دو جرنیلوں کے درمیان طاقت کی رسہ کشی: سوڈان میں عسکری خانہ جنگی میں 56 افراد ہلاک

سوڈان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, زینب محمد صالح اور ایمانوئیل اگنوزا
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، خرطوم اور نیروبی

سوڈان میں فوج اور ایک طاقت ور پیرا ملٹری فورس کے درمیان اقتدار کی لڑائی خانہ جنگی کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اب تک دونوں عسکری گروہوں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں 50 سے زیادہ عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں متحارب فورسز کے درمیان صدارتی محل، سرکاری ٹی وی اور فوجی ہیڈ کوارٹر پر قبضے کی لڑائی کے دوران عام شہری اپنی جان بچاتے رہے۔

واضح رہے کہ 2021 سے سوڈان پر فوجی جنرل حکومت کر رہے ہیں۔ تاہم دو بڑے دھڑوں کے سربراہان، فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتح برہان اور پیرا ملٹری فورس ریپڈ سپورٹ فورسز کے سربراہ جنرل محمد ہمدان، کے بیچ اقتدار سول حکمرانوں کے حوالے کرنے پر تنازع ہے۔

حالیہ صورت حال میں دونوں فریقین کا دعوی ہے کہ وہ دارالحکومت کے مرکزی مقامات بشمول ایئر پورٹ کا کنٹرول رکھتے ہیں۔

دوسری جانب خرطوم کے قریب واقع شہروں میں بھی لڑائی کے بارے میں اطلاعات ملی ہیں جس کے دوران فوجی طیاروں نے آر ایس ایف کے اڈوں پر بمباری بھی کی۔

خرطوم کے شہریوں نے بی بی سی کو خوف کی فضا کے بارے میں بتایا۔ سوڈان کے ڈاکٹروں کی ایک تنظیم کے مطابق اب تک 56شہری ہلاک ہوئے ہیں جبکہ درجنوں فوجی بھی ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریبا چھ سو زخمی ہیں۔

اس دوران اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے تین ملازمین بھی ہلاک ہوئے جب دونوں فریقین کے درمیان کبکابیا شہر میں ایک فوجی اڈے پر جھڑپیں ہوئیں۔

واضح رہے کہ یہ لڑائی فوج کے سربراہ جنرل عبد الفتح برہان اور آر ایس ایف کے سربراہ اور ملک کے نائب رہنما محمد ہمدان کے حامی دھڑوں کے درمیان ہو رہی ہے۔

سوڈان کی فوج کا کہنا ہے کہ پیرا ملٹری فورس آر ایس ایف کے تحلیل ہونے تک لڑائی جاری رہے گی جبکہ آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ تمام فوجی اڈوں پر قبضے تک ان کے فوجی لڑتے رہیں گے۔

لڑائی کی وجہ کیا ہے؟

سوڈان

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

آر ایس ایف کے سربراہ جنرل ہمدان ملک کے نائب صدر بھی ہیں

واضح رہے کہ سوڈان میں اقتدار سول حکمرانوں کو واپس کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ تاہم اس تجویز پر عملدرآمد آر ایس ایف نامی پیرا ملٹری فورس کو باقاعدہ فوج میں ضم کرنے کے معاملے کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔

آر ایس ایف چاہتی ہے کہ یہ کام 10 سال تک ملتوی کیا جائے تاہم فوج دو سال کے اندر اندر آر ایس ایف کو ضم کرنا چاہتی ہے۔ ایک تنازع اس بات پر بھی ہے کہ ضم ہو جانے کے بعد نئی فوج کی قیادت کون سنبھالے گا۔

آر ایس ایف کے فوجیوں کی تعداد تقریبا ایک لاکھ ہے اور آر ایس ایف کے سربراہ جنرل ہمدان ملک کے نائب صدر بھی ہیں۔ اس فورس کے پاس سوڈان کی چند سونے کی کانوں کا کنٹرول بھی ہے۔

اس فورس کو 2013 میں تشکیل دیا گیا تھا جس کے بعد سے یمن اور لیبیا سمیت کئی تنازعات میں اس کا کردار رہا۔

اس فورس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی عائد ہوتے رہے ہیں اور اسے ملک میں عدم استحکام کی ایک وجہ سمجھا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ 2021 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں نئی حکومت تشکیل پائی تھی جس میں فوجی جنرل ایک کونسل کے تحت ملک کا نظام چلاتے ہیں۔

اس سے قبل عسکری اور سول رہنماوں کے درمیان شراکت اقتدار کے معاہدے کے تحت ملک کا نظام چلایا جا رہا تھا جو اس وقت شروع ہوا جب سوڈان پر طویل عرصے تک حکومت کرنے والے عمر البشیر کو اقتدار سے نکال دیا گیا تھا۔

تاہم خرطوم میں وقتا فوقتا جمہوریت کے حق میں مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔

خوف کی فضا

سوڈان

،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA

خرطوم شہر میں عام شہریوں کی جان بچاتے ہوئے ویڈیوز دیکھی جا سکتی ہیں جبکہ شہر کی فضا میں کالا دھواں نظر آ رہا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے ایک صحافی نے کہا کہ گلیوں میں بکتر بند گاڑیاں موجود تھیں۔

خرطوم کے ایئر پورٹ پر ایک سول جہاز کو آگ بھی لگی۔ سعودی ایئر لائن کے مطابق اس کے ایک جہاز پر گولیاں چلائی گئیں جس کے بعد سعودی اور مصری ایئرلائن نے پروازیں معطل کر دیں۔

ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ مقامی لوگوں کو ان جھڑپوں کی بلکل خبر نہیں تھی اور وہ اچانک لڑائی کے بیچ پھنس گئے۔

دعا طارق نامی شہری بی بی سی سے بات کر رہی تھیں جب ایک فوجی طیارہ ان کے گھر کے اوپر سے گزرا۔ انھوں نے کہا کہ ’وہ ساتھ والے گھر کی چھت پر گولیاں برسا رہے ہیں۔‘

امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سوڈان میں متحارب فوجی گروہوں کے سربراہان سے بات کرتے ہوئے لڑائی روکنے پر اصرار کیا۔

BBCUrdu.com بشکریہ