دی ریئل کیرالہ سٹوری: سعودی عرب میں قید عبدالرحیم کو پھانسی سے بچانے کے لیے 34 کروڑ روپے کہاں سے آئے؟،تصویر کا ذریعہ India Today
،تصویر کا کیپشنعبدالرحیم کی پرانی تصویر، اب وہ 41 سال کے ہیں اور گذشتہ 18 سال سے سعودی عرب کی جیل میں ہیں
ایک گھنٹہ قبلآپ نے متنازع فلم ’دی کیرالہ سٹوری‘ کے بارے میں سنا ہوگا جو ریلیز کے وقت سے تنازعے کا شکار ہے اور جب گذشتہ ہفتے 5 اپریل کو اسے سرکاری ٹیلی ویژن دوردرشن پر پیش کیا گيا تو ایک بار پھر تنازع اٹھ کھڑا ہوا اور بعض حلقوں کی جانب سے اسے کیرالہ کو بدنام کرنے والی فلم بھی کہا جاتا رہا ہے۔اسی دوران گذشتہ کئی دنوں سے ’دی ریئل کیرالہ سٹوری‘ کے عنوان سے انڈین میڈیا میں دو خبریں گشت کر رہی ہیں جس میں انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ کے سیکولر کلچر کی جھلک ملتی ہے اور دوسرے میں انسان دوستی کی بڑی مثال سامنے آئی ہے۔کانگریس کے معروف رہنما اور رکن پارلیمان ششی تھرور نے کیرالہ کے 400 سال پرانے درگا مندر کی تصویر ڈال کر لکھا کہ ’یہ ریئل کیرالہ سٹوری‘ کی ایک اور مثال ہے جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر 400 سال پرانے درگا مندر کی تعمیر نو اور تزئین کی۔Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔Twitter پوسٹ کا اختتام, 1مواد دستیاب نہیں ہےTwitter مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.فلم ’کیرالہ سٹوری‘ کی ریلیز کے بعد سے کئی بار ’دی ریئل کیرالہ سٹوری‘ کے نام سے بہت سی چیزیں پیش کی جا رہی ہیں لیکن سنیچر کے روز انڈین میڈیا میں ایک ایسی خبر سامنےآئی جسے ’دی ریئل کیرالہ سٹوری‘ کہا جا رہا ہے۔

یہ کہانی دنیا بھر میں پھیلے کیرالہ والوں کی باہمی امداد کی کہانی ہے جس میں وہ کیرالہ کے ایک باشندے کو سزائے موت سے بچانے کے لیے محض 40 دنوں میں 34 کروڑ انڈین روپے اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔کیرالہ کے وزیر اعلی پنارائی وجین نے فیس بک پر لکھا کہ ‘’ملیالی (کیرالہ والوں کو ملیالی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ملیالم زبان بولتے ہیں) انسان دوستی اور انسانیت سے محبت کی کہانیوں کے ذریعے اپنی پہچان بڑھا رہے ہیں جبکہ نفرت پھیلانے والے ملک کے خلاف جھوٹی کہانیاں پھیلا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے کیرالہ باشندے سعودی عرب میں سزائے موت کا سامنا کرنے والے کوزی کوڈ کے رہائشی عبدالرحیم کی رہائی کے لیے 34 کروڑ روپے جمع کرنے کے لیے متحد ہوئے۔‘’ایک انسانی جان بچانے کے لیے، ایک خاندان کے آنسو پونچھنے کے لیے، کیرالہ نے محبت کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ کیرالہ بھائی چارے کا قلعہ ہے، جسے فرقہ واریت ختم نہیں کر سکتی۔‘،تصویر کا ذریعہANI

