دو دہائیوں تک منشیات کی دنیا پر راج کرنے والی ’کوکین گاڈمادر‘ جس نے اپنے تین شوہروں کو بھی قتل کروا دیا
- مصنف, یاسمین رفو
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 49 منٹ قبل
’وہ ایک فرد جس سے میں ڈرتا تھا وہ ایک خاتون تھیں جن کا نام گریسلڈا بلانکو تھا۔۔۔‘ یہ بات کولمبیا میں ایک منشیات فروش گروہ کے سرغنہ پابلو ایسکوبار نے اس عورت کے بارے میں کہی جنھوں نے منشیات کی دُنیا کی تاریخ میں مبینہ طور پر سب سے زیادہ نام بنایا اور پیسہ کمایا۔وہ ایک ایسی خاتون تھیں کہ جنھوں نے لوگوں کو صرف اس وجہ سے بھی قتل کروا دیا کہ وہ اس بات کو پسند نہیں کرتی تھیں کہ لوگ انھیں کیسے دیکھتے ہیں۔ گریسلڈا جُرم کی دُنیا کی ایک بے رحم سرغنہ تھیں، جن کا نام 1970 اور 80 کی دہائی میں میامی میں خوف کی علامت سمجھا جاتا تھا۔اب بدنامِ زمانہ منشیات کی سرغنہ نے ہالی وڈ کی فلمی دُنیا میں ایک ماڈرن فیملی کی صوفیہ ویرگارا کے روپ میں قدم رکھا ہے۔ صوفیہ جرائم سے متعلق ’نارکوس‘ نامی ایک ڈرامے میں زیرِ زمین جرائم پیشہ گروہوں کی رہنما کا کردار ادا کر رہی ہیں۔
چھ سیزن پر مشتمل نیٹ فلیکس پر دستیاب ’گلیمر‘ سے بھرپوراس سیریز میں بڑی خواہشات والی گریسلڈا کا ایک دانا مگر بدنام زمانہ کردار صوفیہ ادا کر رہی ہیں۔اپنے تین شوہر قتل کرنے والی اس خاتون کو ’کوکین گاڈمادر‘ کا خطاب بھی ملا۔،تصویر کا ذریعہNetflix سنہ 1943 میں کولمبیا میں پیدا ہونے والی گریسلڈا بلانکو 11 برس کی عمر سے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو گئیں تھیں، جب انھوں نے اس وجہ سے ایک امیر گھرانے کے لڑکے کو اغوا کے بعد قتل کر دیا تھا کیونکہ اس کے والدین نے تاوان دینے سے انکار کر دیا تھا۔ سنہ 1964 میں 21 برس کی عمر میں وہ اپنے تین بچوں اور شوہر کے ساتھ غیرقانونی طور پر نیویارک آ گئیں اور یہاں آکر انھوں نے ’چرس‘ فروخت کرنا شروع کر دی۔ صوفیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ بات ذہن نشین کرنا اہم ہے کہ گریسلڈا اپنی زندگی کے ابتدائی دنوں میں کیسی تھیں۔ وہ ایک تارکِ وطن تھیں جو بالکل تن تنہا اپنے تین بچوں کی پرورش کر رہی تھیں۔ ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا، کوئی تعلیم یا ہنر نہیں تھا کہ وہ زندگی بسر کر سکتیں۔‘ اس سیریز کے ڈائریکٹر ایرک نیومین نے کہا ہے کہ وہ گریسلڈا بلانکو کے ’مُشکل اور پیچیدہ کردار کو انسانی شکل دینا‘ چاہتے تھے۔اس سیریز کے شریک ڈائریکٹر ایندریس بیز کا کہنا ہے کہ ’وہ مردوں کی دنیا میں ایک عورت ہیں۔ انھیں اپنی کارکردگی ثابت کرنے کے لیے اپنی حسِ مزاح اور ذہانت کو استعمال میں لا کر اپنے اردگرد مردوں سے دس گنا زیادہ محنت کرنا پڑی۔‘
’طاقت نے ظالم بنا دیا‘
سنہ 1970 میں گریسلڈا نے اپنے پہلے خاوند کو قتل کرانے کا حکم جاری کیا اور خود میامی منتقل ہو گئیں۔ وہاں ان کی ملاقات اپنے دوسرے شوہر البرٹو براوو سے ہوئی، جنھوں نے انھیں منشیات کی مزید گھناؤنی زیرِ زمین دنیا سے متعارف کروایا۔ گریسلڈا کے تشدد اور منشیات کی سمگلنگ کے لیے دلیرانہ نقطہ نظر کی وجہ سے کولمبیا سے نوجوان خواتین اپنے زیر جامہ میں کوکین چھپائے امریکہ آنا شروع ہو گئیں اور یوں پھر ان کا منشیات کا ایک نیا نیٹ ورک قائم ہو گیا۔،تصویر کا ذریعہNetflixجیسے ہی میامی میں منشیات کا کاروبار کرنے والے گروہوں کے درمیان جنگ چھڑی اور جھڑپوں میں اضافہ ہوا تو گریسلڈا مزید بے رحم ہو کر منظرِ پر ابھریں۔ سنہ 1975 میں گریسلڈا نے اپنے شوہر کو اس وجہ سے قتل کر دیا کہ انھیں شک تھا کہ وہ ان کے پیسے چرا رہے تھے۔ معاملہ یہاں رکا نہیں بلکہ اس کے بعد سنہ 1983 میں انھوں نے اپنے تیسرے شوہر کو بھی قتل کر دیا، جس کے بعد وہ اپنے تیسرے شوہر سے پیدا ہونے والے بچے مائیکل کورلیونے کے ہمراہ میامی چھوڑ کر چلی گئیں۔ اپنے بے رحم اور سفاکانہ رویے کی وجہ سے ’بلیک وڈو‘ کا خطاب حاصل کرنے والی گریسلڈا کا کاروبار مزید چمک اٹھا۔ سنہ 1980 کی دہائی کے آغاز پر وہ دنیا کی ایک بہت امیر اور سب سے زیادہ خوف کی علامت بننے والی خاتون بن گئیں۔ وہ ہر ماہ امریکا میں غیر قانونی طور پر آنے والی 1.5 ٹن کوکین کے دھندے کی نگرانی کر رہی تھیں۔ صوفیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے خیال میں جب گریسلڈا پہلے پہل میامی منتقل ہوئیں تو ان کا ارادہ اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنا تھا مگر پھر وہ اس مقصد سے وہ عاری ہو گئیں جبکہ طاقت اور پیسے کے نشے نے انھیں ایک بے رحم خاتون بنا دیا۔سنہ 1980 کی دہائی میں گریسلڈا نے اپنے حریف گروہ سے اپنا دھندہ چھوڑنے کے بدلے 15 ملین ڈالر کی پیشکش تک ٹھکرا دی۔
منشیات کی دنیا میں مردوں کا غلبہ
میامی میں دو دہائیوں تک ’نارکو امپائر‘ چلانے والی گریسلڈا بطور خاتون یہ بات جانتی تھیں کہ وہ کچھ بھی کر لیں مگر اس دنیا پر مردوں کا ہی غلبہ ہے۔ ایک مرحلے پر آکر انھوں نے ایک مرد کو فرنٹ مین کے طور پر اپنا کاروبار چلانے کو کہا کیونکہ مقامی ڈیلرز صرف انھیں ہی تسلیم کرتے تھے، جہاں آفر کرنے والا کوئی مرد ہو۔ قتل کے ایک مقدمے میں ان کی گرفتاری کے بعد گریسلڈا نے خود اپنے کاروبار کی دیکھ بھال شروع کر دی اور اپنے تعارف کو اپنے لیے طاقت کا ذریعہ بنا دیا۔ ،تصویر کا ذریعہNetflixسنہ 1980 میں اپریل اور ستمبر کے وسط میں کیوبا کے تقریباً ایک لاکھ 35 ہزار شہری امریکہ منتقل ہوئے۔ ان میں سے کچھ امریکہ آنے سے پہلے سے ہی جرائم پیشہ گروہوں، منشیات کے کاروبار اور کرائے کے قتل جیسی وارداتوں میں ملوث تھے۔ گریسلڈا کی نظر ان پر ٹھہر گئی اور انھوں نے انھیں اپنے منشیات کے کاروبار کے لیے دوبارہ متحد کرنا شروع کر دیا۔ ایندریس بیز کا کہنا ہے کہ ’گریسلڈا باہر سے آئی ہوئی تھیں اور انھوں نے بھی دوسری جگہوں سے آنے والوں کو ہی اپنے گروہ کا حصہ بنایا۔ ایک ایسی دُنیا میں جہاں اعتماد حاصل کرنا اور اس سے بھی زیادہ اسے برقرار رکھنا مشکل تھا مگر وہ جانتی تھیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں۔‘ اندریس کے مطابق اس کہانی کے تمام کردار ’مِس فٹ‘ تھے وہ معاشرے کے عام معیار کے مطابق زندگی بسر نہیں کر رہے تھے۔ گریسلڈا یہ جانتی تھیں اور انھوں نے ان افراد کو یہ باور کرایا کہ جیسے وہ ان کے خاندان کا حصہ ہیں۔ گریسلڈا کی معاشرے سے دوری صوفیہ کی نظر میں چند وجوہات کی بنا پر تھی۔ وہ کچھ ان حالات سے واقف تھیں جن سے گریسلڈا کو گزرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں کولمبیا کی شہری ہوں، ایک ماں ہوں اور تارکینِ وطن میں سے ہوں۔ خاتون ہونے کے ناطے گریسلڈا کے حوالے سے ایک رائے قائم کر لی جاتی تھی اور اب خود مجھے اپنے لہجے کی وجہ سے زیادہ سخت محنت کرنا پڑتی ہے اور مجھے کم مواقع میسر آتے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہNetflix
’ایک خاتون اتنی ظالم کیسے ہو سکتی ہے‘
