دو ہزار سال پرانی سنہری زبان والی ممیوں کی دریافت
مرنے والوں کے منہ میں سنہری زبانیں اس لیے رکھی جاتی تھیں تاکہ وہ اپنے دیوتاؤں کے سامنے بات کر سکیں
مصر کی وزارت آثار قدیمہ نے کہا ہے کہ ماہرین نے ملک کے شمالی حصے میں دو ہزار سال پرانی ایسی حنوط شدہ لاشیں یا ممیاں دریافت کی ہیں جن کے جبڑوں کے درمیان سنہری زبان رکھی ہوئی تھیں۔
مصر اور ڈومینک رپبلک کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم نے اسکندریہ کے شہر کے قریب تاپوسیریس میگنا کے مندر میں سولہ ایسے مقبرے دریافت کیئے ہیں جو پتھر کی چٹانیں کاٹ کر بنائے گئے تھے۔ اس طرح کے مقبرے یونانیوں اور رومیوں کے دورے میں بنائے جاتے تھے۔ ان مقبروں میں سے ایسی مخروط شدہ لاشیں برآمد ہوئیں جنھیں محفوظ بنانے میں احتیاط نہیں برتی گئی تھی۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ مرنے والوں کی زبانوں کی جگہ سونے کا ملمع چڑھا زبان کی شکل کا تعویذ رکھ دیا جاتا تھا تاکہ وہ بعد از مرگ اپنے دیوتا اوسائرس کی عدالت میں بول سکیں۔
قدیم مصر میں اوسائرس مُردوں کو انصاف دینے والا اور زمین کے اندر کا دیوتا تصور کیا جاتا تھا۔
یہ مقبرے دریافت کرنے والے ماہرین کی ٹیم کے سربراہ کیتھلین مارٹنیز جن کا تعلق سانتو ڈیمنگو یونیورسٹی سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دیوتا کا عکس ایک ڈبے پر بھی بنا ہوا تھا جس میں ایک مخروط شدہ لاش رکھی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اس مخروط شدہ لاش کا سر اس ڈبے میں رکھا ہوا تھا جس پر ایک تاج، سینگھ اور کوبرا سانپ کے عکس بھی بنے ہوئے تھے۔
تابوت کے اوپر بنے نقش و نگار میں ایک ہار کی تصویر بھی شامل تھی جس میں ایک باز یا شاہین کا سر لٹکا ہوا تھا جو کہ دیوتا ہورس کی علامت ہے۔
اسکندریہ کے آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل خالد ابو الحمد نے کہا کہ تاپوسیریس مگنا میں آثار قدیمہ کی کھدائی میں انھیں ایک خاتون کے جنازوں پر پہنے جانے والے نقاب، آٹھ طلائی پھولوں کی چادر کی سونے کی پتیاں اور سنگ مرمر کی سلیں بھی ملیں جو یونانی اور رومی دور کی ہیں۔
آثار قدیمہ کی ورزارت کا کہنا ہے کہ اس ہی مقبرے سے ایسے سکے بھی ملے تھے جن پر ملکہ کلوپیترا ہفتم کی تصویر بنی ہوئی تھی۔
کلوپیترا ہفتم یونانی زبان بولنے والی پطلیموسی سطلنت کی آخری ملکہ تھیں جو مصر میں 51 قبل از مسیحی سے 30 قبل از مسیح تک قائم رہی۔ کلوپیترا کی موت کے بعد مصر روم کے دائر اختیار میں چلا گیا۔
Comments are closed.