’راس الحکمہ‘: متحدہ عرب امارات کی اربوں ڈالر سرمایہ کاری کا منصوبہ کیا ہے اور اس سے مصر کو کیا فائدہ ہو گا؟،تصویر کا ذریعہMIDDLE EAST NEWS AGENCY

  • مصنف, محمد حمیدہ
  • عہدہ, بی بی سی قاہرہ
  • ایک گھنٹہ قبل

جیسے ہی مصر کی حکومت نے بحیرہ روم پر واقع ’راس الحکمہ‘ نامی منصوبے میں سرمایہ کاری کے ایک بڑے معاہدے کا اعلان کیا تو سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا یہاں تک کہ چائے کے ڈھابوں اور گلی کوچوں میں اس منصوبے سے متعلق معاہدے کی تفصیلات پر عوامی سطح پر بحث ہوتی رہی۔مصر میں یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب ملک کو ایک تباہ کن معاشی بحران کا سامنا ہے اور امریکی ڈالر ملکی تاریخ میں پہلی بار 72 مصری پاؤنڈ کے برابر پہنچ گیا ہے۔اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا اور شہروں میں ایک کلو گوشت کی قیمت بھی ملکی تاریخ میں پہلی بار 500 مصری پاؤنڈ تک پہنچ گئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے مصر میں سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ، نہر سوئز سے حاصل ہونے والی آمدنی میں کمی اور بیرونِ ملک کام کرنے والے مصریوں کی طرف سے ترسیلات زر میں کمی بھی دیگر وجوہات میں شامل ہیں۔قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مقدس ماہِ رمضان سے قبل خرید و فروخت جزوی طور پر مفلوج ہونے کے علاوہ مصری مارکیٹوں سے سامان غائب ہونا شروع ہو گیا ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ ’راس الحکمہ‘ کی جانب سے سرمایہ کاری سے پہلے یہ بحران بڑھتا جا رہا ہے۔

’راس الحکمہ‘ دراصل شمالی مصر میں بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ایک علاقہ ہے جو قاہرہ کے شمال مغرب میں تقریباً 350 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں سے آپ بحیرہ روم میں داخل ہوتے ہیں اور بحیرہ روم کے کچھ ساحل ایسے ہیں جن پر کبھی کوئی نہیں گیا۔

معاہدے اور لین دین کی تفصیلات

،تصویر کا ذریعہUN HABITATمصری وزیر اعظم مصطفیٰ مدبولی نے ایک پریس کانفرنس میں مارسا متروح کے قریب راس الحکمہ کو سیاحتی مقام، آزاد زون، سرمایہ کاری کے دیگر علاقوں اور رہائشی، تجارتی اور تفریحی مقامات بنانے کے لیے تقریباً 35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔وزیر اعظم مصطفیٰ نے کہا کہ اُن کی حکومت اس منصوبے کے لیے تقریباً 40 ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین مختص کرے گی۔ اس کی مزید وضاحت کیے بغیر انھوں نے کہا کہ اس منصوبے سے 150 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی آمد متوقع ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ اُن کی حکومت نے ابوظہبی ہولڈنگ کمپنی (اے ڈی کیو) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے اور مصری حکومت اور کمپنی کے درمیان راس الحکمہ کمپنی کے نام سے ایک مصری مشترکہ سٹاک کمپنی قائم کی جائے گی، تاکہ مصری کمپنی اس پروجیکٹ پر عمل درآمد کرائے گی۔ وزیراعظم نے تصدیق کی کہ ایک ہفتے کے اندر اس معاہدے کے لیے 10 ارب ڈالر کی نقد رقم ایڈوانس ملے گی، اور یہ کہ متحدہ عرب امارات نے پہلے ہی اس معاہدے کے لیے 11 ارب ڈالر کی رقم مصر کے مرکزی بینک میں جمع کر دی ہے، اور اس میں سے پانچ ارب ڈالر مصری پاؤنڈ میں تبدیل کیے جائیں گے اور پہلی ادائیگی ابوظہبی ہولڈنگ کمپنی کو دی جائے گی۔جب کہ رقم کی دوسری کھیپ دو ماہ کے اندر ملے گی جس میں سے 14 ارب ڈالر کی نقد رقم مصر آئے گی، متحدہ عرب امارات کے ڈیپازٹ کے بقیہ حصے کے علاوہ یہ رقم 6 ارب ڈالر ہے، یہ تمام رقم اس منصوبے کو نافذ کرنے والی کمپنی کو دی جائے گی۔ابوظہبی ہولڈنگ کمپنی (اے ڈی کیو) نے اپنی ویب سائٹ پر بتایا کہ اس نے راس الحکمہ منصوبے کو 24 ارب ڈالر میں تیار کرنے کے حقوق حاصل کر لیے ہیں اور مصری حکومت راس الحکمہ پراجیکٹ اور اس کی آمدنی میں 35 فیصد حصص اپنے پاس رکھے گی۔ اس منصوبے پر کام 2025 کے اوائل میں شروع ہونے کی امید ہے۔کمپنی نے تصدیق کی کہ مصر میں اس کی کل سرمایہ کاری 35 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی اور متحدہ عرب امارات کے 11 ارب ڈالر کے ڈیپازٹ فنڈز کو پورے مصر میں بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جائے گا تاکہ اقتصادی ترقی کی راہ ہموار کی جا سکے۔مصری وزیر اعظم نے توقع ظاہر کی کہ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد مصر آنے والے سیاحوں کے حجم میں سالانہ 80 لاکھ سیاحوں کا اضافہ ہو گا۔