،تصویر کا کیپشنکیرالہ کے وزیر اعلی پنارائی وجین
انھوں نے مزید لکھا: یہ کیرالہ کی اصل کہانی ہے۔ یہ ایک اعلان ہے کہ کیرالہ بھائی چارے کا قلعہ ہے جسے فرقہ پرستی تباہ نہیں کر سکتی۔ ان تمام نیک دلوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد جو دنیا کے سامنے کیرالہ کے فخر کو بلند کرنے کے اس مقصد کے لیے اکٹھے ہوئے۔ اس اقدام کے پیچھے غیر ملکی ملیالیوں کا کردار قابل ستائش ہے۔ آئیے اس اتحاد کو مزید طاقت دے کر ایک ذہن کے ساتھ آگے بڑھیں۔اس سے قبل جب فلم ’دی کیرالہ سٹوری‘ کو دور درشن پر دکھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو پنارائی وجین نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر اپنے احتجاج میں کہا کہ ’نیشنل ٹیلی ویژن کو یہ فلم دکھا کر بی جے پی کے پروپیگنڈہ کا ہتھکنڈہ نہیں بننا چاہیے جو انتخابات سے قبل فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بنتی ہے۔‘کیرالہ کانگریس نے اس کے متعلق ٹویٹ کرتے ہوئے اسے دی ریئل کرالہ سٹوری قرار دیا۔ کانگریس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا: کیرالہ کی اصلی کہانی! مسلسل نفرت انگیز مہم کا سامنا کرنے کے باوجود کیرالہ میں ملیالیوں کی غیر متزلزل ابھرنے کی خاصیت اور ہمدردی غالب ہے، جو کیرالہ کی روح کو برقرار رکھنے کے لیے متحد ہیں۔’سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں 18 سال سے قید اور سزائے موت کا سامنا کرنے والے کوزیکوڈ کے عبدالرحیم کی رہائی کے لیے تقریباً 34 کروڑ روپے جمع کیے گئے۔ ہزاروں لوگ اس ماں کی مدد کے لیے متحد ہو گئے جو اپنے بیٹے کی زندگی بچانے کے لیے درکار بڑی رقم جمع کرنے کی کوشش میں تھیں۔ ان تمام لوگوں کا تہہ دل سے شکریہ جنھوں نے اس انسانی کوشش میں تعاون کیا!‘Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 2Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔Twitter پوسٹ کا اختتام, 2مواد دستیاب نہیں ہےTwitter مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.

،تصویر کا ذریعہPinarayiVijayan

،تصویر کا کیپشنوقت سے پہلے مطلوبہ رقم 34 کروڑ روپے اکٹھا کر لیے گئے ہیں

عبدالرحیم کی کہانی

انگریزی روزنامہ دی ٹیلیگراف کے مطابق کوزیکوڈ کے 41 سالہ رہائشی عبدالرحیم پہلے آٹو رکشہ چلاتے تھے جبکہ انڈیا ٹوڈے کی ویب سائٹ کے مطابق وہ سنہ 2006 میں ہاؤس ڈرائیونگ ویزے پر ریاض پہنچے تھے جہاں ڈرائیونگ کے علاوہ انھیں ایک معذور بچے کی نگرانی کام ملا تھا۔ایک دن ایک حادثے میں اس بچے کی موت ہو گئی جس کی وجہ سے انھیں سعودی عدالت سے موت کی سزا سنائی گئی۔وہ گذشتہ 18 سال سے جیل میں پڑے تھے جبکہ سنہ 2012 میں انھیں موت کی سزا سنائی گئی تھی کہ اسی دوران کیرالہ کی برادری نے ان کے لیے قانونی چارہ جوئی کی مہم شروع کی اور خاندان والوں کو ’دیت‘ یعنی خوں بہا پر راضی کر لیا۔اس سے قبل عبدالرحیم کی سزائے موت کے خلاف پے در پے اپیلیں ہوتی رہیں اور ٹرائل کورٹ نے ہر بار 2012، 2017 اور 2022 میں پھانسی کی سزا کو برقرار رکھا۔ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں مقیم کیرالہ کے تاجر اشرف وینگھٹ نے جمعے کے روز انھیں بتایا کہ ’کئی سالوں تک معافی دینے سے انکار کرنے کے بعد لڑکے کے خاندان نے پچھلے سال (2023 میں) 15 ملین ریال دیت کے بدلے میں جان بخشی پر رضامندی ظاہر کی۔‘’متاثرہ کے خاندان کی طرف سے خوں بہا کی رقم کے بدلے معافی دینے کے لیے 16 اکتوبر سنہ 2023 کو معاہدے پر دستخط کرنے کے چھ ماہ کے اندر ادا کیے جانے کے تحریری وعدے کے پیش نظر پھانسی کے حکم کو عارضی طور پر روک دیا گیا تھا۔‘،تصویر کا ذریعہTHE KERALA STORY

