دوسرے ملکوں میں اویغوروں کی سرگرمیوں کو دبانے کے لیے چین ملکی رشتہ داروں کو ‘یرغمال’ بنا رہا ہے
- مصنف, سیم جوڈا
- عہدہ, بی بی سی نیوز نائٹ اور بی بی سی ویریفائی
محققین کا کہنا ہے کہ چین بیرون ملک مقیم اویغوروں پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی مہم چلانے والوں کی جاسوسی کریں۔ اور وہ ایسا چین میں ان کے اہل خانہ کو دھمکا کر کر رہا ہے۔
پناہ گزینوں اور کارکنوں نے بی بی سی کو بتایا کہ چین کے دھمکی والے ہتھکنڈے ان کی برادری کو توڑ رہے ہیں۔
جیسے ہی علیم کی والدہ کی سکرین پر جھلک نظر آئی انھوں نے کہا: ‘میرے پیارے بیٹے، میں نے نہیں سوچا تھا کہ میں مرنے سے پہلے تمہیں دیکھ بھی سکوں گی۔’
علیم (اصلی نام نہیں ہے) کہتے ہیں کہ وہ اس لمحے سے مغلوب ہو گئے۔ ویڈیو کال پر دوبارہ والدہ سے ملاپ ان کا چھ سالوں میں پہلا رابطہ تھا کیونکہ وہ چھ سال قبل پناہ گزین کے طور پر برطانیہ فرار ہو گئے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ لیکن یہ کڑوا سکھ تھا۔ کال پر کسی اور کا کنٹرول تھا۔ تمام اویغوروں کی طرح (شمال مغربی چین سے تعلق رکھنے والی زیادہ تر مسلم اقلیت) علیم کی والدہ بھی سخت نگرانی اور کنٹرول میں رہتی ہیں۔ وہ کبھی بھی ایک دوسرے کو براہ راست فون کال نہیں کر سکتے ہیں۔
اس کے بجائے ایک درمیانی شخص نے علیم اور ان کی والدہ کو دو الگ الگ موبائلوں سے فون کیا۔ انھوں نے دونوں فون کی سکرینوں کو ایک دوسرے کے سامنے تھامے رکھا تھا تاکہ دونوں ایک دوسرے کی جھلملاتی تصویر ہی دیکھ سکیں اور سپیکروں سے دبی ہوئی آواز سن سکیں۔
علیم کا کہنا ہے کہ وہ بمشکل بول سکے اور کال کے دوران تقریبا تمام تر وقت صرف روتے ہی رہے۔
علیم کو یہ نہیں معلوم کہ ان کی ماں کے پیچھے جو سادہ سفید دیوار نظر آ رہی تھی وہ سنکیانگ میں ان کے گھر کی دیوار تھی یا کسی حراستی کیمپ کی دیوار تھی، جہاں چینی حکومت پر دس لاکھ سے زیادہ اویغوروں کو حراست میں رکھنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ چین طویل عرصے سے ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
لیکن علیم کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ والدہ کے ساتھ ان کے رابطے کے عوض ان سے کچھ مطلوب ہوگا۔ کیونکہ کال کرنے والا شخص چینی پولیس افسر تھا۔
چین میں مسلم اویغور انتہائی نگرانی کے ماحول میں رہتے ہیں اورکہا جاتا ہے کہ اس برادری کے دس لاکھ سے زیادہ افراد کیمپوں میں رہتے ہیں
جب افسر نے دوبارہ فون کیا تو اس نے علیم سے کہا کہ وہ انسانی حقوق کے اویغور کارکنوں کی میٹنگوں میں شرکت کرے، انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرے اور اسے چینی ریاست کو فراہم کرے۔
علیم کہتے ہیں کہ ‘جب بھی لندن میں چین مخالف احتجاج ہوتا تو وہ مجھے فون کرتے اور پوچھتے کون کون اس میں شرکت کر رہا ہے۔ علیم نے بی بی سی کے ساتھ فون کالز کی ریکارڈنگ شیئر کی ہیں جس میں انھیں جاسوس کے طور پر کام کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
علیم کو پیسوں کی بھی پیشکش کی گئی تاکہ وہ مہم گروپس کے رہنماؤں سے دوستی کرنے کی کوشش کریں اور انھیں ریستورانوں میں لے جائیں اور ان کا بل ادا کریں۔ ان رہنماؤں میں سے بہت سے برطانیہ کے شہری ہیں۔