اقتصادی ترقی کے ساتھ ایک سیاسی منصوبہ

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بڑا پراجیکٹ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سرمایہ کاری کے معاہدے ’معاشی نوعیت کے سیاسی معاہدے‘ ہوتے ہیں، ملک میں دو ماہ میں 24 ارب ڈالر آ جائیں گے، حالانکہ کمپنی کے بیان کے مطابق یہ منصوبہ 2025 کے اوائل میں شروع ہو گا۔ مصری وزیر اعظم مصطفیٰ مدبولی نے بھی ان شرائط پر معاہدے کی تکمیل کا سہرا دونوں ممالک کی سیاسی قیادت کو دیا ہے۔ابوظہبی ہولڈنگ کمپنی (اے ڈی کیو) کچھ عرصے سے مصر میں براہ راست سرمایہ کاری کے لیے سرگرم ہے، اور اس نے ADNEC کے ساتھ ملک کر طلعت مصطفی ہولڈنگ گروپ (ٹی ایم جی) کے مہمان نوازی کے شعبے میں ایکون گروپ کے 40.5 فیصد حصص ایک سرمائے کے ذریعے حاصل کیے ہیں۔ ’ایکون‘ مصر میں تاریخی ہوٹلوں کے ایک گروپ کی ملکیت رکھتا ہے۔ہشام طلعت مصطفی فروری کے شروع میں ابوظہبی میں مصری وزیر اعظم اور متحدہ عرب امارات کے صدر کے ساتھ پہلی بار نظر آئے، جسے کچھ لوگوں نے ’راس الحکمہ معاہدے کی تیاری‘ کے طور پر دیکھا۔اپریل 2022 میں اماراتی کمپنی (اے ڈی کیو) نے کمرشل انٹرنیشنل بینک (سی ائی بی) کے حصص حاصل کیے جو مصر کے سب سے بڑے نجی بینکوں میں سے ایک، الیکٹرانک ادائیگیوں کی کمپنی ’فاؤری‘ اور ’لیگزینڈریا کنٹینر اینڈ کارگو ہینڈلنگ کمپنی‘ ہے۔یو اے ای کی کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق ’مصر فرٹیلائزر پروڈکشن‘ اور ’ابو قر فرٹیلائزر اینڈ کیمیکل انڈسٹری‘ ملک کی ان دو اہم صنعتی کمپنیوں کے علاوہ امون فارماسوٹیکل کمپنی ( فارماسیوٹیکل مینوفیکچرنگ کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک) کو خرید لیا گیا تھا۔قاہرہ یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر ڈاکٹر رشاد عبدو کا کہنا ہے کہ اُن میں سے کچھ کے حصول کی شرائط کا اعلان نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی ان میں سے کچھ کی لاگت کا اعلان کیا گیا تھا۔ وہ پوچھتے ہیں کہ کیا یہ معاہدہ ان کمپنیوں کو دوسرے ملکوں کی کمپنیوں کو فروخت کرنے کا حق دیتا ہے چاہے وہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہی کیوں نہ ہوں؟ انھوں نے آئیکون کمپنی کے ملکیتی تاریخی ہوٹلوں کی مثال بھی دی۔عبدو نے کہا کہ ان میں سے کچھ کمپنیاں منافع کما رہی تھیں اور مصری کرنسی مارکیٹ میں ڈالر بھی پیدا کر رہی تھیں لیکن ان سیلز آپریشنز نے سب کو خوفزدہ کر دیا۔انھوں نے مزید کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ماہرین معاشیات کا ایک گروپ ہے جو ملک کو اس مصیبت کی طرف لے گیا اور جس نے انھیں ریاست کے اثاثے بیچنے پر مجبور کیا اور جسے آنے والی نسلوں کی پروا نہیں۔

