’رات کو جہاز اڑانے والی چڑیلیں‘: دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین کا سکواڈرن جن سے جرمن فوج بھی خوفزدہ تھی،تصویر کا ذریعہAFP VIA GETTY
،تصویر کا کیپشن588ویں نائٹ بمباری رجمنٹ کی زیادہ تر رضاکار نوعمر طلباء تھیں
7 منٹ قبلجرمن سپاہی کہتے تھے کہ اُن کے طیاروں کے پروں سے ایسی آواز آتی تھی جیسے جھاڑو دی جا رہی ہو، اس ہی لیے انھوں نے ان کو ’دی نائٹ وچز‘ (رات کی چڑیلیں) کہنا شروع کر دیا۔ان میں سے زیادہ تر نوعمر رضاکار تھیں جنھیں نہ صرف جنگ کی سختیوں سے نبرد آزما ہونا پڑا بلکہ ان شکوک و شبہات کا بھی سامنا کرنا پڑا کہ آیا خواتین پر مشتمل ایک دستہ کامیاب ہو پائے گا۔لیکن 588 ویں نائٹ بمبارمنٹ رجمنٹ کی خواتین ہوا باز جرمن فوج پر 23 ہزار ٹن سے زیادہ بم گرانے میں کامیاب رہیں اور اس طرح دوسری عالمی جنگ میں نازیوں کے خلاف سوویت یونین کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔آئرینا راکو ولسکایا روسی ریاضی دان اور طبیعات دان ہیں جنھوں نے ایک وقت میں اس رجمنٹ کی قیادت کی تھی۔

سنہ 1993 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے پہل تو مرد ہم پر ہنستے تھے۔‘لیکن جلد ان کے رویوں میں تبدیلی آ گئی۔ ’انھوں نے دیکھا کہ ہم کیسے جہاز اڑا رہے تھے اور نائٹ بمبار رجمنٹ کے جوان ہمیں ’بہنیں‘ کہنے لگے اور دیگر فوجی ہمیں ’آسمانی مخلوق‘ کہنے لگے جبکہ جرمن فوجیوں کو ہم ’رات کی چڑیلیں‘ نظر آنے لگیں۔‘ڈیبی لینڈ ورلڈ اسوسی ایشن سروس کی دستاویزی فلم سیریز کے لیے شٹل ورتھ کلیکشن میں خواتین ہوا بازوں کا مطالعہ کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ سوویت یونین کی صنف کی بنیاد پر یکساں تعلیمی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ وہاں بہت سی لڑکیوں نے جہاز اڑانا سیکھا۔لینڈ کہتی ہیں کہ اُس وقت سوویت یونین میں ایک پروگرام کے تحت لڑکے اور لڑکیاں دونوں کو مفت میں ہوابازی سکھائی جاتی تھی۔ ’یہی وجہ ہے کہ جب جرمن فوج نے حملہ کیا اور روسی فوج کو نقصان پہنچایا تو یہ لڑکیاں تیار تھیں۔‘،تصویر کا ذریعہCORBIS/GETTY

،تصویر کا کیپشن588 ویں نائٹ بمباری رجمنٹ کی خواتین کے زیرِ استعمال پولی کارپوف پی او-2 ہوئی جہاز

