راجستھان کا ‘جلیاں والا باغ’ جہاں مان گڑھ کے مقام پر قتل عام ہوا تھا
- موہر سنگھ مینا
- بی بی سی ہندی کے لیے
مان گڑھ کی پہاڑی راجستھان اور گجرات کی سرحد پر واقع ہے
سنہ 1919 میں جلیاں والا باغ میں برطانوی راج کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام سے چھ برس قبل بھی اسی نوعیت کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جس کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں کم ہی ملتا ہے۔
مان گڑھ کی پہاڑی راجستھان اور گجرات کی سرحد پر واقع ہے اور اسے بھی بڑے پیمانے پر لوگوں کی ہلاکت کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
جلیاں والا باغ میں ایک ہزار سے زیادہ افراد کو گولیاں برسا کر قتل کر دیا گیا تھا۔ جبکہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مان گڑھ میں ہونے والے قتل عام میں ڈیڑھ ہزار لوگ مارے گئے تھے۔
مان گڑھ پہاڑی پر جمع ہزاروں افراد پر برطانوی راج اور دیسی ریاستوں کی افواج نے مکمل تیاری کے ساتھ پر گولیاں چلائی تھیں۔
مصنف، تاریخ دان اور مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ واقعہ جلیاں والا باغ کے قتل عام سے بھی بڑا تھا لیکن اسے تاریخ میں وہ مقام نہیں مل سکا۔
مان گڑھ پہاڑی پر قتل عام سے متعلق ایک منظر کی عکاسی
مان گڑھ راجستھان کے دارالحکومت جے پور سے 550 کلومیٹر دور ہے اور یہ راجستھان کے آدیواسی اکثریتی ضلع بنسوارہ کے ضلعی ہیڈکوارٹر سے تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں آنند پوری پنچایت سمیتی کی عمارت سے قریب چار کلو میٹر دور ایک پہاڑ صاف نظر آتا ہے۔
108 سال قبل ہونے والے قتل عام کا گواہ یہ پہاڑ اس واقع کی کہانی خود میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اسے اب مان گڑھ دھام کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مان گڑھ کے اس پہاڑ کا 80 تقریباً فیصد حصہ راجستھان میں جبکہ 20 فیصد گجرات میں ہے۔
مان گڑھ میوزیم میں درج معلومات
اس کے گرد جنگلات ہیں اور پہاڑی کی اونچائی قریب 800 میٹر ہے۔ واقعے کے 80 سال بعد تک بھی یہاں اس کی یاد میں یا اس کی نشاندہی کرتا ہوا کچھ نہیں تھا۔
گذشتہ دو دہائیوں کے دوران یہاں شہدا کی یادگار، سڑک، اور میوزیم بنائے گئے ہیں۔ اب جا کر تاریخ میں مان گڑھ واقعے کی حقیقت کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔
لیکن مان گڑھ کا پہاڑ 108 سال پہلے کیسے ہوتا، اس کا اندازہ یہاں آ کر ہی ہو جاتا ہے۔ انڈین حکومت نے بھی اس قتل عام کے واقعے کو تسلیم کرنے میں کافی وقت لگایا۔
راجستھان کی سرحد سے پہاڑی کا گجرات میں پڑنے والا حصہ سامنے نظر آتا ہے۔
واقعہ پیش آنے کے قریب اسی سال بعد راجستھان کی حکومت نے اس قتل عام میں ہلاک ہونے والے سینکڑوں افراد کی یاد میں 27 مئی 1999 کو شہدا کی یادگار بنائی، تب جا کر مان گڑھ کو اس کا مقام ملا۔ تاہم تاریخ میں کبھی اس واقعے کو وہ جگہ نہیں ملی۔
بنسوارا کے رکن اسمبلی اور قبائلی ترقی کے سابق وزیر مہندرا جیت سنگھ مالویہ کہتے ہیں کہ ‘وزیر کی حیثیت سے میں نے پانچ لوگوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تاکہ دلی میں نیشنل آرکائیو سے اس سے متعلق تاریخ کی کھوج ہو سکے۔ یہ جان کر اچھا لگتا ہے کہ اب لوگ اس بڑے واقعے کے بارے میں جاننا شروع ہوگئے ہیں۔’
مان گڑھ میوزیم
ہم مان گڑھ کے پہاڑ پر گئے تو وہاں ہم نے گووند گورو کا مسجمہ دیکھا اور پتھروں پر لکھی گئی کچھ معلومات پڑھی۔
