hookup Mount Ephraim hookup que significa whatsapp groups for hookups daty hookup hookup agency in singapore 2010 free hookup apps

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’دہرا معیار اور دوغلاپن‘: یوکرین جنگ پر وہ بیانیہ جس کو مغرب سننا نہیں چاہتا

یوکرین تنازعے پر دنیا بھر کے کئی ممالک روس مخالف مغربی سوچ کی حمایت کیوں نہیں کرتے؟

  • فرینک گارڈنر
  • بی بی سی ، سکیورٹی نامہ نگار

ولادیمیر پوتن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’یوکرین اور اس کے اتحادی، بشمول لندن، ایک ہزار سال سے روس کو دھمکیاں دے رہے ہیں، نیٹو کو ہماری سرحدوں تک لانے، ہماری ثقافت کو مٹانے کی بات کر رہے ہیں، وہ کئی سالوں سے بدمعاشی کر رہے ہیں۔‘

یہ بات روسی ڈوما (پارلیمنٹ) کے رکن اور ایک مشہور ٹی وی میزبان یوگنی پوپو نے بی بی سی یوکرین کاسٹ سے 19 اپریل کو بات کرتے ہوئے کہی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’یقینا یوکرین کے لیے نیٹو کا منصوبہ روس کے شہریوں کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔‘

کریملن کی جانب سے بیان کردہ سرکاری بیانیے کے مقابلے میں ان کے یہ خیالات کافی حیران کن ہیں، خصوصا اس تناظر میں جس طرح مغرب اس تنازعے کو دیکھ رہا ہے۔ یورپی اور مغربی کانوں کے لیے ناقابل یقین ہیں۔ لیکن یہ اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جو روس کے حمایتی ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے کئی حصوں میں پائی جاتی ہے۔

روس کے 24 فروری کو یوکرین پر حملے کے بعد اقوام متحدہ میں ایک ایمرجنسی ووٹ ہوا جس میں ایک ہفتے بعد 193 میں سے 141 ملکوں نے اس حملے کی مذمت کی۔ لیکن چین، انڈیا اور جنوبی افریقہ سمیت کئی اہم ممالک نے اس ووٹ سے اجتناب کیا۔ اس لیے مغربی رہنماوں کا یہ سوچنا حماقت ہو گی کہ پوری دنیا نیٹو کے اس موقف کی حامی ہے کہ اس جنگ کی ساری ذمہ داری روس پر عائد ہوتی ہے کیوں کہ ساری دنیا ایسا نہیں سوچتی۔

تو پھر ایسا کیوں ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کے معاملے پر بہت سے ممالک اب تک غیر جانب دار ہیں؟

اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں معاشی اور دفاعی مفادات سے لے کر یورپ کے نو آبادیاتی ماضی پر مغرب کے دوغلے پن کے الزامات شامل ہیں۔ روس کی کھل کر مذمت نا کرنے یا صدر ولادیمیر پوتن کو ناراض نا کرنے کی ہر ملک کے پاس اپنی اپنی وجہ ہے۔

’وہ تعاون جس کی کوئی حد نہیں‘

شی جن پنگ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

چین سے بات شروع کرتے ہیں جو دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے لیکن جس کے شہری روسی باشندوں کی طرح یوکرین تنازعے پر ہر خبر سرکاری میڈیا سے حاصل کرتے ہیں۔

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

یوکرین جنگ شروع ہونے سے قبل چین میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کی تقریب میں ایک ہائی پروفائل مہمان کی آمد ہوئی، یہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن تھے۔ ان کی آمد کے بعد جاری ہونے والے سرکاری چینی اعلامیے میں کہا گیا کہ ’دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی کوئی حد نہیں۔‘

تو کیا پوتن نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کو یوکرین پر حملے کی پیشگی اطلاع دے دی تھی؟ چین کہتا ہے کہ ایسا بلکل نہیں لیکن یہ سوچنا مشکل ہے کہ اتنے اہم ہمسائے نے کوئی اشارہ تک نہ دیا ہو۔

چین اور روس شاید کسی دن ایک دوسرے کے مخالف بن جائیں لیکن آج وہ شراکت دار ہیں اور نیٹو، مغرب اور جمہوری اقدار کے خلاف ایک جیسی ناپسندیدگی رکھتے ہیں جو تقریبا دشمنی جیسی ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان جنوبی چین کے سمندر میں پہلے ہی تنازع چل رہا ہے جب کہ چین کی اویغر آبادی سے سلوک پر مغرب کی تنقید، ہانگ کانگ میں جمہوریت کے خلاف اقدامات اور تائیوان کو واپس چین میں شامل کرنے کے معاملات بھی چین اور مغرب کے درمیان کشیدگی کا باعث ہیں۔

چین اور روس کے درمیان نیٹو اور مغربی حکومتوں کی مشترکہ دشمنی کا بیانیہ دونوں ملکوں کی عوام تک مقبولیت رکھتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت مغرب کی جانب سے یوکرین پر حملے کے خلاف بیانات اور مبینہ جنگی جرائم کے الزامات پر یقین نہیں رکھتی۔

انڈیا اور پاکستان روس کو ناراض نہیں کرنا چاہتے

انڈیا اور پاکستان کی بھی روس کو ناراض نا کرنے کی اپنی اپنی وجوہات ہیں۔ انڈیا کو زیادہ تر اسلحہ روس سے ملتا ہے اور حال ہی میں چین سے لڑائی کے بعد انڈیا جانتا ہے کہ اس کو کسی نا کسی دن روس کی حمایت اور تحفظ کی ضرورت پڑے گی۔

