ذاکر نائیک کے دورہِ پاکستان پر چرچا
ذاکر نائیک کے دورہِ پاکستان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی ردعمل دیکھا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ ذاکر نائیک کو پاکستان مدعو کرنے پر سوال اٹھا رہے ہیں اور کچھ اس کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔پاکستان میں ذاکر نائیک اور فاروق نائیک ’کیا قرآن سمجھنا اور پڑھنا ضروری ہے؟‘ یا ’ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟‘ جیسے موضوعات پر اپنا اظہار خیال کریں گے۔ایک پاکستانی صارف عامر مغل نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’ذاکر نائیک کو اپنے ملک انڈیا میں خوش آمدید نہیں کہا جاتا۔ ایسے میں ذاکر نائیک کو پاکستان مدعو کرنے کے لیے کیا ٹائمنگ چنی گئی ہے؟ ذاکر نائیک کو القاعدہ، دولت اسلامیہ اور اسامہ بن لادن کا حامی سمجھا جاتا ہے۔‘عامر مغل نے ذاکر نائیک کی ایک پرانی ویڈیو شیئر کی ہے۔ اس ویڈیو میں ذاکر نائیک کو یہ کہتے ہوئے سنا جا رہا ہے کہ ’اس ملک کے ساتھ جو سب سے غلط کام ہوا وہ تقسیم ہے۔ مسلمانوں کے لیے بہتر ہوتا کہ وہ ایک ملک کی طرح مل جل کر رہتے۔ پھر وہ ایک بڑی طاقت بن کر ابھرتے۔‘ایسی ویڈیوز پاکستان میں بھی شیئر کی جا رہی ہیں، جن میں ذاکر نائیک کو اسامہ بن لادن اور طالبان کی کارروائیوں کا جواز پیش کرتے ہوئے سنا جاتا ہے۔انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے سوشل میڈیا پر ذاکر نائیک کا پروگرام شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان میں آپ کا تہہ دل سے استقبال ہے۔Twitter پوسٹ نظرانداز کریںTwitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔Twitter پوسٹ کا اختتاممواد دستیاب نہیں ہےTwitter مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.مدیحہ نامی ایک صارف نے ان کے دورہ پاکستان کے متعلق ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کو بہت سی چیزوں پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن سب سے پہلے ذاکر نائیک، طارق جمیل جیسے لوگوں کو کالج اور یونیورسٹیوں میں بلانا بند کیا جائے۔ گذشتہ 30 سالوں میں تبلیغی جماعت کی طرف سے طلباء کو بنیاد پرستی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور وہ مزید کتنا نقصان چاہتے ہیں؟‘حسین حقانی سنہ 2008 سے 2011 تک امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں۔ انھوں نے ٹویٹ کیا کہ ’پاکستان کو اس دعوت پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ مذہبی بنیاد پرستوں کو دعوت دینے سے ملک کی شبیہ متاثر ہوگی۔ بنیاد پرست مبلغین پاکستان کے اپنے ہی کافی ہیں۔ باہر سے بلانے کی ضرورت نہیں۔‘ایک صارف امتیاز محمود نے لکھا کہ ’ذاکر نائیک پاکستان آ رہے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مستحق ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
ذاکر نائیک اب تک پاکستان کیوں نہیں گئے؟
