’رات کو جہاز اڑانے والی چڑیلیں‘: دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کا سکواڈرن جن سے جرمن فوج بھی خوفزدہ تھی
سنہ 1993 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے پہل تو مرد ہم پر ہنستے تھے۔‘لیکن جلد ان کے رویوں میں تبدیلی آ گئی۔ ’انھوں نے دیکھا کہ ہم کیسے جہاز اڑا رہے تھے اور نائٹ بمبار رجمنٹ کے جوان ہمیں ’بہنیں‘ کہنے لگے اور دیگر فوجی ہمیں ’آسمانی مخلوق‘ کہنے لگے جبکہ جرمن فوجیوں کو ہم ’رات کی چڑیلیں‘ نظر آنے لگیں۔‘ڈیبی لینڈ ورلڈ اسوسی ایشن سروس کی دستاویزی فلم سیریز کے لیے شٹل ورتھ کلیکشن میں خواتین ہوا بازوں کا مطالعہ کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ سوویت یونین کی صنف کی بنیاد پر یکساں تعلیمی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ وہاں بہت سی لڑکیوں نے جہاز اڑانا سیکھا۔لینڈ کہتی ہیں کہ اُس وقت سوویت یونین میں ایک پروگرام کے تحت لڑکے اور لڑکیاں دونوں کو مفت میں ہوابازی سکھائی جاتی تھی۔ ’یہی وجہ ہے کہ جب جرمن فوج نے حملہ کیا اور روسی فوج کو نقصان پہنچایا تو یہ لڑکیاں تیار تھیں۔‘،تصویر کا ذریعہCORBIS/GETTY
ایک ہیروئن کی قیادت میں
22 جون 1941 کو جرمنی کے حملے کے بعد جب سوویت یونین نے مردوں کو متحرک کیا تو اس وقت ان میں سے بیشتر نوجوان خواتین یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم تھیں۔لیکن وہ کسی بھی صورت پیچھے نہیں رہنا چاہتی تھیں۔ان نوجوان خواتین کی ایک بڑی تعداد نے مرینا راسکووا کو خط لکھنا شروع کر دیے جو سوویت یونین میں پیشہ ور پائلٹ بننے کے لیے ڈپلومہ حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔ان کی مقبولیت میں اس وقت بے پناہ اضافہ ہوا اور وہ سوویت یونین کی ہیرو بن گئیں جب سنہ 1938 میں وہ بطورِ نیوی گیٹر طویل فاصلے کی نان سٹاپ پرواز کا ریکارڈ توڑنے میں کامیاب ہوئیں۔اس سفر کے دوران عملے میں ان کے ساتھ دو دیگر خواتین بھی شامل تھیں اور ان کے مطابق یہ سفر انتہائی مشکل تھا۔مرینا کو ہنگامی لینڈنگ سے پہلے پیراشوٹ کے ذریعے ہوائی جہاز سے چھلانگ لگانی پڑی۔ اس کے بعد انھوں نے 10 دن سائبیرین ٹائیگا میں اکیلے بغیر کھانے کے گزارنے پڑے۔بعد ازاں انھوں نے اس مہم جوئی اور اپنے تجربات کے بارے میں ایک کتاب لکھی جس کے بعد وہ پورے سوویت یونین میں مشہور ہو گئیں۔دوسری عالمی جنگِ کے دوران بہت سے نوجوان پائلٹ اپنے ملک کے لیے لڑنا چاہتے تھے لیکن ان میں سے بیشتر کو صرف دفاتر میں معاون عہدوں پر یا نرسوں کے طور پر حصہ لینے کا موقع دیا گیا تھا۔ ان نوجوان پائلٹوں کو معلوم تھا کہ ان کو کس سے رجوع کرنا ہے۔مرینا پھر سوویت رہنما جوزف سٹالن کی طرف متوجہ ہوئیں، جو ان کے مداح تھے۔ انھیں نے سٹالن سے خواتین پائلٹس پر مشتمل ایک سکواڈرن بنانے کی درخواست کی۔سٹالن نے ان کی تجویز سے اتفاق کیا اور اس کے بعد مرینا نے تین خواتین رجمنٹیں تشکیل دیں: 586 ویں ایئر کمبیٹ رجمنٹ، 587 ویں ایئر بمبار رجمنٹ اور 588 ویں نائٹ بمبار رجمنٹ، جو بعد میں ’نائٹ وِچز‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔،تصویر کا ذریعہAFP VIA GETTY
پلائی ووڈ اور کینوس سے بنے طیارے
پیننگٹن کہتی ہیں کہ دن کی روشنی میں ان طیاروں سے کچھ زیادہ نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ وہ بہت کمزور تھے۔ ان طیاروں میں نہ کوئی حفاظت کا انتظام تھا نہ ہی ان میں مشین گنیں لگی ہوتی تھیں۔’اس لیے ان طیاروں کو رات میں اڑانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ یہ طیارے محض مٹھی بھر بم لے جا سکتے تھے مگر یہ کچھ بھی نہیں کرنے سے کہیں بہتر تھا۔‘ان خواتین پائلٹس کے پاس اپنی شوٹنگ کو بہتر بنانے کے لیے ساز و سامان موجود نہیں تھے۔ اس کے باوجود 588ویں رجمنٹ کے پائلٹس کو ایک خطرناک آپریشن کرنا پڑا۔جب ان کے طیارے ہدف کے قریب پہنچتے تو بنا آواز کیے آگے بڑھنے کے لیے وہ انجن کو بند کر دیتے۔اس وقت وہ ایک بیکن آن کر دیتے تاکہ نیویگیٹر دیکھ سکیں کہ بم کہاں گرانے ہیں۔ تاہم اس بیکن کے جلانے سے جرمن فوج بھی ان کے ارادوں سے خبردار ہو جاتے تھے۔،تصویر کا ذریعہSOVFOTO/GETTY
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.