ایک ہیروئن کی قیادت میں

22 جون 1941 کو جرمنی کے حملے کے بعد جب سوویت یونین نے مردوں کو متحرک کیا تو اس وقت ان میں سے بیشتر نوجوان خواتین یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم تھیں۔لیکن وہ کسی بھی صورت پیچھے نہیں رہنا چاہتی تھیں۔ان نوجوان خواتین کی ایک بڑی تعداد نے مرینا راسکووا کو خط لکھنا شروع کر دیے جو سوویت یونین میں پیشہ ور پائلٹ بننے کے لیے ڈپلومہ حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔ان کی مقبولیت میں اس وقت بے پناہ اضافہ ہوا اور وہ سوویت یونین کی ہیرو بن گئیں جب سنہ 1938 میں وہ بطورِ نیوی گیٹر طویل فاصلے کی نان سٹاپ پرواز کا ریکارڈ توڑنے میں کامیاب ہوئیں۔اس سفر کے دوران عملے میں ان کے ساتھ دو دیگر خواتین بھی شامل تھیں اور ان کے مطابق یہ سفر انتہائی مشکل تھا۔مرینا کو ہنگامی لینڈنگ سے پہلے پیراشوٹ کے ذریعے ہوائی جہاز سے چھلانگ لگانی پڑی۔ اس کے بعد انھوں نے 10 دن سائبیرین ٹائیگا میں اکیلے بغیر کھانے کے گزارنے پڑے۔بعد ازاں انھوں نے اس مہم جوئی اور اپنے تجربات کے بارے میں ایک کتاب لکھی جس کے بعد وہ پورے سوویت یونین میں مشہور ہو گئیں۔دوسری عالمی جنگِ کے دوران بہت سے نوجوان پائلٹ اپنے ملک کے لیے لڑنا چاہتے تھے لیکن ان میں سے بیشتر کو صرف دفاتر میں معاون عہدوں پر یا نرسوں کے طور پر حصہ لینے کا موقع دیا گیا تھا۔ ان نوجوان پائلٹوں کو معلوم تھا کہ ان کو کس سے رجوع کرنا ہے۔مرینا پھر سوویت رہنما جوزف سٹالن کی طرف متوجہ ہوئیں، جو ان کے مداح تھے۔ انھیں نے سٹالن سے خواتین پائلٹس پر مشتمل ایک سکواڈرن بنانے کی درخواست کی۔سٹالن نے ان کی تجویز سے اتفاق کیا اور اس کے بعد مرینا نے تین خواتین رجمنٹیں تشکیل دیں: 586 ویں ایئر کمبیٹ رجمنٹ، 587 ویں ایئر بمبار رجمنٹ اور 588 ویں نائٹ بمبار رجمنٹ، جو بعد میں ’نائٹ وِچز‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔،تصویر کا ذریعہAFP VIA GETTY

،تصویر کا کیپشنمرینا راکسووا سوویت یونین کی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے پیشہ ور پائلٹ کا ڈپلومہ حاصل کیا۔
اس طرح سوویت یونین پہلا ملک بن گیا جس نے باضابطہ طور پر خواتین کو لڑائی میں حصہ لینے کی اجازت دی۔رینا پیننگٹن امریکہ کے ایک نجی ملٹری کالج نارویچ یونیورسٹی میں روسی اور فوجی تاریخ کی پروفیسر ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’پائلٹ تو بہت تھے مگر شاید ہی کوئی تربیت یافتہ نیویگیٹرز یا میکینکس تھے، اس لیے روس کو خواتین کو ان تمام چیزوں کی شروع سے تربیت دینی پڑی۔‘

پلائی ووڈ اور کینوس سے بنے طیارے

پیننگٹن کہتی ہیں کہ دن کی روشنی میں ان طیاروں سے کچھ زیادہ نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ وہ بہت کمزور تھے۔ ان طیاروں میں نہ کوئی حفاظت کا انتظام تھا نہ ہی ان میں مشین گنیں لگی ہوتی تھیں۔’اس لیے ان طیاروں کو رات میں اڑانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ یہ طیارے محض مٹھی بھر بم لے جا سکتے تھے مگر یہ کچھ بھی نہیں کرنے سے کہیں بہتر تھا۔‘ان خواتین پائلٹس کے پاس اپنی شوٹنگ کو بہتر بنانے کے لیے ساز و سامان موجود نہیں تھے۔ اس کے باوجود 588ویں رجمنٹ کے پائلٹس کو ایک خطرناک آپریشن کرنا پڑا۔جب ان کے طیارے ہدف کے قریب پہنچتے تو بنا آواز کیے آگے بڑھنے کے لیے وہ انجن کو بند کر دیتے۔اس وقت وہ ایک بیکن آن کر دیتے تاکہ نیویگیٹر دیکھ سکیں کہ بم کہاں گرانے ہیں۔ تاہم اس بیکن کے جلانے سے جرمن فوج بھی ان کے ارادوں سے خبردار ہو جاتے تھے۔،تصویر کا ذریعہSOVFOTO/GETTY