گووند گورو دنگر پور ضلعے کے بنسیہ گاؤں میں ایک بنجارا خاندان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے لوگوں کو متحرک اور آگاہ کرنے کے لیے اپنی تحریک کا آغاز 1880 میں کیا۔
ان دنوں مقامی لوگ برطانوی راج اور نوابی ریاستوں کی وجہ سے ظلم برداشت کر رہے تھے جس میں ٹیکس اور جبری مشقت کا نظام شامل تھا۔
تاریخ دان پروفیسر بی کے شرما کہتے ہیں کہ ‘جبراً ٹیکس لگائے جا رہے تھے۔ ان لوگوں کے ساتھ اچھوت جیسا رویہ رکھا جاتا تھا۔ انہی حالات میں گووند گورو کی تحریک سے لوگوں میں آگاہی پھیل رہی تھی۔’
گجرات کی سرحد
گورو نے لوگوں کو سمجھایا کہ وہ پوجا کریں، شراب نہ پیئں، گوشت نہ کھائیں اور صفائی کا خیال رکھیں۔ اس تحریک کی وجہ سے چوری کے واقعات بھی بند ہو گئے تھے اور شراب سے ہونے والی آمدن بھی کم ہو گئی تھی۔
اس پر ‘دھونی تپے تیر’ نامی ایک کتاب کے مصنف اور سابق آئی پی ایف افسر ہری رام مینا بتاتے ہیں کہ ‘سنہ 1903 میں گووند گورو نے سمپ سبھا تشکیل دی۔ ان کی تحریک کو بھگت موومنٹ بھی کہا جاتا ہے۔ لوگوں میں آگاہی کی یہ تحریک بڑھتی گئی۔ نوابی ریاستوں کو لگا کہ گورو کی قیادت میں قبائیلی ایک الگ ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیں۔’
،تصویر کا ذریعہMOHAR SINGH MEENA/BBC
نیشنل آرکائیز سے حاصل کیا گیا دستاویز جو قتل عام سے پہلے فوجوں نے محاصرے کے لیے بنایا تھا۔
تاریخ دان اور ریٹائیرڈ پروفیسر وی کے وشِسٹھ بھی سمجھتے ہیں کہ بھیل قبائیل ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس دوران نوابی ریاستوں نے برطانوی راج کو بتایا تھا کہ قبائلی لوگ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے شراب کی خرید و فروخت کم ہوگئی ہے۔
تاہم پروفیسر وشِسٹھ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ سمپ سبھی کا قیام گووند گورو نے ہی کیا تھا۔ گووند گورو کی تحریک کا اثر و رسوخ اتنا بڑھ گیا تھا کہ نوابی ریاستیں ان کی شکایت برطانوی راج سے کر رہی تھیں۔ اس کے بعد حالات ایسے بدلے کہ کچھ سال بعد 17 نومبر 1913 کو مان گڑھ کی پہاڑی پر قتل عام ہوا۔
مان گڑھ میوزیم کی ایک تصویر
عوام کو متحرک کرنے کی گووند گورو کی تحریک اپنے عروج پر تھی۔ لوگ کئی دنوں سے مان گڑھ پر ایک خصوصی پوجا یا یگیہ کے لیے پہاڑی پر آ رہے تھے۔
نیشنل آرکائیو میں موجود اس وقت کے کچھ خطوط بھی بتاتے ہیں کہ برطانوی حکومت نے 13 اور 15 نومبر کو گووند گورو کو مان گڑھ پہاڑی خالی کرنے کے لیے کہا تھا۔ لیکن گووند نے بتایا کہ لوگ یہاں اپنی مذہنی رسومات کے لیے آ رہے ہیں۔
پروفیسر ارون واگھلے کہتے ہیں، ‘مان گڑھ کو فوج نے گھیر لیا تھا۔ اس آپریشن میں برطانوی فوج کے ساتھ ساتھ بانسواڑا، ڑونگرپور، بروڑا، جوگرباریا، گائیکواڑ رجواڑوں کی افواج اور میواڑ بھیل کور کی کمپنی بھی شامل تھی۔’
فوج نے پہاڑ کا ایک نقشہ بنایا تھا اور ان کے پاس مشین گنز کے علاوہ توپیں تھیں جو خچروں پر لائی گئی تھیں۔
مان گڑھ پہاڑی
میجر ہیملٹن کی فوج صبح ساڑھے چھ بجے پہاڑ کے تین اطراف پر موجود تھی۔ آٹھ بج کر 10 منٹ پر فائرنگ شروع ہوئی اور 10 بجے تک جاری رہی۔
گجرات کی سرحد پر کندا گاؤں کے رہائشی مان گڑھ پر پارگی مندر میں عبادت کر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ‘فائرنگ اس وقت روک دی گئی جب ایک برطانوی افسر نے دیکھا کہ ایک بچہ اپنی مردہ ماں سے لپٹ کر دودھ پی رہا ہے۔’
نیشنل آرکائیو میں اس وقت کے برطانوی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس فورس میں ساتویں جاٹ رجمنٹ، نوویں راجپوت رجمنٹ، 104 ویلسریز رائفل رجمنٹ، مہو، بڑودا، احمدآباد سے ایک ایک کمپنی پہنچی تھی۔ میواڑ کے دو دستوں کی قیادت کیپٹن جے پی سٹیکلن کر رہے تھے۔