راس الحکمہ معاہدے سے متعلق خدشات کیا ہیں؟

،تصویر کا ذریعہUN HABITATناقدین کا کہنا ہے کہ راس الحکمہ میں سرمایہ کاری کے بارے میں لوگوں کے خدشات زمین اور پورے شہر کو فروخت کرنے کے الزامات سے متعلق ہیں، اور ناقدین کا ماننا ہے کہ متحدہ عرب امارات سے کیا گیا معاہدہ ملک کے معاشی مستقبل کے بارے میں خدشات پیدا کرتا ہے جیسا کہ وہ کہاوت ہے کہ ’تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہ ڈالیں۔‘قاہرہ یونیورسٹی میں اکنامکس کے پروفیسر ڈاکٹر ہشام ابراہیم نے بی بی سی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا ’جو کمپنی اس منصوبے کو عملی جامہ پہنائے گی وہ ایک مصری جوائنٹ سٹاک کمپنی ہے۔ سرمایہ کاری کا یہ مقام مصر کے اندر موجود ہے اور حکومت اس جگہ کا 35 فیصد اپنے پاس رکھے گی۔ سرمایہ کاری ملک کے اندر ہو رہی ہے اور جگہ بھی ملک کے اندر ہے اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘ابراہیم نے مزید کہا کہ جب ریاست نے بڑے پراجیکٹس، رئیل سٹیٹ پراجیکٹس، خاص طور پر نیو الامین اور ایڈمنسٹریٹو کیپٹل جیسے منصوبے ختم کیے تو اس سے اس کے وسائل ختم ہو گئے ہیں۔ انھوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریاست ایسا کیوں کرتی ہے اور اتنے بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری سے ریاستی وسائل کو کیوں ختم کر دیتی ہے؟ان کا کہنا ہے کہ تاہم راس الحکمہ منصوبہ ترقی کی راہ کو موڑ رہا ہے اور نجی شعبے کو اس منصوبے کو قائم کرنے اور اس کا انتظام سنبھالنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ابراہیم نے مزید کہا کہ مصری کمپنیاں ہی پورے منصوبے کو شروع کریں گی، چاہے وہ کنٹریکٹ کرنے والی کمپنیاں ہوں، سپلائی کرنے والی ہوں یا ورکرز ہوں، وہ سب خالص طور پر مصری ہیں۔ڈاکٹر رشاد عبدو نے کہا کہ وہ مطمئن ہیں کہ راس الحکمہ پراجیکٹ شراکت داری ہے نہ کہ فروخت، یہ درست ہے کہ ان کی تفصیل کے مطابق مختص علاقے بہت بڑے ہیں لیکن آخر کار حکومت نے 35 پر قبضہ جما لیا ہے۔ یہ موجودہ نسل اور آنے والی نسلوں کو فائدہ دے گا۔،تصویر کا ذریعہMIDDLE EAST NEWS AGENCYڈاکٹر رشاد عبدو بتاتے ہیں کہ اس معاہدے سے ڈالر آئیں گے جس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا، اور ڈالر اہم پیداواری ضروریات اور سٹریٹجک اشیا درآمد کرنے کے لیے دستیاب ہو گا، اور درآمد کنندگان کی ضروریات اور کسٹمز میں سامان کو پورا کرے گا۔چاہے یہ عارضی ہی ہو لیکن درآمد کنندگان کی یہ دلیل نہیں مانی جا سکتی کہ وہ بلیک مارکیٹ سے ڈالر 70 پاؤنڈ میں خریدتے ہیں جس سے قیمتیں متاثر ہوتی ہیں۔ تاہم ملک میں آنے والی معاشی خوشحالی ایکسچینج مارکیٹ پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور یہ فرق قیمتوں میں ظاہر ہو گا۔ڈاکٹر ہشام ابراہیم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ قیمتیں کم ہو جائیں گی، لیکن نہ صرف اس منصوبے کی وجہ سے بلکہ عالمی مالیاتی فنڈ سے بھی رقم ملے گی جس سے زرمبادلہ بڑھے گا اور چاہے تھوڑی ہی سہی، قیمتیں کم ہو جائیں گی۔ابراہیم نے کہا کہ ایکسچینج مارکیٹ جس افراتفری کا شکار ہے، جس سے کھانے پینے کی اشیا، رئیل سٹیٹ، کاروں اور سونے کی منڈیوں پر اثر پڑتا ہے، یہ سب غیر ملکی زرمبادلہ کی فراہمی اور ایکسچینج مارکیٹ کے استحکام سے نسبتاً پُرسکون ہو جائیں گے۔رشاد عبدو کا خیال ہے کہ مصری حکومت کو ان رقموں کو خرچ کرنے میں دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور مصری مارکیٹ میں غیر ملکی کرنسی دستیاب ہونے کے بعد قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت اقدامات کرنا چاہیے۔ماہرین کا خیال ہے کہ مصری معیشت میں مسائل اس وقت تک موجود رہیں گے جب تک کہ ریاست مصر میں موجود اشیا کو برآمد کرنے کے بجائے پیداوار میں توسیع نہیں کرتی جس سے زرِمبادلہ میں اضافہ ہو گا اور مصری منڈی مستحکم ہو گی۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}