دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے والی شمیمہ بیگم: ’میں ویسی نہیں ہوں جیسا لوگ سمجھتے ہیں‘
- مصنف, جوش بیکر اور جوزف لی
- عہدہ, بی بی سی نیوز
برطانیہ سے فرار ہو کر اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) یا دولت اسلامیہ کے گروپ میں شامل ہونے والی شمیمہ بیگم نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے 15 سال کی عمر میں نام نہاد دہشت گرد گروپ داعش میں شمولیت اختیار کی تھی۔
پچھلے ایک سال کے دوران انٹرویوز میں، شمیمہ بیگم نے انکشاف کیا کہ داعش کے اراکین نے انھیں تفصیلی ہدایات دیں تھیں، لیکن 2015 میں اس سفر کے لیے ان کی اپنی بھی منصوبہ بندی تھی۔ قومی سلامتی کے خطرے کے پیشِ نظر شمیمہ بیگم سے انکی برطانوی شہریت چھین لی گئی تھی۔
انھوں نے بی بی سی پوڈکاسٹ ‘دی شمیمہ بیگم سٹوری’ میں شام کے لیے اپنی پرواز کی تفصیلات پہلی بار بتاتے ہوئے کہا کہ برطانیہ سے باہر جانے ہوئے انھیں ‘راحت’ محسوس ہوئی تھی اور یہ کہ جب وہ جا رہی تھیں تو انھیں امید تھی کہ وہ کبھی واپس نہیں آئیں گی۔
شمیمہ بیگم نے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ عوام اب انھیں ‘ایک خطرے کے طور پر’ دیکھتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ‘میں ویسی نہیں ہوں جیسا کہ لوگ مجھے سمجھتے ہیں یا میرے بارے میں سوچتے ہیں۔’
شمیمہ بیگم کا کیس ان ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں میں سب سے مشہور ہوا جنھیں 2019 میں داعش کی ‘خلافت’ کی شکست کے بعد شام کے حراستی کیمپوں اور جیلوں میں رکھا گیا ہے۔ ان کا تعلق بہت سے ایسے ممالک سے ہے جو انھیں واپس نہیں لینا چاہتے۔
اب 23 سالہ شمیمہ برطانیہ کی شہریت کو بحال کرنے کی کوشش کے لیے قانونی جنگ لڑ رہی ہیں تاکہ وہ لندن واپس آ سکیں۔ شام میں ان کے تین بچے ہوئے تھے، جن میں سے سبھی کی موت ہو گئی تھی۔
ٹربیونل کی سماعت اس نکتے پر مرکوز ہے کہ آیا وہ جنسی استحصال کے لیے سمگلنگ کا شکار ہوئی تھیں، یا وہ داعش کی پرعزم رضاکار رہی ہیں جو برطانیہ کے لیے خطرہ ہیں۔
مشرقی لندن سے شمیمہ کے ساتھ دو اور لڑکیاں بھی شام کے لیے روانہ ہوئی تھیں
داعش بڑے پیمانے پر قتل، اغوا اور سر قلم کرنے جیسے مظالم کے لیے بدنام رہی ہے۔ اس کے دہشت گرد سیل 2015 میں پیرس اور 2016 میں برسلز میں حملوں کے ذمہ دار تھے، اور اس گروپ نے برطانیہ میں مانچسٹر ایرینا بم دھماکے اور 2017 میں لندن برج حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ اگر وہ واپس آتی ہیں تو عوام انھیں ایک ممکنہ خطرے کے طور پر دیکھیں گے، شمیمہ نے کہا کہ وہ ’بُری انسان نہیں ہیں‘ اور میڈیا کو مورد الزام ٹھہرایا۔
انھوں نے کہا ’ داعش کے علاوہ بھی میری زندگی کے کچھ اور پہلو ہیں۔ مجھ پر جو گزری ہے میں اس سے کہیں زیادہ ہوں‘۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اپنے تئیں معاشرے کے غصے کو سمجھتی ہیں ان کا کہنا تھا ’ہاں، میں سمجھتی ہوں۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا ’مجھے نہیں لگتا کہ حقیقت میں یہ غصہ میرے لیے ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ داعش کے لیے ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’جب وہ داعش کے بارے میں سوچتے ہیں تو وہ میرے بارے میں سوچتے ہیں کیونکہ داعش کے حوالے سے مجھے میڈیا پر بہت زیادہ پیش کیا گیا ہے‘۔ شمیمہ کا کہنا تھا ’ اِس پر اتنا زور دینے کی کیا ضرورت تھی، ہم داعش میں گئے، وہ بات ختم ہو گئی، معاملہ ختم ہو گیا، اب اس بارے میں کہنے کے لیے لیے بچا کیا ہے؟‘
’ایسا لگتا ہے کہ جیسے، وہ صرف کہانی کو زندہ رکھنا چاہتے تھے کیونکہ یہ ایک کہانی تھی، بڑی کہانی‘۔
یہ پوچھے جانے پر کہ آیا وہ قبول کرتی ہیں کہ انھوں نے ایک دہشت گرد گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی، ان کا کہنا تھا ’ہاں، میں نے کیا۔‘
بچوں کے سابق وزیر ٹم لوٹن نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ شمیمہ بیگم نے نوعمری میں آئی ایس میں شمولیت کیوں اختیار کی اور ’کن قوتوں نے ان کا برین واش کیا‘، لیکن ان کا کہنا تھا کہ جب وہ پہلی بار لاپتہ ہوئیں تو ان کے لیے عوامی ہمدردی کی جگہ غصے نے لے لی۔
