دولت اسلامیہ میں شامل ہونے والے نوجوان کے سمارٹ فون سے کیا کچھ ملا؟
شام میں لڑنے کے لیے جانے والے تین برطانوی افراد کے سمارٹ فون تک رسائی حاصل کر کے ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے صحافی مبین اظہر نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ گروپ میں کیوں شامل ہوئے اور ان کے ساتھ کیا ہوا۔ایک اندازے کے مطابق 900 افراد نے دولت اسلامیہ اور اسی طرح کے گروہوں میں شامل ہونے کے لیے برطانیہ چھوڑا۔ خود کو دولت اسلامیہ کہنے والا یہ گروہ تقریبا 14،000 اموات کا ذمہ دار تھا۔اور آج تک اس تنظیم میں شامل ہونے والے بہت سے برطانوی جنگجوؤں کی تعداد معلوم نہیں۔ شام میں دولت اسلامیہ کی جنگ کے بعد سنڈے ٹائمز کے لیے مشرق وسطی کے نمائندے لوئس کالاغان نے ایک مقامی مترجم کے ساتھ کام کرتے ہوئے ایک سمارٹ فون سے حاصل کردہ فائلوں پر مشتمل ایک ہارڈ ڈرائیو حاصل کر لی۔
تصاویر، ویڈیو فوٹیج اور سکرین گریبس جنھیں بی بی سی کی ایک نئی دستاویزی فلم میں دیکھا جا سکتا ہے میں ایسے برطانوی مردوں کی زندگی دکھائی گئی ہے جنھوں نے اپنے گھر چھوڑ کر ایک لڑائی کے لیے براعظم عبور کیے۔ ایسی زندگی کو عوام کو دکھانے کے لیے نہیں تھی، اس سمارٹ فون نے ایک منظر پیش کیا کہ برطانوی نوجوانوں کے لیے دولت اسلامیہ کا رکن ہونے کا کیا مطلب ہے۔
چوکری الخلیفی لندن کے علاقے ایجویر روڈ میں پلے بڑھے اور دولت اسلامیہ میں شامل ہونے سے پہلے وہ پرتشدد جرائم میں ملوث تھے۔ بائیس سال کی عمر میں ان کی زندگی شام میں ختم ہوگئی۔سمارٹ فون کی فوٹیج میں شمالی شام میں چوکری کو جوانی کے جوش سے بھرا دیکھا جا سکتا ہے ، جب وہ سوئمنگ پول میں کھڑے ہیں۔
یہ فوٹیج مگالوف میں لڑکوں کی چھٹیوں کے کسی لمحے جیسی تھی لیکن اس میں چوکری نے پول پارٹی کا اختتام بندوق کے ساتھ پوز بنا کر کیا۔
مزید پڑھیے
وہ ایک نادان اور متجسس انسان دکھائی دیتے ہیں، ایسے شخص کی طرح جس نے ابھی تک حقیقی دنیا کا تجربہ حاصل نہیں کیا۔بعد میں اُنھیں ہتھیاروں کی تربیت حاصل کرتے دیکھا گیا۔ وہ ایک کھیت میں ایک دستی بم پھینکتے ہیں، ان کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگتا ہے اور ان کے آس پاس لوگ اُنھیں ’لیجنڈ‘ قرار دیتے ہیں۔دولت اسلامیہ کی آن لائن پروپیگنڈہ کی ویڈیوز اکثر فلم جیسی ہوتی تھیں۔
ماہر تعلیم جیویر لیسکا کے مطابق جنھوں نے 1،500 سے زیادہ آئی ایس پروپیگنڈا ویڈیوز کا جائزہ لیا اور مطالعہ کیا وہ کہتی ہیں ’یہاں تک کہ انھوں نے ویڈیوز میں پاپ کلچر کے حوالے بھی دیے جس میں ویڈیو گیم مارٹل کومبٹ اور سا مووی فرنچائز بھی شامل ہیں۔‘’انھوں نے نئی نسل کے ساتھ ویڈیو گیمز کی ثقافت اور مشہور ترین ڈراؤنی فلموں کے حوالے دے کر بات کی۔‘لیکن سمارٹ فون کا یہ مواد نام نہاد خلافت میں زندگی کے بارے میں ایک مختلف نظریہ پیش کرتا ہے۔
‘یہ لوگ ایکو چیمبر کے اندر تھے’
مہدی حسن ایک اور نوجوان برطانوی ہیں جو سمارٹ فون پر دکھائی جانے والی تصویر میں شامل ہیں۔
لیکن چوکری کے برعکس وہ دولتِ اسلامیہ میں شامل ہونے سے قبل جرم میں ملوث نہیں تھا۔
مہدی نے پورٹسمتھ میں شام میں وقت سے پہلے موت کے سبب اپنی زندگی بدل دی۔ اُن کی والدہ جو اس واقعے سے برباد ہوئیں نے بتایا کہ مہدی ایک ’سخت محنتی، متوسط طبقے کے گھرانے‘ کا حصہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے اے لیول کے نتائج حاصل کرنے کے بعد اپنے بیٹے کو ایک سال میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔
مہدی نے کیتھولک نجی اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔
ان کی والدہ کے مطابق اس سال جب وہ اپنے درجات کو مکمل کرنے میں لگے تو مہدی کا دنیا کے بارے میں نقطہ نظر بدل گیا تھا۔