انڈیا میں ذاکر نائیک کے لیے مسائل بڑھے تو وہ ملائیشیا چلے گئے۔ حال ہی میں ایک پاکستانی یوٹیوبر نے ذاکر نائیک سے سوال کیا کہ آپ انڈیا کیوں نہیں جا سکے اور جب آپ ملائیشیا گئے تھے تو آپ نے پاکستان آنے کا انتخاب کیوں نہیں کیا؟ذاکر نائیک نے جواب دیا تھا کہ ’میرے لیے پاکستان کا ویزا حاصل کرنا آسان ہے، یہ سب جانتے ہیں۔ وہاں جانا چاہتا تو جا سکتا تھا۔ اسلام میں قاعدہ ہے کہ بڑے نقصان سے بچنے کے لیے چھوٹا نقصان اٹھاؤ۔ اگر میں پاکستان جاتا تو وہ مجھ پر آئی ایس آئی سے وابستہ ہونے کا الزام لگاتے۔ اسی وجہ سے میں پاکستان نہیں گیا۔‘ذاکر نائیک نے کہا کہ ’پاکستان سے میں محبت کرتا تھا۔ میں جب بھی باہر جاتا تو جن سفیروں سے ملتا تو ان میں زیادہ تر پاکستانی ہوتے تھے۔ 2019 میں جب یہ واضح ہو گیا کہ واپس (انڈیا) جانے کے امکانات نہیں ہیں تو میں نے کہا کہ اب ہم پاکستان جا سکتے ہیں۔ میرا منصوبہ 2020 کے آخر میں آنے کا تھا۔ میں نے لوگوں سے رابطہ کیا اور مکمل پلان بنا لیا گیا۔ حکومت کے لوگ بھی تیار تھے لیکن کووڈ آ گيا۔‘کیا اب پاکستان آنے کا ارادہ ہے؟ذاکر نائیک نے جواب دیا ’ہاں بالکل‘ ہے۔ دعوت نامے آنا شروع ہو گئے ہیں۔انڈیا جانے کے امکانات کے بارے میں ذاکر نائیک نے کہا کہ انڈیا جانا بہت آسان ہے۔ باہر نکلنا مشکل ہے۔ بلانے کے لیے تو ریڈ کارپٹ بچھا دی جائے گی کہ آؤ اور اندر جیل میں بیٹھو۔ ظاہر ہے کہ گرفتار کر لیں گے۔ ان کی فہرست میں نمبر ایک دہشت گرد ذاکر نائیک ہی ہے۔‘اسی انٹرویو میں ذاکر نائیک نے گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مودی کمزور ہو گئے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ذاکر نائیک اور انڈیا
پیس ٹی وی پر جس پر ذاکر نائیک کی تقاریر نشر ہوتی ہیں، انڈیا، برطانیہ اور بنگلہ دیش سمیت کچھ ممالک نے پابندی عائد کر رکھی ہے۔ذاکر نائیک پیس ٹی وی کے مالک بھی ہیں۔ ذاکر نائیک کو اپنی تقریروں میں اسلام کے بارے میں بات کرتے سنا جاتا ہے۔سنہ 2015 میں ذاکر نائیک کو سعودی عرب نے ’اسلام کی خدمت کرنے پر‘ اپنے باوقار ایوارڈ سے نوازا تھا اور انھیں شاہ سلمان نے یہ اعزاز دیا تھا۔ اس اعزاز سے تقریباً 15 سال پہلے سنہ 2000 کے آس پاس ذاکر نائیک کی تقاریر نے بڑی تعداد میں لوگوں کی توجہ مبذول کرنا شروع کر دیا تھا۔بعد میں ذاکر پر اسلام کو دوسرے مذاہب سے برتر قرار دینے اور دوسرے مذاہب کو نیچا دکھانے کا الزام لگایا گیا۔ ذاکر کی تقاریر کو جنون پھیلانے والی قرار دیا گیا۔ لیکن ذاکر نائیک کی زندگی میں ایک بڑی مصیبت کا دور اس وقت شروع ہوا جب سنہ 2016 میں بنگلہ دیش میں انتہا پسندوں کے حملے میں بہت سے لوگ مارے گئے۔تفتیش کاروں کے مطابق گرفتار ہونے والے شدت پسندوں میں سے ایک نے بتایا تھا کہ وہ ذاکر نائیک کی تقاریر سے متاثر تھے۔ذاکر نائیک نے ستمبر 2024 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں اس بارے میں کہا تھا کہ ’مجھ پر اس بنیاد پر الزام لگایا گیا کہ حملہ آوروں میں سے ایک نے فیس بک پر مجھے فالو کیا ہوا ہے۔‘بعد میں ممبئی پولیس کی سپیشل برانچ نے اس معاملے کی جانچ کی۔ ابتدائی تحقیقات کے بعد ذاکر نائیک کی تنظیم آئی آر ایف پر پابندی لگا دی گئی۔اس کے بعد ذاکر نائیک انڈیا چھوڑ کر ملائیشیا چلے گئے۔ حکومت ہند نے ذاکر نائیک کو مفرور قرار دیا ہے۔2019 میں سری لنکا میں ایسٹر سنڈے کے دھماکوں میں 250 افراد کی ہلاکت کے بعد بھی ذاکر نائیک کو الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ 2021 میں وزارت داخلہ نے ذاکر نائیک کی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن یا آئی آر ایف پر عائد پابندی کو پانچ سال کے لیے مزید بڑھا دیا۔مرکزی حکومت نے یو اے پی اے کے تحت سنہ 2016 میں آئی آر ایف پر پابندی لگا دی تھی۔