شمیمہ بیگم ان ہزاروں میں سے ایک ہیں جو آئی ایس کی شکست کے بعد سے کیمپوں میں مقیم ہیں
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں کا یہ شک جائز نظر آتا ہے کہ انھوں نے خود کو ایک ’نقاب پوش مسلم نوجوان عورت سے تبدیل کر کے مغربی لباس پہنے ہوئے کسی ایسی خاتون کے طور پر پیش کیا جیسے کہ وہ ایک عام برطانوی نوجوان کے طور پر مشرقی لندن میں رہی ہوں۔‘
’میرے خیال میں زیادہ تر لوگ یہ کہیں گے کہ، ہمارا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ انھوں خود کو اس مصیبت میں ڈالا ہے اور اب انہیں کو یہ طے کرنا ہے کہ وہ اس سے باہر کیسے نکلیں۔‘
شمیمہ کے مطابق، ان کی اور بیتھنل گرین کی دو دیگر لڑکیوں کے رقہ میں داعش میں شامل ہونے کی تیاری میں ان کی اپنی تحقیق کے ساتھ ساتھ دہشت گرد گروپ کے ارکان کی جانب سے واضح ہدایات بھی شامل تھیں۔ ان میں سے ایک لڑکی بعد میں مر گئی اور دوسری بھی شام میں ہلاک ہو گئی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ’لوگ ہمیں آن لائن بتاتے تھے اور مشورہ دیتے تھے کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا، تفصیلی ہدایات کی ایک لمبی فہرست تھی ساتھ ہی یہ بھی کہ پکڑے جانے پر کون سی کہانی استعمال کرنی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ وہ معلومات جو انھوں نے خود انٹرنیٹ پر تلاش کیں ان میں سفری اخراجات اور تھوڑی بہت ترکی زبان کے الفاظ سیکھنا بھی شامل ہیں جن کی انھیں سرحد پار کر کے آئی ایس کے زیر کنٹرول شام جانے سے پہلے ضرورت ہوگی۔
لڑکیوں کے اہل خانہ کی نمائندگی کرنے والے ایک وکیل تسنیم اخونجی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان لڑکیوں کے فرار ہونے کے بعد ان کے کمروں کی تلاشی لی تاکہ کچھ رسیدیں، فون بل، ٹیکسٹ یا ای میلزمل سکیں لیکن ’میں نے کبھی بھی اتنی صفائی سے ثبوت یا معلومات کو صاف ہوتے نہیں دیکھا جیسا ان نو عمر لڑکیوں نے کیا تھا۔‘
شمیمہ بیگم کی پرانی تصویر
20 سال کا تجربہ رکھنے والے فوجداری وکیل مسٹر اخنجی نے کہا، ’انھوں نے جس سے بھی بات کی ہے اس پر بہت زیادہ بھروسہ کیا ہوگا، اور اس کے مشورے پر بہت احتیاط سے عمل کیا ہوگا۔‘ انھوں نے بتایا کہ شمیمہ بیگم کے گھر سے صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا ملا جو ایک شاپِنگ لِسٹ تھی جس میں وہ سامان تھا جس کی انھیں اس سفر میں ضرورت رہی ہوگی جس میں 75 پاؤنڈ کا فون، چار پاؤنڈ کے موزے اور سو پاؤنڈ ٹیکسی کے۔
تاہم شمیمہ کا کہنا تھا کہ وہ فہرست دوسری لڑکی امیرہ کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنے نشان مٹانے یا ثبوت کی ہر ممکن کوشش کی تھی لیکن ہم میں سے ایک نے بیوقوفی کر دی۔‘
شمیمہ بیگم نے کہا کہ انھوں نے سفر کے لیے ہلکا سامان پیک کرنے کی کوشش کی۔ ’لوگ کہتے تھے کہ اچھے کپڑے رکھو تاکہ آپ اپنے شوہر کے لیے اچھے کپڑے پہن سکو۔ لیکن ان کا کہنا تھا مجھے نہیں معلوم تھا کہ ان سے آئی ایس کے جنگجوؤں سے شادی کی توقع کی جا رہی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ڈھیر ساری چاکلیٹ جمع کی تھیں کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ شام میں وہ چاکلیٹ نہیں خرید پائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شام میں آپ کو بہت کچھ مل سکتا ہے لیکن مِنٹ چاکلیٹ ملنا مشکل ہے۔‘
شمیمہ کے ساتھ سکول جانے والی ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ’وہ ایک گمنام سے لڑکی تھی جو خاموش رہتی تھی اور ایک چھوٹے سے گروپ میں ہی اس کی دوستیاں تھیں۔‘
شمیمہ بیگم کا کہنا تھا کہ ’میرے گھر والوں کو لگتا تھا کہ میں بہت کمزور ہوں اور ایسا کچھ نہیں کر سکوں گی۔ وہ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ میں ایسا کچھ کروں گی، یعنی داعش میں شامل ہو جاؤں گی۔‘ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں ہمیشہ سے ہی الگ تھلگ رہا کرتی تھی۔ اس لیے میرے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ میری زندگی کی کہانی پورے میڈیا میں ہے کیونکہ میں ایسی انسان ہوں جسے توجہ حاصل کرنا پسند نہیں تھا۔‘
Comments are closed.