ایک نئی تحقیق میں بچوں اور بڑوں کے ذہنوں پر پڑنے والےکورونا وائرس کے پیچیدہ اور طویل مدتی اثرات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
کورونا وائرس انسانی جسم کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس حوالے سے یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں کی جانے والی ایک تحقیق میں امریکا اور متعدد دیگر ممالک کے 12 لاکھ 80 ہزار مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔
اس تجزیے میں محققین کو یہ پتہ چلا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں سانس کے مختلف انفیکشنز میں مبتلا ہونے کی نسبت ابتدائی 2 ماہ میں بے چینی اور ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ تھے۔
تحقیق کے نتائج کے مطابق کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والے افراد 2 سال بعد تک بھی (برین فوگ) یعنی ذہنی الجھاؤ، (سائیکوسِس) یعنی حقیقت اور خیال کے درمیان فرق کرنے میں مشکل، دورے پڑنے اور ڈیمینشیا جیسی کیفیات کا شکار ہونے کے خطرات سے دوچار تھے۔
طویل مدتی کورونا وائرس دنیا بھر میں ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے، امریکا کے ڈِیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن سینٹر کی جانب سے کی جانے والی ابتدائی تحقیق میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ امریکا میں کورونا میں مبتلا ہونے والے ہر 5 افراد میں سے 1 فرد کو طویل مدت کا انفیکشن ہوتا ہے۔
اس حوالے سے رواں ہفتے شائع ہونے والی یہ تحقیق اس طویل مدتی انفیکشن کو مزید سمجھنے کے لیے کافی مددگار ہے۔
یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے ایک سینئر ریسرچ فیلو میکسِم ٹیکٹ کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ تحقیق کے نتائج اس بات کو مزید نمایاں کرتے ہیں کہ اس چیز کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ کورونا وائرس کا شکار ہونےکے بعد لوگ ایسی صورتِ حال سے دوچار کیوں ہوتے ہیں اور اس سے بچنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے۔
Comments are closed.