دھمکیاں، تضحیک اور گالیاں: صدر پوتن کے زیر اثر روسی سفارت کار ’کریملن کے روبوٹ‘ کیسے بنے

روس

  • مصنف, سرگئے گوریاشکو، الیزاویٹا فوخٹ اور صوفیہ سموخینا
  • عہدہ, بی بی سی رشیئن

روسی سفارت کار ایک زمانے میں صدر پوتن کی خارجہ امور پر حکمت عملی کا اہم حصہ ہوا کرتے تھے لیکن اب یہ سب کچھ بدل چکا ہے۔

یوکرین پر روس کے حملے تک پہنچتے پہنچتے روسی سفارت کار اپنا اختیار کھو بیٹھے اور ان کا کردار محض کریملن کے جارحانہ بیانات کو دہرانے تک محدود ہو کر رہ گیا۔

بی بی سی رشیئن نے سابق مغربی اور روسی سفارت کاروں سمیت وائٹ ہاؤس تک رسائی رکھنے والے افراد سے بات چیت کی ہے کہ روس کی سفارت کاری کیسے اس نہج پر پہنچی۔

اکتوبر 2021 میں امریکی انڈر سیکریٹری وکٹوریا نولینڈ ماسکو میں ایک اجلاس کے لیے روسی وزارت خارجہ پہنچیں۔ ان کے سامنے میز کی دوسری جانب روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئے ریابکوف بیٹھے تھے جن کو وکٹوریا دہائیوں سے جانتی تھیں اور ان کے درمیان باہمی تعلقات موجود تھے۔

سرگئے ریابکوف کو امریکی سفارت کار ایک پرسکون حقیقت پسندانہ سفارت کار سمجھتے تھے جن سے روس اور امریکہ کے بگڑتے ہوئے تعلقات کے باوجود بات چیت ہو سکتی تھی۔

لیکن اس بار معاملات مختلف تھے۔

سرگئے ریابکوف نے کاغذ سے روس کا سرکاری موقف پڑھ کر سنایا اور وکٹوریا نولینڈ کی کوشش کے باوجود مزید بات چیت سے گریز کیا۔ وکٹوریا سے اس واقعے کے بارے میں بات کرنے والے دو افراد کے مطابق وہ کافی حیران ہوئیں۔

ان افراد کے مطابق وکٹوریا نے سرگئے ریابکوف اور ان کے ایک ساتھی سفارت کار کو ’کاغذ پکڑے روبوٹ‘ قرار دیا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اس واقعے پر ردعمل دینے سے انکار کیا ہے۔

مذاکرات کے کمرے سے باہر بھی روسی سفارت کاروں کی جانب سے غیر سفارتی زبان کا استعمال عام ہو رہا تھا۔

امریکی انڈر سیکرٹری وکٹوریا نولینڈ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

امریکی انڈر سیکریٹری وکٹوریا نولینڈ

’ہم مغربی پابندیوں پر تھوکتے ہیں۔‘

’مجھے بات کرنے دیں، ورنہ آپ سنیں گے کہ روسی گرڈ میزائل کیا کر سکتے ہیں۔‘

’بیوقوف۔‘۔۔۔ اس لفظ سے پہلے گالی بھی دی گئی۔

ذہن میں آتا ہے کہ آخر یہ جملے کس کے ہیں؟ یہ تمام بیانات روسی وزارت خارجہ میں اہم عہدے رکھنے والے افراد کی جانب سے حالیہ برسوں میں دیے گئے۔

لیکن بات یہاں تک کیسے پہنچی؟

ایک نئی سرد جنگ

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

یہ سوچنا اب مشکل ضرور ہے لیکن خود صدر پوتن نے سنہ 2000 میں بی بی سی سے کہا تھا کہ ’روس نیٹو سے تعاون کے لیے تیار ہے، اتحاد میں شمولیت اختیار کرنے کی حد تک۔‘

اس وقت پوتن نے کہا تھا کہ ’میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ میرا ملک یورپ سے کٹ جائے۔‘

یہ ان کی صدارت کا ابتدائی زمانہ تھا جب ایک سابق سینیئر روسی افسر کے مطابق پوتن مغربی دنیا سے بہتر تعلقات قائم کرنے کے خواہش مند تھے۔

روسی سفارت کار پوتن کی ٹیم کا اہم جزو تھے، جنھوں نے چین اور ناروے سے سرحدی تنازع حل کرنے، یورپی ممالک سے گہرے تعلقات کے لیے مذاکرات کی سربراہی کرنے اور جارجیا میں انقلاب کے بعد پرامن طریقے سے تبدیلی کی کوششوں کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