افسر نے علیم کو ایک کمپنی قائم کرنے کا مشورہ دیا تاکہ ان کی نئی دولت کے بارے میں کسی کو شکوک و شبہات پیدا نہ ہو۔ علیم کو بتایا گیا کہ اسی مقصد کے لیے دوسروں کی جانب سے بہت سارے کاروبار پہلے ہی قائم کیے جا چکے ہیں۔
اس پیشکش میں دھمکی بھی چھپی تھی کہ اگر علیم نے انکار کیا تو ان کے خاندان کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس بات نے انھیں ایک موذی چکر میں جکڑ لیا۔
علیم نے کہا: ‘وہ میرے خاندان کو یرغمال بنا کر استعمال کر رہے ہیں۔ میں تاریکی میں جی رہا ہوں۔’
حکومتوں کی جانب سے بیرون ملک مقیم اپنے تارکین وطن کی نگرانی کے لیے استعمال کیے جانے والے حربے کو ‘بین الاقوامی جبر’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس خاص قسم کا حربہ چین میں پولیس عام طور پر استعمال کرتی ہے کہ وہ بیرون ملک کام کرانے کے لیے ویڈیو کالز کے ذریعے اپنے ملک میں ان کے خاندان کے افراد تک رسائی حاصل کرتی اور ان کو کنٹرول کرتی ہے۔
ڈاکٹر ڈیوڈ ٹوبن کا کہنا ہے کہ بیرون ملک مقیم اویغور بین ملکی جبر کا شکار ہیں
شیفیلڈ یونیورسٹی میں ڈاکٹر ڈیوڈ ٹوبن نے اپنی ساتھی نیرولا ایلیما کے ساتھ مل کر اس موضوع پر آج تک کی سب سے زیادہ جامع تحقیق کی ہے۔ انھوں نے متعدد ممالک میں اویغور تارکین وطن کے 200 سے زائد ارکان سے بات چیت کی ہے اور سروے کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین سے باہر رہنے والے تمام اویغور بین الاقوامی جبر کے شکار ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ‘خاندان سے علیحدگی اصل حربہ ہے۔’ ڈاکٹر ٹوبن کے مطابق جہاں فون کالز تکنیکی طور پر ممکن ہیں وہاں بھی چین میں رہنے والے رشتہ دار فون نہیں اٹھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں کالز کی نگرانی کی جائے گی، اور انھیں یہ خوف رہتا ہے کہ کھل کر بات چیت کرنا کہیں انھیں خطرے میں نہ ڈال دے۔’
خاندانی تعلقات کے اس طرح ٹوٹنے سے چینی پولیس کو اپنے مشن میں آگے بڑھنے اور سخت کنٹرول کے ساتھ انھیں رسائی دلانے کا موقع ملتا ہے۔ ویڈیو کالز کے ذریعے انھیں اپنے احکامات پر تعمیل کرانے کا موقع ملتا ہے کہ اگر وہ ان کے مطابق نہیں کرتے ہیں تو خاندان کے لیے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
ڈاکٹر ٹوبن نے برطانیہ میں تقریباً 400 افراد کی آبادی میں سے 48 اویغوروں کا سروے یا انٹرویو کیا۔ ان میں سے دو تہائی نے بتایا کہ چینی پولیس نے ان سے براہ راست رابطہ کیا ہے اور ان پر جاسوسی کرنے، طرفداری کے کام سے باز رہنے، یا میڈیا سے بات کرنا بند کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا ہے۔
اور برطانیہ میں رہنے والے اویغور سب سے زیادہ متاثرہ افراد میں شامل نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ترکی روایتی طور پر اویغوروں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ہے جہاں 50,000 اویغور رہتے ہیں اور یہ چین سے باہر ان کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ 148 میں سے 80 فیصد جواب دہندگان نے بتایا کہ انھیں چینی حکام کی جانب سے اسی طرح کے خطرات کی اطلاع دی گئی ہے۔
عبدالرحیم پراک سنہ 2014 میں استنبول پہنچے۔ لیکن وہ اس سے ایک سال قبل چین سے فرار ہوئے تھے۔
