دو جرنیلوں کی اقتدار پر قبضے کی جنگ جس نے سوڈان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا
جنرل محمد حمدان دقلو (دائیں) اور جنرل عبدالفتاح البرهان (دائیں) دونوں اپنے اپنے دھڑوں کی قیادت کر رہے ہیں۔
- مصنف, جیمز کوپنال
- عہدہ, بی بی سی، سوڈان کے تجزیہ کار
زوردار بھاری دھماکوں کی دل دہلا دینے والی آوازیں، آسمان پر کالے بادلوں اور سیاہ دھوؤں کا سایہ، گولیوں کے چلنے کی تھرتھراہٹ، راکٹوں کی دھمک اور افواہوں کی فضا میں خوف اور بے یقینی کی حالت۔
سوڈان کے دارالحکومت خرطوم اور ملک کے بہت سے دوسرے حصوں میں خانہ جنگی کے بعد زندگی نے اچانک بد سے بد تر قسم کا انتہائی ڈرامائی موڑ لے لیا ہے۔
اس کے مرکز میں دو جرنیل ہیں: عبدالفتاح البرہان، سوڈانی مسلح افواج ایس اے ایف کے سربراہ، اور ’حميدتی‘ کے نام سے مشہور جنرل محمد حمدان دقلو، نیم فوجی دستوں ’ریپڈ سپورٹ فورسز‘ آر ایس ایف (RSF) کے سربراہ۔
دونوں نے اکھٹے فوج میں کام کیا ہے اور اب مل کر بغاوت بھی کی۔ اب ان کی بالادستی کی جنگ سوڈان کو بری طرح سے متاثر کر رہی ہے۔
دونوں کے آپس میں تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ دونوں نے سنہ 2003 میں سوڈان کے مغربی علاقے میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں دارفور کے باغیوں کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
جنرل برہان نے دارفور میں سوڈانی فوج کی قیادت سنبھالی تھی۔
اُس وقت جنرل حميدتی بہت سے عرب ملیشیا گروپوں میں سے ایک کا کمانڈر تھا، جسے اجتماعی طور پر ’جنجووید‘ کہا جاتا تھا، جسے سوڈان کی حکومت نے بڑے پیمانے پر غیر عرب دارفور کے باغی گروپوں کو بے دردی سے ختم کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔
ماجاک دا اغوت نائب وزیر دفاع تھے جب2011 میں جب جنوبی سوڈان کی سوڈان سے علیحدگی ہوئی تھی۔
ماجاک دا اغوت کی دارفور میں جنرل برہان اور حميدتی سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ان دونوں نے مل کر اچھے کام کیے تھے لیکن اس دور میں انھوں نے ایسی بہت کم باتیں دیکھی تھیں جن سے یہ پتا چلتا کہ یہ دونوں کبھی سوڈان میں کسی بڑے عہدے تک پہنچ جائیں گے۔
حميدتی محض ایک ملشیا رہنما تھے جو بغاوت کو کچلنے کا کردار ادا کرنے کے ساتھ فوج کی مدد کرتے تھے۔‘
جنرل برہان کریئر فوجی تھے۔ ’سوڈانی افسر کور کے ہاں بڑے بڑے عزائم کو دیکھتے ہوئے اس بات کا امکان تھا کہ وہ کسی بھی عہدے تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
سوڈان کی آزادی کے بعد کی تاریخ کے بیشتر ادوار میں فوج اقتدار پر قابض رہی ہے۔
دارفور میں حکومت کی حکمت عملی، جسے ایک بار سوڈان کے امور کے ماہر الیکس ڈی وال نے ’ارزاں نرغوں پر انسداد بغاوت‘ کے طور پر بیان کیا تھا، یعنی باغیوں سے لڑنے کے لیے باقاعدہ فوج کے ساتھ ساتھ کم اجرت پر لڑنے والی نسلی ملیشیا اور فضائی طاقت کا استعمال کرنا، اور اس پالیسی کے مطابق، عام شہری ہلاکتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی گئی تھی۔
دارفور کو 21ویں صدی کی پہلی نسل کشی قرار دیا گیا ہے، جنجووید پر مبینہ نسل کشی اور اجتماعی ریپ کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
جنرل حميدتی بالآخر ان سوڈانی نیم فوجی دستوں آر ایس ایف نامی ملیشیاؤں کے کمانڈر بن گئے جو کہ ’جنجووید‘ کی ایک شاخ کہی جا سکتی ہیں۔
جنجووید ملیشیا پر دارفور کے تنازعے کے دوران نسل کشی اور اجتماعی ریپ کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔
جب حميدتی نے یمن میں سعودی عرب کے زیر قیادت اتحاد کے لیے لڑنے کے لیے فوجیوں کی فراہمی شروع کی تو اس کی طاقت اور اثر و رسوخ میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔
سوڈان کے اس وقت کے فوجی حکمران عمر البشیر، باقاعدہ مسلح افواج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے خطرے سے نمٹنے کے لیے جنرل حميدتی اور آر ایس ایف پر کافی انحصار کرتے تھے۔