پاکستان کے حال ہی میں ہٹائے جانے والے وزیر اعظم عمران خان مغرب کے بڑے ناقد رہے ہیں خصوصا امریکہ کے۔ پاکستان بھی روس سے اسلحہ خریدتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وسطی ایشیا کی منڈیوں تک رسائی کے لیے بھی اسے روس کی آشیر باد کی ضرورت ہے۔

عمران خان نے بطور وزیر اعظم 24 فروری کو روس کے طے شدہ دورے کو مکمل کرنے کا فیصلہ کیا جب کہ اسی دن روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا تھا۔ انڈیا اور پاکستان دونوں نے ہی اقوام متحدہ میں روس کے حملے کی مذمت پر ہونے والے ووٹ میں حصہ لینے سے اجتناب کیا تھا۔

دوغلہ پن اور دہرا معیار

افریقی ملک مالی سے فرانس کے فوجیوں کے انخلاف کے موقع پر روس کا جھنڈا لہرایا گیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

افریقی ملک مالی سے فرانس کے فوجیوں کے انخلاف کے موقع پر روس کا جھنڈا لہرایا گیا

یہ بھی پڑھیے

اس کے علاوہ مسلم اکثریتی ممالک میں خصوصا ایک الزام یہ بھی ہے کہ امریکہ کی قیادت میں مغرب دوغلے پن اور دہرے معیار کا ارتکاب کرتا ہے۔ 2003 میں امریکہ اور برطانیہ نے اقوام متحدہ اور عالمی رائے کو اس وقت بلکل اہمیت نہیں دی تھی جب کمزور بنیادوں پر عراق پر حملے کا فیصلہ کیا گیا۔

واشنگٹن اور لندن پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ سعودی ایئر فورس، جو یمن میں حملے کرتی ہے، کی مدد سے یمن میں جاری خانہ جنگی کو طوالت دی گئی۔

ادھر افریقہ کے کئی ملکوں کے لیے کئی تاریخی وجوہات ہیں۔ سوویت یونین کے دور میں ماسکو نے امریکہ اور مغربی اثرورسوخ کے خلاف افریقہ میں بے پناہ اسلحہ فراہم کیا۔ افریقہ کے کئی ممالک میں آج تک یورپی نو آبادیاتی نظام کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے۔

فرانس، جس نے 2013 میں القاعدہ کی حکومت الٹنے کی کوشش کو روکنے کے لیے مالی میں فوج بھیجی تھی، بھی اپنی سابقہ کالونی میں بری شہرت رکھتا ہے۔ فرانسیسی فوجیوں کے انخلا کے بعد اب مالی میں روسی حمایت یافتہ ویگنر گروپ کے کرائے کے فوجی موجود ہیں۔

عرب دنیا کہاں کھڑی ہے؟

روسی صدر پوتن محمد بن سلمان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

روسی صدر پوتن اور سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان

اس سارے معاملے میں مشرق وسطی اور عرب دنیا کہاں کھڑی ہے؟ یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ شام نے شمالی کوریا، بیلاروس اور اریٹیریا کے ساتھ روس کے حملے کی حمایت کی ہے۔ 2015 میں شام میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے جنگجووں کے خطرے کے پیش نظر صدر بشار الاسد نے اپنی بقا کے لیے روس پر منحصر تھے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک، جن کو مغرب کے اہم اتحادی سمجھا جاتا ہے، نے اگرچہ اقوام متحدہ میں روس کے خلاف ووٹ دیا لیکن روس کی تنقید کے معاملے میں خاموش ہی رہے ہیں۔ یو اے ای کے رہنما شہزادہ محمد بن زید کے صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ان کے سابق سفیر صدر پوتن کے ساتھ شکار پر بھی جاتے رہے ہیں۔

سعودی عرب کے حمکران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا بھی امریکی صرر جو بائیڈن کے ساتھ تقریبا نا ہونے والا تعلق ہے۔ ایک دوسرے کے لیے ان کی نا پسندیدگی ایسی ہے کہ اطلاعات کے مطابق انھوں نے ایک دوسرے کا فون سننے سے انکار کر دیا تھا۔

2018 میں شہزادہ محمد بن سلمان پر صحافی جمال خشوگجی کے قتل کے الزامات لگنے کے چند ہی ہفتے بعد جب عالمی رہنما جی ٹوئنٹی سمٹ کے لیے بیونس آئرس میں اکھٹے ہوئے تھے تو زیادہ تر رہنماوں نے سعودی ولی عہد کو نظر انداز کرنا پسند کیا تھا۔ ان کے مقابلے میں روسی صدر پوتن محمد بن سلمان سے بہت اچھے طریقے سے ملے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جو سعودی رہنما بہت جلد بھولنے والے ہیں۔

اس سب کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ یہ تمام ممالک یوکرین پر روس کے حملے کی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں ووٹ کے دوران صرف پانچ ممالک نے ہی اس حملے کی حمایت میں ووٹ دیا تھا جن میں سے ایک روس خود تھا۔

لیکن اس سے مغرب کو اس بات کا اندازہ ضرور ہو جانا چاہیے کہ کہ مختلف وجوہات کی بنا پر کیوں دنیا میں مغرب کے روس اور پوتن سے متعلق بیانیے، پابندیوں کی حمایت موجود نہیں اور کیوں مغرب کی طرح کھل کر روس کی مذمت نہیں کی جا رہی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.