تاہم اس انڈین فلم کی وجہ سے ناقدین اور خلیجی سوشل میڈیا صارفین کے درمیان تنازع پیدا ہو گیا جب کچھ لوگوں نے سعودی عرب میں کفالت کے نظام کے تصور کو پیش کیے جانے کے طریقے پر اعتراض کیا تو بعض لوگوں نے اسے ایک تخلیقی کام کے طور پر دیکھا۔یہ فلم ایک انڈین نوجوان (نجیب) کی کہانی بیان کرتی ہے جو روزگار کی تلاش میں سعودی عرب پہنچنے کے بعد ایک سعودی شخص کے پاس جاتا ہے، جو اس کا کفیل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔یہ سعودی شخص نجیب کو صحرا میں لے جا کر مویشی پالنے کا کام دیتا ہے اور پھر نجیب نامی کردار مجبوری میں برسوں لق و دق صحرا میں بسر کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔فلم کی کہانی ایک سچی کہانی پر مبی ہے جس کا مرکزی کردار ایک انڈین شہری ہے جو اس دردناک کہانی کو بیان کرتا ہے جو ایک نام نہاد سپانسر کے ہاتھوں پیش آتی ہے۔ سپانسر یا کفیل کا کردار عمانی فنکار طالب البلوشی نے ادا کیا ہے۔
ایک حقیقی آزمائش سے متاثر کہانی
،تصویر کا ذریعہAadujeevitham
کفالہ کا نظام کیا ہے؟
کفالہ کے نظام کا اطلاق خلیجی ممالک میں کام کرنے والے غیر ملکی کارکنوں پر ہوتا ہے۔اس کے تحت کسی بھی خلیجی ملک میں کام کرنے کے لیے کارکن کے لیے ایک کفیل یا سپانسر کا ہونا ضروری ہے جو اس کے رہائش اور ملازمت کے معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔اپنی ملازمت کے آغاز میں غیرملکی کارکن اپنا پاسپورٹ اور تمام تر شناختی دستاویزات اپنے کفیل کے پاس جمع کرانے کا پابند ہوتا ہے۔اس نظام کا اطلاق مقامی عرب آبادی کے گھروں میں کام کرنے والے ذاتی ملازمین سے لے کر بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین پر ہوتا ہے۔کفالہ کے نظام کرنے تحت کفیل یا سپانسر کارکنوں کی بھرتی کے لیے ان کے اپنے ملکوں میں کام کرنے والی ریکروٹمنٹ کمپنیوں کو فیس اور خلیجی ملک سفر کے لیے کرایہ ادا کرتا ہے۔خلیجی ملک میں آمد کے بعد کفیل اپنے ماتحت کام کرنے والے کارکنوں کی تمام معاشی اور قانونی معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔اگرچہ کارکن کے ویزے کا سٹیٹس اپنے کفیل کے ساتھ منسلک ہوتا ہے لیکن تمام معاملات میں وہ ریکروٹمنٹ ایجنسی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کا پابند ہوتا ہے۔اگر کارکن اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے اور یہ ثابت ہو جائے کہ کفیل اس کا ذمہ دار نہیں ہے تو کارکن کو ریکروٹمنٹ فیس ادا کرنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔کارکن اپنے کفیل کی اجازت کے بغیر اپنی ملازمت تبدیل نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ اپنے کفیل کی اجازت کے بغیر ملک چھوڑ سکتا ہے۔بحرین، کویت، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اومان میں کام کرنے والے کارکن اس نظام سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔کفالہ کے نظام تحت بعض کفیل اپنے کارکنوں سے غلاموں جیسے سلوک کرتے ہیں اور غیر ملکی کارکنوں میں کفیلوں کے خلاف شکایات عام سننے میں آتی ہیں۔