الیگزینڈر گابائیوف کارنیگی رشیا یوریشیا سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں جو اب برلن میں جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جیسے جیسے پوتن کی طاقت اور تجربہ بڑھا، ان کو یقین ہوتا چلا گیا کہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے اور انھیں سفارت کاروں کی ضرورت نہیں۔‘

ایک نئی سرد جنگ کے آغاز کا پہلا عندیہ سنہ 2007 میں پوتن کی ایک تقریر سے ملا جو انھوں نے میونخ سکیورٹی کانفرنس میں کی۔

30 منٹ کی اس تقریر میں صدر پوتن نے مغربی ممالک پر الزام عائد کیا کہ وہ ایک یکطرفہ دنیا قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ روسی سفارت کاروں نے بھی یہی بیانیہ اپنایا۔

ایک سال بعد جب روس نے جارجیا پر حملہ کیا تو روسی وزیر خارجہ سرگئے لیوروف نے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ ملی بینڈ سے کہا ’تم مجھے لیکچر دینے والے کون ہوتے ہو؟‘

مغربی سفارت کاروں کا خیال تھا کہ روس کے ساتھ ابھی بھی مل کر کام کرنے میں فائدہ ہے۔ سنہ 2009 میں روسی وزیر خارجہ اور امریکی ہم منصب ہیلری کلنٹن نے تعلقات میں بہتری کے لیے ایک بار پھر سے ’ری سیٹ‘ بٹن دبایا اور بظاہر دونوں ملک تعاون کرتے دکھائی دیے خصوصاً سکیورٹی معاملات میں۔

تاہم سابق امریکی صدر باراک اوباما کے نائب مشیر برائے قومی سلامتی امور بین رہوڈز کا کہنا ہے کہ امریکی حکام کو جلد یہ واضح ہو گیا کہ روسی سفارت کار صدر پوتن کے مغرب مخالف بیانیے کو ہی دہرا رہے ہیں۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بین رہوڈز کو صدر اوباما کا سنہ 2009 میں صدر پوتن کے ساتھ ایک لوک آرکسٹرا کی موجودگی میں ایک ناشتے پر کی گئی گفتگو یاد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر پوتن باہمی تعاون پر بات کرنے کے بجائے دنیا کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے اور یہ کہ روسی رہنما نے صدر اوباما کے پیش رو جارج ڈبلیو بش کو روس کے ساتھ دھوکا کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

بین رہوڈز کا کہنا ہے کہ جب سنہ 2011 اور 2012 میں عرب سپرنگ، لیبیا میں امریکی مداخلت، اور روس کی سڑکوں پر مظاہروں کے واقعات سامنے آئے تو صدر پوتن نے یہ طے کیا کہ سفارت کاری انھیں کہیں نہیں پہنچائے گی۔

بین رہوڈز کا کہنا ہے کہ ’بعض مسائل، بطور خاص یوکرین کے معاملے پر مجھے نہیں لگتا کہ (سفارتکاروں کا) کوئی خاص اثر و رسوخ ہے۔‘

کریملن کے ایک سابق سینیئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ مثال کے طور پر جب سرگئی لاروف کا تقریباً 20 سال پہلے بطور وزیر خارجہ تقرری ہوئی تھی تو ان کا اپنا ایک ’بین الاقوامی نقطہ نظر اور اپنی ایک پوزیشن‘ تھی۔

الیگزینڈر گابائیوف کا کہنا ہے کہ کریملن ان سے تب بھی مشورہ کرتا تھا جب کہ اسے معلوم تھا کہ وہ صدر پوتن سے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہوں گے۔

فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کا کہنا ہے کہ لیکن جب سنہ 2022 میں یوکرین میں فوج بھیجی گئی تو سرگئے لاروف کو جنگ شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے ہی اس کا پتہ چلا۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

برطانیہ میں ماسکو کے سفیر آندرے کیلن اس خیال کو مسترد کرتے ہیں کہ روسی سفارت کار اپنا اثر و رسوخ کھو چکے ہیں۔ انھوں نے اپنے پورے سفارتی کرئیر میں مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات پر کام کیا ہے۔

بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں انھوں نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ مغرب کے ساتھ تعلقات کے خاتمے کی ذمہ داری ماسکو یا انفرادی سفارت کاروں پر عائد ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم ہی تباہی کرنے والے نہیں ہیں۔ ہمیں یوکرین کی حکومت کے ساتھ مسئلہ ہے، ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے۔‘