1980 کی دہائی کے وسط میں جب گریسلڈا کو کیلیفورنیا میں گرفتار کر لیا گیا تو ان کا پورا نیٹ ورک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگا اور ان کا خوف تقریباً ختم ہو کر رہ گیا مگر اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے دو دہائیوں تک کیسے میامی کو بڑی صفائی سے بغیر گرفتار ہوئے اپنے منشیات کے دھندے کے لیے استعمال کیا؟ نیٹ فلیکس کی سیریز بنانے والی ٹیم نے اس کی وجہ ان کی صنف یا اُن کی ذات کو قرار دیا ہے۔ صوفیہ کے مطابق چونکہ وہ ایک خاتون تھیں تو وہ باآسانی منظر سے ہٹ جاتیں اور پھر جب انھیں گرفتار کرنا ہوتا یا وہ کسی معاملے میں مطلوب ہوتیں تو وہ منظرِ عام سے غائب ہو جاتی تھیں۔۔۔ کسی کو یہ یقین بھی نہیں تھا کہ ایک خاتون اس طرح کا بے رحم گروہ چلا رہی ہیں۔ ان کے خیال میں لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ’کوئی خاتون اتنی ظالم کیسے ہو سکتی ہیں۔‘
- بھیس بدلنے کا ماہر بین الاقوامی منشیات سمگلر جو ایک قصبے میں پیسے لٹانے کی وجہ سے پکڑا گیا23 اکتوبر 2023
- شکاگو کی 28 منزلہ ’عالیشان‘ جیل جہاں فرش پر قالین اور تفریحی سہولیات بھی میسر ہیں26 ستمبر 2023
- 30 سال مفرور رہنے کے بعد رواں برس گرفتار ہونے والے مافیا ڈان میسینا دینارو کی کینسر سے موت25 ستمبر 2023
گریسلڈا بلینکو کے ساتھ کیا ہوا؟
17 فروری 1985 کو گریسلڈا کو ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا اور وہ کوکین پیدا کرنے، درآمد کرنے اور تقسیم کرنے کے جرائم میں قصوروار قرار پائیں۔ انھیں قتل کے مقدمات میں تین دفعات پر بھی قصوروار پایا گیا۔ وہ دو دہائیوں تک جیل میں رہیں۔ ان کی قید کے دوران ان کے تینوں بیٹے قتل ہو گئے۔ سنہ 2004 میں انھیں رہا کرتے ہی واپس کولمبیا بھیج دیا گیا، جہاں انھوں نے پھر خاموشی سے زندگی گزارنا شروع کر دی۔ ،تصویر کا ذریعہNetflix3 ستمبر 2012 کو میڈیلین میں 69 برس کی عمر میں ایک موٹر سائیکل سوار نے انھیں گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ قتل کرنے والے شخص نے بالکل وہی انداز اپنایا جو انھوں نے اپنے دور میں دوسرے لوگوں کو قتل کروانے کے لیے اختیار کیا تھا۔ ایرک نیومین نے بی بی سی کو بتایا کہ گریسلڈا کا قتل ان کے خلاف پائی جانے والی حقیقی نفرت کو ظاہر کرتا ہے۔ سنہ 2012 میں وہ ایک بے ضرر خاتون تھیں، وہ بے پروا انداز میں زندگی گزار رہی تھیں اور ان کے چار میں سے تین بچے قتل ہو چکے تھے۔ اندریس کا کہنا ہے کہ ’گریسلڈا ایک عام سے گھرانے سے منظر پر آئیں، جس کے ہاتھ خالی ہیں اور جس کے پاس کرنے کو کچھ نہیں اور پھر وہ اتنے بڑے تجربات سے گزرتی ہیں مگر جب آپ اس کہانی کے انجام تک پہنچتے ہیں تو پھر یہ کہیں زیادہ بھیانک ہے۔‘تاریخ کی کتابوں میں گریسلڈا کی زندگی کے اکثر پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ کولمبیا میں پلنے بڑھنے والی صوفیہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے ’اس خاتون کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔‘ ان کے مطابق جب انھوں نے یہ کہانی سنی تو انھیں ایسا لگا کہ یہ ممکن نہیں کہ یہ سچی کہانی ہو سکتی ہے۔ صوفیہ کے مطابق ’یہی وجہ ہے کہ میں اب گریسلڈا کا کردار ادا کروں گی۔ وہ ایک ہی وقت میں ایک ماں، ولن، محبوب اور قاتل ہیں۔ اس سب سے ہٹ کر انھوں نے یہ ثابت کیا کہ ایک انسان کتنا پیچیدہ اور اپنی ذات میں کتنا پوشیدہ ہو سکتا ہے۔‘ یہ فلم نیٹ فلکس پر 25 جنوری کو ریلیز کی جائے گی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.