فلم کی کہانی کیا ہے؟
فلم میں نجیب دنیا سے الگ تھلگ اپنے مالک اور اس کے جانوروں کے ساتھ ایک سخت تپتے صحرا میں تنہا رہتا ہے جہاں سے قریبی سڑک میلوں کے فاصلے پر واقع ہے۔شدید گرمی میں نہ تو اس کے پاس فون ہے اور نہ ہی لکھنے کے لیے کاغذ یا قلم۔ نہ اس کا کوئی دوست ہے اور نہ شناسا اور اسے اسی حوض سے پانی پینا پڑتا ہے جس سے جانور پیتے ہیں۔ایک دل دہلا دینے والے منظر میں نجیب اشک آلود چہرے کے ساتھ بتاتا ہے کہ کس طرح اس نے ایک ملازمت کے وعدے پر اپنا سب کچھ بیچ دیا اور خاندان کو چھوڑ کر پردیس آ گیا۔ اس نے یہ سب بس ایک اچھی ملازمت کے لیے کیا۔ وہ یہ التجا ملیالم زبان میں کرتا ہے جس کا اس کے کفیل پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ وہ عربی کے علاوہ دوسری زبان نہیں جانتا۔واضح رہے کہ تقریباً 20 لاکھ انڈین اور 100,000 کیرالہ کے باشندے بیرون ملک مقیم ہیں، جن میں سے تقریباً 90 فیصد خلیجی ممالک میں رہتے ہیں۔ان شہریوں نے کیرالہ ریاست کو جزیرہ نما عرب میں بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے جوڑ دیا ہے لیکن ان میں سے بہت سے کارکنان ان ممالک میں کفالت کے نظام کے تحت رہتے ہیں۔یہ لوگ زیادہ تر غریب اور محنت کش خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کفالت کا یہ نظام کفیل یا سپانسر کو ان کی رہائش اور نقل و حرکت پر مکمل کنٹرول دیتا ہے، اور شاید اسی وجہ سے وہ بدسلوکی اور استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہAadujeevitham
حقیقی نجیب کیا کہتے ہیں؟
حقیقی نجیب کہتے ہیں کہ ’میں نے 1991 میں بہت سے خوابوں کے ساتھ کیرالہ چھوڑا تھا لیکن میرے ساتھ وہاں جو کچھ ہوا وہ خوفناک تھا۔ خوفناک کفیل اور بکریوں کے درمیان زندگی گزارتے ہوئے میں اپنے ہونے کا احساس کھو دیا، میں تقریبا پاگل ہو گيا۔‘فلم کے ہدایت کار بلیسی نے سنہ 2008 میں کتاب کے حقوق حاصل کیے۔ فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے ملیالم سٹار سوکمارن نے بی بی سی کو بتایا کہ اگلے سال جب ہدایت کار نے انھیں ایک کاپی سونپی تو انھیں لگا کہ انھیں کتاب کے بارے میں سب کچھ معلوم ہے۔’میں کہانی کی تمام لائنوں کو جانتا تھا، اس کا شہر میں خاص طور پر فلم انڈسٹری میں بہت چرچا تھا۔ پھر بھی اس نے میرا دماغ اڑا دیا۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’اس کہانی کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے ایک انسان اور جانور کے درمیان پہچان اور مانوسیت کا امتزاج ہے۔ یہ آدمی آہستہ آہستہ انسان کے طور پر اپنی شناخت کھو دیتا ہے اور ان جانوروں میں سے ایک بن جاتا ہے۔ میں نے پہلے کبھی ایسا کچھ نہیں پڑھا تھا۔‘یہ احساس اس وقت مزید گہرا ہو جاتا ہے جب فلم میں نجیب آہستہ آہستہ اپنی ملیالم زبان بولنا بند کر دیتا ہے اور وقتاً فوقتاً وہ اپنے گلے سے ویسی ہی آوازیں نکالتا ہے جو ان جانوروں کی آوازوں سے ملتی ہے جن کا وہ خیال رکھتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.