انھوں نے کہا کہ یوکرین میں جنگ ’دوسرے طریقے سے سفارت کاری کا تسلسل‘ ہی ہے۔

سفارت کاری بطور تماشہ

جیسے جیسے خارجہ پالیسی کے اہلکاروں کا اپنا اثرو رسوخ کم ہوتا گيا انھوں نے اپنی توجہ روس کی طرف موڑ دی۔ اس بات کی علامت ماریہ زاخارووا ہیں جو سنہ 2015 میں وزارت کی ترجمان بنی تھیں۔

جنگ کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دینے والے وزارت خارجہ کے سابق اہلکار بورس بونداریف کا کہنا ہے کہ ’ان سے پہلے سفارت کار سفارت کاروں کی طرح برتاؤ کرتے تھے، صاف اور واضح انداز میں بات کرتے تھے۔‘

لیکن ماریہ زاخارووا کی آمد کے ساتھ ہی وزارت خارجہ کی بریفنگ ایک تماشا بن گئی۔

ماریہ زاخارووا اکثر ان صحافیوں پر چیخ پڑتی تھیں جو ان سے مشکل سوالات پوچھتے اور دوسرے ممالک کی تنقید کا جواب توہین آمیز انداز میں دیتیں۔

روس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ان کے سفارتی ساتھی بھی اسی راستے پر چل پڑے۔ جنیوا میں اقوام متحدہ میں ماسکو کے مشن کے لیے کام کرنے والے بورس بونداریف ایک میٹنگ کے بارے میں بتاتے ہیں جہاں روس نے تمام مجوزہ اقدامات کو روک دیا تھا اور جس کی وجہ سے سوئٹزرلینڈ کو شکایت کرنی پڑی۔

’ہم نے انھیں کہا، اچھا تو کیا مسئلہ ہے؟ ہم ایک عظیم طاقت ہیں، اور آپ صرف سوئٹزرلینڈ ہیں!‘

انھوں نے کہا ’یہ آپ کے لیے (روسی) ڈپلومیسی ہے۔‘

خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار الیگزینڈر گابیوف کا کہنا ہے کہ اس نقطہ نظر کا مقصد وطن میں موجود روسیوں کو متاثر کرنا تھا۔

لیکن بورس بونداریف کے مطابق سفارت کاروں کے لیے اس سے بھی زیادہ اہم ہدف ان کے اپنے افسران ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ غیر ملکی ملاقاتوں کے بعد ماسکو کو بھیجے گئے سرکاری ٹیلی گرام اس بات پر زیادہ زور دیتے نظر آتے ہیں کہ سفارت کاروں نے ملک کے مفادات کا کس پرجوش طریقے سے دفاع کیا۔

ان کے مطابق ایک عام پیغام کچھ اس طرح کا ہو گا ’ہم نے ان کے لیے واقعی بہت پریشانی پیدا کی! ہم نے بہادری کے ساتھ روسی مفادات کا دفاع کیا، اور مغرب والے کچھ نہیں کر سکے اور پیچھے ہٹ گئے!‘

اگر ہر کوئی ’مغرب والوں کو ان کی اوقات میں رکھنے‘ کے بارے میں لکھتا ہے اور آپ لکھتے ہیں کہ آپ نے ’اتفاق رائے حاصل کیا‘ تو آپ کو حقارت کی نظر سے دیکھا جائے گا۔

روس

،تصویر کا ذریعہBORIS BONDAREV

بورس بونداریف نے سنہ 2002 میں جینیوا میں روسی اور امریکی سفارت کاروں کی ایک ملاقات کا تذکرہ کیا جس میں امریکی فرسٹ ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ وینڈی شرمین کو امید تھی کہ یوکرین پر حملے کو روکا جا سکے گا۔

بورس کہتے ہیں کہ ’یہ ملاقات کافی بری رہی۔ امریکی کہہ رہے تھے کہ چلیں بات چیت کرتے ہیں اور اس کے بجائے سرگئی ریابکوف نے چِلانا شروع کر دیا ’ہمیں یوکرین کی ضرورت ہے، ہم یوکرین کے بغیر کہیں نہیں جا رہے، آپ اپنا سب کچھ اٹھاؤ اور سنہ 1997 کی سرحد پر واپس چلے جاؤ۔‘

