اندھیرے سے ڈر لگتا ہے اور اب بھی وہ ٹی وی لگا کے سوتے ہیں، اور جیسے ہی بجلی کڑکتی ہے، نڈال تکیے کے نچے دُبک جاتے ہیں۔
نڈال کی یہ شبیہ بھی انکل ٹونی نے بنائی ہے کہ وہ ایک ایسا ’چنگھاڑتا ہوا بیل‘ ہے، جو علامت ہے برداشت، حوصلہ کی، بار بار حملہ کرنے اور کبھی بھی شکست نہ تسلیم کرنے کی۔
ٹونی کہتے ہیں کہ ’ میں ایک ایسا کوچ تھا جس کی توجہ نڈال کو کھیل کے گُر سکھانے سے زیادہ اس چیز پر ہوتی تھی کہ نڈال کی شخصیت کو مضبوط کیا۔‘
وہ بنیادی مہارتیں جن کی وجہ سے نڈال نے 21 گرینڈ سلام، 37 ماسٹرز اور ٹینس کی دنیا کا ہر دوسرا اعزاز جیتا، وہ مہارتیں ہمیں آج بھی ان کے ہر میچ میں دکھائی دیتی ہیں۔ اگر ہم نڈال کی ان صلاحیتوں پر غور کریں تو ہمیں ان کے تانے بانے اس سخت تربیت میں ملتے ہیں جو ٹونی نے انھیں بچپن میں دی تھی۔
شاید نڈال کی کتابوں میں سب سے بڑا لفظ ’ثابت قدمی‘ ہے، اور نڈال کی شخصیت میں ہمیں جو جسمانی اور ذہنی ثابت قدمی دکھائی دیتی ہے یہ ٹونی کی سخت ٹریننگ کی دین ہے۔
اپنی کسی جسمانی کمزوری کو ذہن پر سوار نہ ہونے دینا، یہ چیز نڈال کو شاید اس دن سمجھ آ گئی تھی جب سپین کے انڈر 14 ٹینس مقابلوں میں انھوں نے ایک ٹوٹی انگلی کے ساتھ بھی میچ کھیلا، کیونکہ وہ چچا کے سامنے یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے کہ وہ ٹوٹی انگلی کی وجہ سے کمزور پڑ گئے ہیں۔
شدید دباؤ میں بھی پوری توجہ کے ساتھ کھیلنا اور میچ کے دوران پیش آنے والے مسئلے کو وہیں پر حل کرنا، بقول ندال کے یہ چیزیں بھی ’میرے بچپن کے اسی جادوگر نے سکھائی تھیں جسے تمام گُر آتے تھے‘ اور وہ نڈال کی غلطیوں کا ہمیشہ تجـزیہ کر کے بتاتے تھے کہ تم نے فلاں چیز ٹھیک کی، فلاں غلط.
نڈال کے گھر والے اپنے آبائی قصبے میں ہی رہتے ہیں لیکن یہ تمام میچ دیکھنے ضرور آتے ہیں
نڈال کی بڑی بڑی فتوحات میں ہمیں ان کی یہ تمام صلاحیتں واضح دکھائی دیتی ہیں۔ مثلاً سنہ 2008 کے ومبلڈن کے فائنل میں روجر فیڈرر کے ساتھ مقابلہ جب نڈال نے پہلی مرتبہ ومبلڈن جیتا تھا۔
یہی چیز ہمیں سنہ 2019 کے یو ایس اوپن کے فائنل میں بھی اس وقت دکھائی دی جب انھوں نے ڈنیل میڈویڈِو کو ایک طویل میچ میں شکست دی۔ اور پھر ان صلاحیتوں کا تازہ ترین مظاہرہ انھوں نے گذشتہ اتوار کو آسٹریلین اوپن کے فائنل میں کیا۔
ٹونی نے اپنے بھتیجے کے ذہن میں یہ بات پختہ کر دی تھی کہ ’ہر پوائنٹ کو ایسے کھیلو جیسے یہ تمہارا آخری پوائنٹ ہو۔‘
آج کل ٹونی مایوکرا میں قائم نڈال کی اکیڈمی کے سربراہ ہیں۔ یہ اکیڈمی اس کلب سے تھوڑی ہی دور واقع ہے جہاں سے ٹونی اور ان کے بھتیجے کی کہانی شروع ہوئی تھی۔
آج بھی چچا بھتیجے کا یہ رشتہ اسی طرح قائم ہے اور نڈال کا تمام خاندان مناکور میں ہی رہتا ہے اور ٹونی کہتے ہیں کہ ان دونوں کا رشتہ ایک ’معمول‘ کا رشتہ ہے۔
جب بھی یہ خاندان آپس میں بیٹھتا ہے تو نڈال کے کھیل کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوتی۔ اگرچہ ٹونی اب بھی نڈال کے کچھ میچوں میں تماشائیوں میں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں، لیکن وہ اب نڈال کے کھیل میں کوئی دخل نہیں دیتے۔
بطورِ کوچ آخری مرتبہ ٹونی کو سنہ 2017 میں اس وقت رافیل نڈال کے ساتھ دیکھا گیا تھا جب انھوں نے دسویں مرتبہ فرنچ اوپن جیتا تھا۔ ٹونی جب اپنے بھتیجے کو ٹرافی دے رہے تھے تو چچا کا چہرہ خوشی اور فخر سے تمتما رہا تھا اور جب دونوں بغلگیر ہوئے تو صاف دکھائی دے رہا تھا کہ دونوں میں کتنا پیار ہے۔
ٹونی کہتے ہیں کہ ’اگر میں اس وقت کو یاد کروں جب میں نے رافیل کے ساتھ ٹینس کھیلنا شروع کیا تھا اور اگر آپ کہتے کہ ایک دن یہ لڑکا 21 گرینڈ سلام جییتے گا تو میں کہتا کہ یہ ممکن نہیں۔‘
’لیکن آج رافیل نے جو راستہ اپنا ہے، جس طرح وہ تقریباً ہر سال ایک کے ایک بعد گرینڈ سلام جیت رہا ہےں تو ایسے میں یہ معمول کی بات لگتی ہے۔
’ہم نے یہ کر دکھایا ہے کہ مناکور کے ایک عام سے لڑکے نے اپنی محبت اور قربانی کے بل بوتے پر، وہ کامیابیاں حاصل کر لیں ہیں جن کا ارادہ اس نے بچپن میں کر لیا تھا۔‘
Comments are closed.