دولت اسلامیہ کو اپنے سربراہ کی موت کی تصدیق کرنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟
امریکہ نے 1976 میں عراق میں پیدا ہونے والے القریشی پر 10 ملین ڈالر کا انعام رکھا تھا
شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کی ایک آن لائن پوسٹ میں آڈیو پیغام کے ذریعے ابو ابراہیم الہاشمی القریشی کی موت کی تصدیق اور نئے ‘خلیفہ’ ابو الحسن الہاشمی القریشی کے نام کا اعلان کیا ہے۔
لیکن اس میں نئے خلیفہ کے بارے میں مزید معلومات نہیں دی گئیں اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ ابو ابراہیم کی وفات کب، کیسے اور کہاں ہوئی۔
جمعرات کو جب یہ آڈیو پیغام دولتِ اسلامیہ کے نئے ترجمان ابو عمر المہاجر نے پوسٹ کیا تو پتا چلا کہ اس تاخیر کی وجہ کیا ہے۔
ابو عمر المہاجر نے بتایا کہ ان کے پہلے ترجمان ابو حمزہ القریشی بھی حال ہی میں وفات پا گئے تھے۔ مہاجر نے کہا کہ وہ نئے رہنما کے بارے میں مزید انکشاف نہیں کریں گے لیکن حامیوں پر زور دیا کہ وہ ان سے وفاداری کا مظاہرہ کریں۔
رواں برس تین فروری کو رات گئے جب صدر بائیڈن نے خود ابو الحسن الہاشمی القریشی کی ہلاکت کی اطلاع دی تھی تو اس وقت بتایا گیا تھا کہ سپیشل فورسز کے چھاپے کے دوران ابو ابراہیم نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس سے ان کے اہل خانہ بھی ہلاک ہو گئے۔
اس کارروائی کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ ‘دنیا کے لیے دہشت گردی کا ایک بڑا خطرہ ٹل گیا ہے۔’
اس کے بعد بائیڈن نے ابو ابراہیم الہاشمی القریشی کو دنیا بھر میں دولتِ اسلامیہ کے اثرورسوخ اور یزیدی افراد کے قتل کے پیچھے اہم قوت قرار دیا۔
امریکی سپیشل فورسز کی کارروائی کے بعد عمارت کا منظر (3 فروری 2022)
اس کی منصوبہ بندی مہینوں تک جاری رہی
امریکی حکام نے یہ بھی بتایا کہ کیسے مہینوں تک اس آپریشن کی منصوبہ بندی کی گئی۔ پھر شام کے صوبے ادلب میں داخل ہو کر یہ کارروائی کی گئی۔
انتہا پسند رہنما ابو ابراہیم الہاشمی القریشی کو ‘دی ڈسٹرائر’ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ سال 2019 میں ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کے بعد القریشی کو اسلامک سٹیٹ کا سربراہ بنایا گیا تھا۔
بغدادی کی موت کے چار دن بعد اعلان کیا گیا کہ یہ گروپ اب القریشی کی قیادت میں کام کرے گا۔ لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ القریشی چونکہ میدان جنگ سے دور رہے اسی لیے وہ اس عہدے کے لیے زیادہ تیار تھے۔
قریشی کی طرح ابوبکر البغدادی نے بھی 2019 میں امریکی افواج کی کارروائی کے دوران خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا
ادلب کے ٹھکانے کا انکشاف
انٹیلی جنس رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ القریشی شام کے قصبے عطامہ میں اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہے تھے۔
یہ علاقہ جو ترکی کی سرحد کے قریب صوبہ ادلب میں آتا ہے، نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے سخت مخالف جہادی گروپوں کا گڑھ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں ترکی کے حمایت یافتہ باغی بھی سرگرم ہیں جو شام کی حکومت کی مخالفت کر رہے ہیں۔
انٹیلیجنس رپورٹ کے مطابق ایک خفیہ اطلاع کی بنیاد پر جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ القریشی وہاں ایک تین منزلہ رہائشی عمارت کی دوسری منزل پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ مقیم ہیں۔ قریشی وہاں سے شام اور دیگر مقامات پر بذریعہ کوریئر بھیج کر گروپ کو چلاتے تھے۔
’وہ کبھی گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ عمارت کی تیسری منزل پر صرف نہانے کے لیے جاتے تھے۔ اب یہاں شک یہ تھا کہ اگر فضائی حملہ کیا گیا تو عام شہریوں کی جان جانے کا خطرہ تھا۔‘
یہ بھی پڑھیے
خیال کیا جاتا تھا کہ عمارت میں رہنے والے دیگر خاندان نام نہاد دولت اسلامیہ سے وابستہ نہیں تھے یا انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ القریشی یہاں رہتے ہیں۔
وہ عمارت جہاں ابراہیم الہاشمی القریشی رہائش پذیر تھے
آپریشن کیسے کیا گیا
سینیئر امریکی حکام کا کہنا تھا کہ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زمینی ذریعے حملے کے بارے میں تفصیلی تحقیق کی گئی۔ طرح طرح کے حالات پر مشق کی گئی، یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی کہ آپریشن زمین سے کیا جائے تو کتنا خطرہ ہے۔
رہائشی عمارت کے بنے ہوئے ماڈل کو دیکھ کر انجینئر سمجھ گئے کہ اگر عمارت دھماکے سے اڑ جائے تو کیا ہو گا۔
صدر بائیڈن کو دسمبر میں ہونے والی اس ممکنہ کارروائی کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا تھا۔ بائیڈن نے یکم فروری کو اس کارروائی کی اجازت دی۔
تین فروری کو جب ہیلی کاپٹر اس آپریشن کے لیے اتماہ پہنچ رہے تھے بائیڈن خود وائٹ ہاؤس میں صورتحال کی نگرانی کر رہے تھے۔
پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کے مطابق امریکی فوج نے کارروائی سے قبل عمارت سے آٹھ بچوں سمیت 10 افراد کو نکالا۔
کربی کا کہنا تھا کہ اس آپریشن کے دوران ہی عمارت کی تیسری منزل پر دھماکہ ہوا، جس میں قریشی، ان کی اہلیہ اور دو بچے ہلاک ہوئے۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بعد میں فنگر پرنٹ اور ڈی این اے کے تجزیے کے بعد القریشی کی شناخت کی گئی۔ امریکہ نے سنہ 1976 میں عراق میں پیدا ہونے والے القریشی پر ایک کروڑ ڈالر کا انعام رکھا تھا۔
دولتِ اسلامیہ نے مشرقی عراق سے لے کر مغربی شام تک تقریباً 88 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور یہاں کے 80 لاکھ لوگ ان کی ظالمانہ طرزِ حکمرانی سہنے پر مجبور تھے۔
سنہ 2019 میں اس گروہ کو اس سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا تھا لیکن اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق اب بھی شام اور عراق میں چھ سے 10 ہزار جنگجو موجود ہیں جو اچانک اور گھات لگا کر حملوں اور سڑک کنارے بم دھماکوں جیسے واقعات میں ملوث ہیں اور وہ ہر روز ایسی کارروائیاں کرتے ہیں۔
Comments are closed.