بورس نے کہا کہ وینڈی کافی مضبوط اعصاب کی مالک خاتون ہیں لیکن ’میرا خیال ہے کہ ان کا منھ بھی حیرت زدہ لگ رہا تھا۔‘

اس کی وجہ بتاتے ہوئے بورس کہتے ہیں کہ ’سرگئی ریابکوف ہمیشہ نرم مزاج ہوتے تھے اور ان سے بات چیت کرنا ایک اچھا تجربہ ہوا کرتا تھا لیکن اب وہ اپنی مٹھی میز پر پٹخ رہے تھے اور عجیب و غریب باتیں کر رہے تھے۔‘

واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں دیگر ممالک میں بھی سفارتی لب و لہجہ تبدیل ہوا ہے لیکن اس حد تک نہیں۔

چند سال قبل اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے امور کے جاپانی نمائندے ہیڈیکی اویڈا نے ’شٹ اپ‘ کہتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان کے غیر ملکی ساتھی چپ ہو جائیں۔

گیون ولیئمسن نے بھی روس کے خلاف ان الفاظ کا استعمال اس وقت کیا تھا جب وہ برطانیہ کے وزیر دفاع تھے۔ اور یوکرین کے جرمنی میں سفیر آندرے میلنک نے گزشتہ سال جرمن چانسلر اولاف شکولز کے لیے برے الفاظ استعمال کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

امریکہ چٹکی بجا کر جنگ ختم نہیں کر سکتا

جنگ کے ڈیڈھ سال بعد کیا کوئی امید ہے کہ سفارتکاری لڑائی کو ختم کر سکتی ہے؟

بی بی سی نے جن لوگوں سے بات کی ان میں سے اکثر کے خیال میں اس کا امکان بہت کم ہے۔

بورس بونداریف نے سمجھایا کہ عموماً 95 فیصد سفارتکاروں کا کام ’غیر سرکاری ملاقاتیں اور کافی پینا‘ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایسی ملاقاتیں کم ہو گئی ہیں، اب بات کرنے کے لیے کچھ رہا نہیں ہے۔

سفیر آندرے کیلن پر برطانیہ کی پارلیمنٹ میں داخل ہونے پر پابندی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ لندن میں روسی سفارتخانے میں بجلی اور گیس تقریباً ختم ہو گئی تھی اور انشورنس کمپنیوں نے سفارتخانے کی گاڑیوں کو انشور کرنے سے بھی انکار کر دیا۔

روس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’رینڈ‘ کے تجزیہ کار سیموئیل چراپ کا کہنا ہے کہ جلد یا دیر سے مذاکرات کرنے ہی پڑیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا واحد متبادل ’مکمل فتح‘ ہے اور اس بات کا امکان نہیں ہے کہ یوکرین یا روس میدان جنگ میں اسے حاصل کر سکیں۔

لیکن انھیں امید نہیں ہے کہ مذاکرات جلد ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’پوتن اپنی مدت اقتدار کے دوران کافی ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئے ہیں۔ اور سچ کہوں تو، میں نہیں جانتا کہ آیا وہ بات چیت کرنے کو تیار ہو گا۔‘

یوکرینی حکام کو شکایت ہے کہ روس ایک بار پھر سمجھوتے کے بجائے آخری شرطوں کی پیشکش کر رہا ہے، جیسا کہ یوکرین سے مقبوضہ علاقوں کا الحاق قبول کرنے کا مطالبہ۔

یوکرین کا ایسے حالات میں بات چیت کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اس کے مغربی اتحادی اس فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ روس سفارت کاری کے بجائے اپنی عسکری قوت، حساس اداروں اور اپنے علاقائی اثر و رسوخ پر انحصار کر رہا ہے۔

ان مایوس کن حالات میں روسی سفارت کار سروس سے مکمل طور پر استعفیٰ کیوں نہیں دے رہے؟

روس کے ایک سابق اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ہر ایک کے لیے ایک مسئلہ ہے جو دس سے 20 سالوں سے اپنے عہدوں پر پھنسے ہوئے ہیں۔ آپ کے لیے کوئی دوسری زندگی نہیں ہے۔ یہ خوفناک ہے۔‘

سابق سفارتکار بورس بونداریف اس بات کو سمجھ سکتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’اگر جنگ نہ ہوتی تو میں شاید وہاں ہی رہتا اور برداشت کرتا۔‘

’یہ کام اتنا برا نہیں ہے، آپ بیٹھتے ہیں، تھوڑی سی تکلیف جھیلتے ہیں اور شام کو آپ باہر گھومنے چلے جاتے ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