،تصویر کا کیپشنفلم دی کیرالہ سٹوری کو سخت تنقید کا سامنا رہا ہے
دی ہندوستان ٹائمز کے مطابق اس اقدام کا آغاز عبدالرحیم کی رہائی کے لیے سنہ 2021 قائم کی گئی عبدالرحیم قانونی ایکشن کمیٹی نے کیا۔انڈین یونین مسلم لیگ کے ساتھ منسلک تنظیم کیرالہ مسلم کلچرل سینٹر کی سعودی یونٹ کے جنرل سکریٹری اشرف وینگھٹ حال ہی میں کیرالہ میں بی جے پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی مدد سے چندہ کی مہم کو آگے بڑھانے کے لیے کوزی کوڈ پہنچے تھے۔وینگھاٹ نے کہا: ’رحیم کی جان بچانے کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں ہندو اور مسلمان اور بی جے پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان شامل ہیں۔‘انھوں نے جمعے کو روز کہا: ’ہم اس کی رہائی کو حاصل کرنے کے لیے درکار 34 کروڑ کے ہدف تک پہنچ گئے ہیں۔ براہ کرم ہمیں مزید رقم نہ بھیجیں۔ ہمارے پاس 34.45 کروڑ روپے اکٹھے ہو گئے ہیں، اور اضافی فنڈز کا آڈٹ کیا جائے گا اور اچھے مقصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ عالمی ملیالی کمیونٹی نے ایک بار پھر اپنا جادو دکھایا ہے اور ہمارے سیاسی، ذات پات اور مذہبی اختلافات سے قطع نظر ہاتھ بڑھایا ہے۔ یہ کیرالہ کی اصل کہانی ہے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ٹرسٹ اب ریاض میں انڈین سفارت خانے سے رابطہ کرے گا تاکہ متاثرہ خاندان کے ساتھ مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے اور عبدالرحیم کی رہائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ رقم متاثرہ کے خاندان کو ’بلڈ منی‘ کے طور پر دے دی جائے گی تاکہ رقم حوالے کرنے کی 15 اپریل کی آخری تاریخ سے کچھ دن پہلے عبدالرحیم کو معاف کیا جا سکے۔،تصویر کا ذریعہsocial media
،تصویر کا کیپشنایک سوشل میڈیا صارف نے یہ تصویر ڈال کر لکھا کہ آج عبدالرحیم کی والدہ پتھومما چین کی نیند سوئیں گی کہ ان کا لاڈلا اب واپس آ جائے گا
عبدالرحیم کو اپنے سپانسر کے 15 سالہ فالج زدہ بیٹے کی موت کا سبب بننے کا مجرم ٹھہرایا گيا اور انھیں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔عبدالرحیم کا کام لڑکے کی دیکھ بھال کرنا اور اسے جہاں بھی جانے کی خواہش ہو، اسے گاڑی سے لے کر جانا تھا۔ لیکن رحیم نے غلطی سے لڑکے کی گردن سے منسلک طبی آلے کو نیچے گرا دیا جس سے کہ اسے سانس لینے میں مدد ملتی تھی۔ اس کی وجہ سے لڑکا بے ہوش ہو کر مر گیا۔عبدالرحیم کو بچانے میں جہاں سعودی عرب میں کیرالہ کے باشندوں کی تنظیم نے اہم کردار ادا کیا ہے وہیں سریش نامی شخص جو قانونی امداد کمیٹی کے چیئرمین ہیں انھوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے 3 مارچ کو کوزی کوڈ میں سیو عبدالرحیم موبائل ایپ لانچ کی تھی۔15 ملین سعودی ریال یعنی تقریبا 34 کروڑ انڈین روپے جمع کرنے کی مہم میں اس وقت تیزی آئي جب اس کی تشہیر کرنے والے کاروباریوں اور بلاگرز نے اس میں شرکت کی۔دی ٹیلیگراف کے مطابق عبدالرحیم کی والدہ پاتھو نے کہا ہے کہ کیرالہ کے لوگوں کی مدد پر اپنی خوشی کو بیان کرنے کے لیے اان کے پاس لفاظ نہیں ہیں۔انھوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں کے لوگوں کے درمیان میں موجود فرقہ وارانہ ہم آہنگی نے اتنی جلدی اتنی بڑی رقم جمع کرنے میں مدد کی۔ میں سب کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔‘جبکہ وینگھٹ نے کہا کہ ریاض میں انڈین سفارت خانے کو رقوم کی منتقلی کا عمل شروع ہو گیا ہے، جس کے ذریعے رقم ایک وقف اور عدالت کی نگرانی والے بینک اکاؤنٹ میں بھیجی جائے گی۔وینگھٹ نے مزید کہا کہ ’رقم کی منتقلی کے بعد ہم اس کی رہائی کو یقینی بنانے کی امید کر سکتے ہیں، حالانکہ ہم نہیں جانتے کہ اس میں ابھی کتنا وقت لگے گا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}