یہ تبدیلی ان کے سوشل میڈیا پر دکھائی دیتی ہے۔ پہلے پہل تو ان کی آن لائن شخصیت کچھ خاص نہیں تھی۔
اُن کی آن لائن شخصیت کوئی قابل ذکر نہیں تھی: بنا قمیض کے جم میں سیلفیاں اور کوالاز کے لیے ان کی محبت کی پوسٹوں کا ایک امتزاج نظر آتا تھا۔
وہ انتہاپسندانہ نظریات کے خلاف تھے اور لکھتے تھے میں برطانوی مسلم ہوں اور میں اس قسم کے گھٹیا پن کے خلاف ہوں۔
پھر انھوں نے لندن میں ٹرین میں سفر کے دوران انھیں گھورنے والوں کو ملامت کی کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ انھیں اڑا دیں گے یا کچھ اور۔
پھر یہ ہوا کہ وہ بظاہر زیادہ مذہبی ہو گئے اور وہ اپنی سابقہ زندگی میں کیے جانے والے گناہوں کے بارے میں لکھنے لگے۔
ہفتے کے بعد اُنھوں نے اپنے پیروکاروں کو قرآن کی کلاسوں اور بین الاقوامی سیاست سے متعلق اپنے بارے میں تازہ ترین معلومات فراہم کیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شبیہہ پیش کرنے کے لیے ایک واضح کوشش کی گئی ہے۔ اُنھوں نے اپنا نام مہدی حسن سے بدل کر ابو دجانہ رکھ دیا اور بنگلہ دیشی ورثے کا ایک برطانوی آدمی ہونے کے باوجود روایتی عرب لباس میں تصاویر پوسٹ کیں۔
کچھ مہینوں بعد مہدی ائیر پورٹ کے سی سی ٹی وی کیمرے میں دیکھے گئے جہاں سے وہ شام کے سفر پر روانہ ہو رہے تھے۔
وہاں سے انھوں نے آن لائن پوسٹس کو جاری رکھا۔ اور وہ ہر اس شخص کو سوالات کے جوابات دیتے تھے جو ان کے اپنائے گئے راستے پر چلنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ خود بھرتی ہونے والا اب اوروں کو بھرتی کرنے والا بن چکا تھا۔
ڈاکٹر نفیس حامد انتہا پسندوں کے ذہنوں کا مطالعہ کرنے والے ایک نیورو سائنسدان ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہم خیال لوگوں کی جانب سے آپ کے عقائد کو چیلینج کیا جانا بنیاد پرستی کے خاتمے کی کنجی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ دو ایکو چیمبرز کے درمیان تھے اور یہ ان کے لیے اطلاعات کا واحد ذریعہ تھا۔ انتہاپسند گروہوں کا ایک حصہ ایسا ہوتا ہے جو تعلقات کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ وہ واضح طور پر یہ جانتے ہیں کہ اگر آپ اپنے پرانے دوستوں اور خاندان والوں کے ساتھ بات کرتے ہیں اور آپ کے اندر اب بھی ان کے لیے جذبات موجود ہیں تو پھر آپ میں اپنا راستہ تبدیل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
شام میں گزارے تمام وقت میں مہدی نے پورٹسمتھ میں اپنے پیاروں کے ساتھ تعلق کو استوار رکھا۔
پھر شام میں پہنچنے کے چھ ماہ کے بعد انھوں نے آن لائن یہ پوسٹ کیا کہ کیا کوئی جانتا ہے کہ کسی یونیورسٹی میں داخلے کے لیے درخواست دینے کے لیے یو سی اے ایس پاس ورڈ کیا ہے۔ اس سے انھوں نے اس قیاس آرائی کو ہوا دی کہ ان کا آئی اس کے ساتھ گزارا وقت ختم ہونے کو ہے۔
مہدی کے بچپن کے دوست جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے نے وضاحت کی کہ وہ پوچھ رہے تھے کہ کیا کوئی وکیلوں کو جانتا ہے۔ ’اُس نے مجھے ایک بار فیس بک پر میسج کیا کہ وہ مجھ سے پیار کرتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ مجھے واپس نہیں پتہ تھا کہ جواب میں کیا کہوں۔ کاش وہ جانتے کہ مجھے بھی اس سے پیار تھا۔
مہدی کبھی گھر واپس نہیں جا پائے۔ وہ شام میں ترکی کی سرحد کے قریب ہلاک ہو گئے۔ ان کی آخری لوکیشن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاید شام چھوڑنا چاہتے تھے۔
یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ سمارٹ فون میں موجود تصاویر میں سے بہت سے افراد مر چکے ہیں۔ ان کی مانند بہت سے دوسرے اییسے ہیں جن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
Comments are closed.