ہری رام مینا کے مطابق ‘ایک کمپنی میں قریب 120 اہلکار ہوتے ہیں جن میں 100 مسلح ہوتے ہیں۔ اس فوج میں میواڑ، دنگر پور، پرتاب گڑھ، بنسوارہ اور خشال گڑھ کی نوابی ریاستوں کی افواج بھی شامل تھیں۔’
راجستھان کی حکومت نے اس قتل عام میں ہلاک ہونے والے سینکڑوں افراد کی یاد میں شہدا کی یادگار بنائی
‘میری تحقیق کے مطابق مان گڑھ پر 1500 لوگوں کو قتل کیا گیا۔ 700 گولا باری میں مارے گئے اور اتنے ہی لوگ پہاڑ سے گر کر اور علاج کی عدم فراہمی کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔’
بی کے شرما کے مطابق بھی اس واقعے میں 1500 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ مان گڑھ پر لکھی گئی کتابوں اور میوزیم میں موجود معلومات میں بھی یہی دعویٰ کیا گیا ہے۔
واقعے کے بعد برطانوی حکام نے حکومت کو مرنے والوں کی تعداد نہیں بتائی تھی مگر کہا تھا کہ ‘مان گڑھ پہاڑی کو خالی کرا لیا گیا ہے۔ آٹھ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ 900 نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔’
گووند گورو اور شِشیہ پونچا پارگی کو واقعے کے بعد سزائیں دی گئی تھیں۔ گووند گورو کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا گیا اور ان کی رہائی کے بعد ان پر بنسوارا، سنترام پور اور مان گڑھ جانے پر پابندی لگائی گئی تھی۔ اس طرح قبائلیوں کی تحریک قتل عام سے دبا دی گئی تھی۔
گووند گورو کی وفات 1921 میں ہوئی۔ ان کے جانے کے بعد بھی ان کے عقیدے کے کئی لوگ وہاں مقیم ہیں اور ان کی پوجا کی جاتی ہے۔
17 نومبر کو قتل عام کے بعد 80 کی دہائی تک مان گڑھ پر کسی کے بھی آنے جانے پر پابندی رہی۔
تاریخ دان ارون واگھیلا کے مطابق ‘لوگ اس واقعے کے بعد خوفزدہ تھے۔ اس لیے آس پاس کے علاقے کے لوگ بھی اپنے گاؤں چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے تھے۔ ننگے پاؤں۔’
راجستھان کی سرحد سے پہاڑی کا گجرات میں پڑنے والا حصہ سامنے نظر آتا ہے۔
مان گڑھ کے مہنت رام چندرہ گری کہتے ہیں کہ ‘میرے دادا ہالا اور دادی آمری کو مان گڑھ میں قتل عام کے دوران انگریزوں نے گولیاں چلا کر مار دیا تھا۔’
وہ کہتے ہیں کہ یہاں کئی لوگوں کی لاشیں گل سڑ گئیں۔
گذشتہ کئی برسوں سے ادھر 17 نومبر کو شہدا کا دن منایا جاتا ہے اور قتل عام میں ہلاک ہونے والوں کو یاد کیا جاتا ہے۔ پوجا کی جاتی ہے، اور گووند گورو کے بھجن گائے جاتے ہیں۔
ارون واگھلے کہتے ہیں کہ ‘اس واقعہ کے بعد جب بھی قبائلی لوگ متحرک ہوتے تو انہیں ‘مان گڑھ جیسا ہوگا’ کہہ کر ڈرا دیا جاتا تھا۔ گجرات میں 1938 میں متحرک ہونے والے قبائیلوں کو بھی مان گڑھ یاد دلا کر منتشر کر دیا گیا تھا۔’
مان گڑھ پہاڑی
مہندرا سنگھ مالویہ کہتے ہیں کہ ‘جالود کے قریب گووند گورو کی موت ہوئی تھی، اب وہاں ایک آشرم اور سمادھی ہے۔ ہمارے ہاں کے قبائلی لوگ اس کی یادگار پر بھٹے چڑھائے بغیر کھانا نہیں کھاتے۔’
ارون واگھلے نے بتایا کہ یہاں گجرات کے حصے پر یادگار کے طور پر باغ بنایا گیا اور اس کا افتتاح نریندر مودی نے کیا تھا۔ ادھر مرنے والوں کی تعداد 1507 لکھی گئی ہے۔
تاریخ دانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مان گڑھ کا قتل عام ایک بڑا واقعہ تھا لیکن تاریخ میں درج نہ ہونے کے پیچھے الگ الگ وجوہات بتاتے ہیں۔
مہندرا سنگھ مالویہ کہتے ہیں کہ کھدائی کے دوران یہاں برطانوی راج کے دور کی گولیاں برآمد ہوئی تھی۔ انھیں ادے پور میوزیم میں رکھا گیا ہے۔
Comments are closed.