ان کا خیال تھا کہ فوج کے جواب میں ایک اور مسلح طاقت کے موجود ہونے سے دونوں میں کسی کے لیے بھی ان کو معزول کرنا مشکل ہو گا۔
تاہم مہینوں کے عوامی احتجاج کے بعد اپریل 2019 میں جنرل عمر البشیر کا تختہ الٹنے کے لیے یہ دونوں مسلح قوتیں یعنی سوڈان کی افواج اور نیم فوجی دستے متحد ہو گئے۔
اسی سال کے آخر میں انہوں نے مظاہرین کے ساتھ سویلین کی قیادت میں حکومت بنانے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کی نگرانی خودمختار کونسل، ایک مشترکہ سویلین ملٹری باڈی تشکیل دی گئی، جس کے سربراہ جنرل برہان تھے، اور حميدتی اس کے نائب تھے۔
سویلین اور ملٹری اشتراک دو سال تک جاری رہا – اکتوبر 2021 تک جب فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا، اور اس مرتبہ پھر جنرل برہان دوبارہ ریاست کے سربراہ اور حميدتی اس کے نائب تھے۔
سوڈان کے ایک سوشلسٹ رہنما، صدیق تاور کیفی خودمختار کونسل کے ایک سویلین ممبر تھے اور اس لیے دونوں جرنیلوں سے باقاعدگی سے ملاقاتیں کرتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ سنہ2021 کی بغاوت کے بعد تک ان کے درمیان کسی اختلاف کا کوئی نشان تک نہیں دیکھا تھا۔
خرطوم میں آگ کے شعلے اور دھواں دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ دونوں جرنیلوں کے زیر کمان فوجی دستوں کی آپس میں لڑائی ہو رہی ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ تاہم اس کے بعد ’جنرل برہان نے اسلام پسندوں اور سابق حکومت کے ارکان کو ان کے پرانے عہدوں پر بحال کرنا شروع کر دیا۔‘
’یہ واضح ہو رہا تھا کہ جنرل برہان کا منصوبہ عمر البشیر کی پرانی حکومت کو اقتدار میں بحال کرنا تھا۔‘
مسٹر صدیق تاور کا کہنا ہے کہ یہ تب تک چلتا رہا ہے جب حميدتی کو شک ہونے لگا کیونکہ اس نے محسوس کیا کہ عمرالبشیر کے ساتھیوں نے کبھی بھی اس پر مکمل اعتماد نہیں کیا تھا۔
سوڈانی سیاست پرہمیشہ سے ایک اشرافیہ کا غلبہ رہا ہے جو بڑی حد تک خرطوم اور دریائے نیل کے آس پاس کے نسلی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
حميدتی کا تعلق دارفور سے ہے اور سوڈانی اشرافیہ اکثر اس کے اور اس کے سپاہیوں کے بارے میں طنزیہ الفاظ میں بات کرتے ہیں، مثال کے طور پر انھیں ’لبلد بومكين‘ کہتے ہیں یعنی یہ لوگ دیہاتی اُجڈ ہیں اور حکمرانی کے قابل نہیں ہیں۔
پچھلے دو یا تین سالوں میں حميدتی نےخود کو ایک قومی لیڈر کے طور پر قدآورشخصیت بنانے کی کوشش کی، خاص کر اپنے آپ کو پسماندہ طبقوں کا لیڈر بنانے کے لیے کام کیا۔
دارفور اور جنوبی کوردفان میں باغی گروپوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی ہے جنھیں ان کو تباہ کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔
باوجود اس کے کہ ماضی میں ان کی ملیشیاؤں نے شہریوں کے احتجاج کو انتہائی سختی اور بے دردی سے کچلا تھا، انھوں نے جمہوریت کی ضرورت اور افادیت کے بارے میں بھی باقاعدگی سے حمایت کی ہیں۔
فوج اور آر ایس ایف کے درمیان کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب سویلین حکومت کی تشکیل کی آخری تاریخ قریب پہنچی، جس کی توجہ اس نازک مسئلے پر مرکوز تھی کہ آر ایس ایف کو باقاعدہ سوڈان کی مسلح افواج میں دوبارہ کیسے ضم کیا جانا چاہیے۔
پھر آر ایس ایف کی ایس اے ایف کے خلاف لڑائی شروع ہوئی، حميدتی کی جنرل برہان کے خلاف جنگ، سوڈانی ریاست کے کنٹرول کے لیے رسہ کشی کا آغاز ہوا۔
پچھلے کچھ سالوں میں اس نے ایک وسیع کاروباری سلطنت بنائی ہے، جس میں سونے کی کانوں اور بہت سے دوسرے شعبوں کی ترقی میں اس کی دلچسپی بھی شامل ہے۔
جنرل برہان اور حميدتی دونوں کو شہری رہنماؤں اور دارفور اور دیگر جگہوں پر تنازعات کے متاثرین کی طرف سے مبینہ زیادتیوں کے مقدمے کے مطالبوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
دونوں کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے اور ان سابق اتحادیوں کو جو اب ایک دوسرے کے دشمن ہیں، ان کے اپنی اپنی پوزیشنوں سے پیچھے نہ ہٹنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔
Comments are closed.