بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

دولت اسلامیہ کی خواتین بٹالین کی مبینہ کمانڈر: ایک ’آل امریکی گرل‘ جسے فطرت اور لوگوں سے محبت تھی

ایلیسن فلوک ایکرین المعروف اُم محمد الامریکی: دولت اسلامیہ کی خواتین بٹالین کی مبینہ امریکی کمانڈر، میدان جنگ سے کمرہ عدالت تک

ایلیسن فلوک ایکرین

،تصویر کا ذریعہALEXANDRIA SHERIFF’S OFFICE

،تصویر کا کیپشن

42 سالہ امریکی ایلیسن فلوک ایکرین

’ہمیں اپنی والدہ سے اب کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھنا۔ ہم ان سے بات بھی نہیں کرنا چاہتے۔‘

42 سالہ امریکی شہری ایلیسن فلوک ایکرین کو جب اُن کے بچوں کی جانب سے موصول ہونے والے اس جواب کی اطلاع دی گئی تو انھوں نے بظاہر کافی تحمل سے جواب دیا کہ ’ٹھیک ہے۔‘

ان پر الزام ہے کہ صرف چند سال قبل وہ ’ام محمد الامریکی‘ کے نام سے شام میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی خواتین بٹالین کی کمانڈ کر رہی تھیں اور امریکی زمین پر دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں۔

اب ایلیسن امریکی ایف بی آئی کی حراست میں ہیں اور ورجینیا میں مقدمے کا سامنا کر رہی ہیں جس میں انھیں 20 سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔

امریکہ سے شام کا سفر

ایک بلاگ کے مطابق سنہ 2008 میں ایلیسن امریکی ریاست کنساس میں بطور استاد کام کر رہی تھیں۔

امریکی حکام کا الزام ہے کہ سنہ 2011 میں ایلیسن لیبیا گئیں جہاں سے سنہ 2012 کے دوران وہ اپنے شوہر کے ہمراہ انسانی سمگلرز کی مدد سے شام پہنچ گئیں۔ ایلیسن کے شوہر کے بارے میں الزام ہے کہ وہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ میں شامل ہونے کے بعد سنائپر (ماہر نشانہ باز) بن گئے تھے اور بعد میں ایک فضائی حملے میں مارے گئے۔

اپنے شوہر کی وفات کے بعد ایلیسن نے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ایک بنگلہ دیشی رُکن سے شادی کر لی تھی جو ڈرون حملوں کا ماہر مانا جاتا تھا۔ ان کے دوسرے شوہر بھی سنہ 2016 یا سنہ 2017 کے اوائل میں ہلاک ہو گئے تھے۔

ایلیسن نے تیسری بار شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ایک ایسے سینیئر کمانڈر سے شادی کی جن کو شام میں اس تنظیم کے دارالحکومت رقہ کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ سنہ 2017 میں ہی رقہ شہر پر داعش مخالف اتحاد نے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کو شکست دے کر قبضہ کر لیا تھا۔

رقہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

شام میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ (آئی ایس) کے مضبوط گڑھ اور نام نہاد دارالحکومت ’رقہ کی آزادی‘ کو پانچ سال ہو چکے ہیں

خواتین بٹالین کی سربراہ جو خودکش حملوں، کلاشنکوف چلانے کی تربیت دیتی تھیں

امریکہ کے جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایلیسن کو سنہ 2017 میں شام میں گرفتار کیا گیا جس کے بعد انھیں ایف بی آئی کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

اس بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ایلیسن کئی اور ناموں سے بھی جانی جاتی تھیں جن میں ام محمد الامریکی، ام محمد اور ام جبرائیل شامل ہیں۔

امریکی حکام کے مطابق ایلیسن نے شام میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے لیے سنہ 2014 سے ہی کام شروع کر دیا تھا اور وہ امریکہ کے کالج کیمپس پر حملوں کی منصوبہ بندی بھی کرتی رہیں۔

اس بیان کے مطابق سنہ 2016 میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے رقہ شہر کے ولی نے ’خطیبہ نصیبہ‘ کے نام سے خواتین کی بٹالین قائم کرنے کا اعلان کیا تھا اور ایلیسن جلد ہی اس کی سربراہ تعینات کر دی گئی تھیں۔ اس بٹالین کو اس بات پر فخر تھا کہ ان کی سربراہ ایک امریکی خاتون ہیں۔

بطور سربراہ ایلیسن نے خواتین اور بچوں کو کلاشنکوف چلانا سکھائی اور ساتھ ہی ساتھ انھیں ہینڈ گرینیڈ چلانے اور خودکش حملوں کی تربیت بھی دی۔ امریکی حکام کے مطابق ایسے عینی شاہدین موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ انھوں نے ایلیسن کو خود یہ کلاسز لیتے ہوئے دیکھا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’کاش یہ حملہ امریکہ میں ہوا ہوتا‘

امریکی حکام کے مطابق ایلیسن نے مبینہ طور پر ایک عینی شاہد جو اس مقدمے کے گواہ ہیں کو بتایا کہ وہ امریکہ میں دہشت گرد حملوں کی خواہش مند ہیں۔

اسی گواہ کے مطابق ایلیسن کا منصوبہ تھا کہ وہ بارود سے بھری گاڑی کسی شاپنگ مال کی زیر زمین پارکنگ میں کھڑا کریں گی اور فون کی مدد سے دھماکہ کر دیں گی۔

حکام کے مطابق ایلیسن کے نزدیک جب تک کسی بھی ایسے حملے میں بہت زیادہ افراد کی ہلاکت نہ ہو تب تک اس کی تیاری کے لیے وسائل کا استعمال وقت کا ضیاع ہو گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ ایک گواہ کے مطابق جب بھی ایلیسن کو بیرون ملک کسی دہشت گرد حملے کی اطلاع ملتی تو وہ کہتیں کہ ’کاش یہ حملہ امریکہ میں ہوا ہوتا۔‘

Presentational grey line

جنگ کے میدان سے عدالت کے کمرے تک

تارا مکلیوی، بی بی سی نیوز ورجینیا

ایلیسن کو امریکہ میں ایک دہشت گرد تنظیم کی مدد کرنے پر مقدمے کا سامنا ہے جس میں انھیں 20 سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔

سوموار کے دن استغاثہ کے وکلا نے ایلیسن کو آگاہ کیا کہ ان کے خاندان نے درخواست کی ہے کہ ایلیسن کو اُن سے (اہلخانہ) بات کرنے کی کوششوں سے روکا جائے۔

جب ایلیسن کو یہ اطلاع ملی تو انھوں نے کافی تحمل کا مظاہرہ کیا۔ اُن کے والدین اور دو بچے جو کنساس ہی میں رہتے ہیں، نے کہہ دیا ہے کہ وہ ان سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے۔ فیڈیرل پراسیکیوٹر راج پاریخ سے یہ سننے کے بعد انھوں نے کہا کہ ’میں سمجھ گئی۔‘

سر پر کالا سکارف اوڑھے ہوئے ایلیسن نے جواب دیا کہ وہ خاندان کی خواہش کا احترام کریں گی اور ان سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کریں گی۔

اس دن کی یہ واحد بُری خبر نہیں تھی۔ اُن کو یہ بھی بتایا گیا کہ اگر ان پر عائد الزامات ثابت ہو گئے تو انھیں 20 سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔

عدالت میں پیشی کے بعد سکیورٹی اہلکار ایلیسن کو ساتھ لے گئے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.