مرکزی حکومت کی جانب سے آئی آر ایف پر پابندی عائد کرنے کے لیے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ ’یہ تنظیم ایسی سرگرمیوں میں شامل ہے جو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ اس سے ملک کے امن اور فرقہ وارانہ اتحاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘نوٹیفکیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ ذاکر نائیک ملک اور بیرون ملک مسلم نوجوانوں کو شدت پسند سرگرمیوں کے لیے اکسا رہے ہیں۔اگست 2016 میں اس وقت کے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے کہا تھا کہ ’تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے جماعت الدعوۃ، انڈین مجاہدین اور حزب المجاہدین جیسی انتہا پسند تنظیموں سے تعلقات ہیں۔‘ذاکر نائیک کے خلاف انڈیا میں وارنٹ جاری ہیں۔ ذاکر پر نوجوانوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر اکسانے کا بھی الزام ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
ذاکر نائیک کا بچپن
ذاکر نائیک سنہ 1965 میں ممبئی کے علاقے ڈونگری میں پیدا ہوئے۔ ذاکر کے خاندان میں بہت سے لوگ ڈاکٹر تھے۔ ذاکر کے والد بھی ڈاکٹر تھے اور ان کے بھائی بھی ڈاکٹر ہیں۔ذاکر نے ابتدائی تعلیم سینٹ میری ہائی سکول سے حاصل کی۔ بعد میں ذاکر نے ٹوپی والا نیشنل میڈیکل کالج سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی۔1991 میں میڈیکل پریکٹس چھوڑنے کے بعد ذاکر نے اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔اب اس فاؤنڈیشن اور اس کے تحت چلنے والے سکول کو سیل کر دیا گیا ہے۔ذاکر نائیک کا پیس ٹی وی کا یوٹیوب چینل بھی انڈیا میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ ذاکر نائیک کے پیروکاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ گذشتہ برسوں میں ایسے کئی مواقع آئے جب ذاکر کی حوالگی سے متعلق خبریں آئیں۔ملائیشیا ایک مسلم اکثریتی ملک ہے۔ جب ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم اگست میں انڈیا آئے تھے تو ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا پی ایم مودی سے ملاقات میں ذاکر نائیک کی حوالگی سے متعلق معاملہ بھی اٹھایا گیا تھا؟انور نے جواب دیا کہ ’پہلی بات تو یہ ہے کہ مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔ پی ایم مودی نے کئی سال پہلے یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔ میں کسی ایک شخص کے بارے میں نہیں بلکہ شدت پسندی کے جذبات کی بات کر رہا ہوں۔ کیا کسی بھی ٹھوس معاملے میں ایسے شواہد موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کسی شخص یا تنظیم نے کچھ ظلم کیا ہے یا غلط کیا ہے۔‘انور ابراہیم نے کہا تھا کہ ’ہم دہشت گردی کو نظر انداز نہیں کریں گے۔ ہم دہشت گردی کے خلاف سخت ہیں اور انڈیا کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ ایک مسئلہ ہمارے مزید تعاون اور دوطرفہ تعلقات کو متاثر کرے گا۔‘ماہرین کے مطابق اگرچہ ذاکر نائیک ملائیشیا میں مقیم ہیں لیکن ذاکر نائیک کو وہاں سے اسی صورت میں انڈیا کے حوالہ کیا جا سکتا ہے جب وہ ملائیشیا میں کسی تنازع یا غلطی کے مرتکب ہوں۔ظاہر ہے کہ ذاکر نائیک کوشش کریں گے کہ ان سے ایسی کوئی غلطی سرزد نہ ہو۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.