،تصویر کا کیپشنمرینا روکسووا (دائیں) نے پولینا اوسیپینکو (بائیں) اور ویلنٹینا گریزودوبووا کے ساتھ مل کر 1938 میں نان اسٹاپ فلائٹ کا خواتین کا عالمی ریکارڈ توڑا۔
پائلٹ کو طیارے کے توازن کو برقرار رکھنا تھا تاکہ نیویگیٹر ہدف بنا سکے، کچھ ایسا جو بہت پیچیدہ تھا کیونکہ جرمنوں نے اینٹی ایئرکرافٹ مشین گنوں کے علاوہ طاقتور تصاویر کا استعمال کیا جو انھیں اندھا کر دیتی تھیں۔لیکن پولیکارپوف پی او-2 کو کوئی تحفظ حاصل نہیں تھا، لہذا کبھی کبھی طیاروں میں آگ لگ جاتی تھی اور وہ ماچس کی ڈبی کی مانند جل کر راکھ ہو جاتے تھے۔ڈیبی لینڈ نے وضاحت کی کہ ’نائٹ وچیز‘ کا کردار اتنا زیادہ نہیں تھا کہ بم گرائے جائیں اور موت اور تباہی کا بیج بویا جائے، بلکہ ’جرمنوں کو پریشان کرنا تھا، جو سارا دن چال بازی کر رہے تھے۔‘ لہٰذا یہ ان کو سونے نہ دینے اور انھیں ساری رات کام کرنے پر مجبور کرنے کے بارے میں تھا تاکہ وہ اگلے دن تھک جائیں۔اپنے مرد ہم منصبوں کے برعکس، خاتون رجمنٹ پروازوں کے درمیان سگریٹ پینے یا چائے پینے کے لئے نہیں رکی۔ اترتے ہی انھوں نے نیا گولہ بارود لاد کر دوبارہ اڑان بھری، کبھی کبھی رات میں 15 بار، مردوں سے زیادہ۔ہدف کے قریب پہنچنے پر انجنوں کو بند کرنے کا حربہ انھوں نے ایجاد نہیں کیا تھا، بلکہ فضائیہ میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جانے لگا تھا۔ پیننگٹن نے بتایا کہ ’طیاروں کی دیکھ بھال اور ریمنگ میں جدت طرازی کی بدولت وہ ہر رات کسی بھی دوسرے یونٹ کے مقابلے میں زیادہ پروازیں اڑانے میں کامیاب رہے۔‘،تصویر کا ذریعہWIKIMEDIA COMMONS
،تصویر کا کیپشنکمانڈر یوڈوکیا برشانسکایا نے طیاروں میں ایندھن بھرنے کا ایک جدید طریقہ تیار کیا
اس کے کمانڈر، یوڈوکیا برشانسکایا نے طیاروں میں ایندھن بھرنے کا ایک جدید طریقہ تیار کیا۔ہر طیارے کو دیکھ بھال اور ایندھن بھرنے والی ٹیم رکھنے کی اجازت دینے کے بجائے، برشانسکایا نے مختلف کاموں میں مہارت رکھنے والی ٹیموں کے ساتھ ایک کنویئر بیلٹ سسٹم نصب کیا، جیسے ایندھن کے ٹینکوں کو بھرنا یا جہاز کو دوبارہ پرواز کے لیے تیار کرنا۔ناروچ یونیورسٹی کے پروفیسر نے وضاحت کی کہ ’اس طرح، میں صرف 10 منٹ میں ایک ہوائی جہاز دوبارہ اُڑان بھرنے کے لیے تیار کیا جا سکتا تھا‘ اور ہر رات میں ان کے اُڑان بھرنے کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ان کی کامیابیوں کے اعتراف میں، 588 ویں نائٹ بمبار رجمنٹ کو گارڈز کے عہدے سے نوازا گیا تھا، اور انھیں 46 ویں گارڈز نائٹ بمبار رجمنٹ کا نام دیا گیا تھا۔انھوں نے آرڈر آف دی ریڈ بینر بھی جیتا اور بہت سے ’نائٹ وچیز‘ کو انفرادی انعمات بھی ملے۔ ان میں سے 23 کو ’سوویت یونین کے ہیرو‘ کا لقب ملا، جو ملک کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}