انھوں نے کہا: ‘ترکی اس سے ہر طرح سے بالکل مختلف تھا جس کا ہمیں تجربہ تھا۔ ہم جہاں چاہیں سفر کر سکتے تھے۔ پولیس نے ہمیں پریشان نہیں کیا۔ میں یقین نہیں کر سکتا تھا کہ ایسی بھی زندگی ممکن ہے۔’
لیکن پچھلے کچھ سالوں میں ترکی میں ایغوروں کے لیے تصویر بدل گئی ہے۔ ایسی رپورٹس ہیں کہ چین میں مقیم پولیس نے لوگوں پر ایک دوسرے کی جاسوسی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے جس سے ان کی برادری میں دراڑ پڑ گئی ہے اور دوستی کا احساس ٹوٹ گیا ہے۔
عبدالرحیم پراک کا کہنا ہے کہ ترکی میں اویغور محفوظ تھے لیکن چین کے ہتھکنڈے ان کی برادری میں شگاف ڈال رہی ہے
فیس بک پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں ایک نوجوان ایغور شخص اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں پکڑا اور مارا پیٹا ہوا دکھائی دیتا ہے اس نے ایک پریشان کن اعتراف کیا ہے کہ اس نے بیجنگ کے کہنے پر جاسوسی کی۔ اگرچہ جائے وقوعہ کے حالات واضح نہیں ہیں لیکن اس فوٹیج کو اویغور برادری میں پھیلایا گیا ہے اور اس شخص کی آن لائن پر بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔
عبدالرحیم کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کہانیوں کے جمع ہونے کا اثر ہو رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘نوجوان خود کو اویغور مظاہروں اور جلسوں سے دور کر رکھ رہے ہیں۔ انھیں یہ خطرہ لاحق ہے کہ وہاں کے لوگ جاسوس ہو سکتے ہیں۔ چین کا منصوبہ کام کر رہا ہے۔’
ڈاکٹر ٹوبن کا خیال ہے کہ ترک حکام اس سے واقف ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور وہ جواب دینے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘جو ملک چین کی سرمایہ کاری پر جتنا زیادہ انحصار کرتا ہے، اس کے تعاون کرنے یا آنکھیں بند کرنے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔’
ترکی کو حالیہ برسوں میں چین کے قریب تر ہوتے دیکھا جا رہا ہے، اور اویغور برادری کے تحفظ کے لیے اس کے عزم پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
ترکی کی حکومت سے اس کے متعلق تبصرہ کرنے کی درخواست کی گئی تھی جس کا جواب نہیں دیا گیا ہے۔
لیکن چین صرف انہی ممالک کے لوگوں کو نشانہ نہیں بنا رہا ہے جہاں اس کی معاشی بالادستی ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں ایغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ کے ساتھ کام کرنے والی امریکی نژاد کارکن جولی ملساپ کا کہنا ہے کہ چین نے ان پر ان کے سسرال والوں کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
ان کے شوہر ہان نسل کے چینی ہیں جو ملک کا سب سے بڑا نسلی گروہ ہے۔ ان دونوں کی ملاقات سنہ 2020 میں امریکی دارالحکومت منتقل ہونے سے پہلے چین میں ہوئی تھی۔
جب جولی نے اویغوروں کے لیے مہم چلانا شروع کیا تو مقامی پولیس نے چین میں ان کے سسرال والوں سے یہ کہتے ہوئے رابطہ کرنا شروع کیا کہ وہ ان کے ‘دوست بننا چاہتے ہیں’۔
جولی امریکہ میں پیدا ہونے والی کارکن ہیں جو اویغوروں کے لیے آواز اٹھاتی ہیں اور انھوں نے ہان نسل کے ایک باشندے سے شادی کی ہے
انھیں اور ان کے شوہر کو ان کی بھابھی کے فون سے دھمکی آمیز پیغامات موصول ہونے لگے۔ جس میں دھمکی دی گئی کہ جولی کے بچے ‘یتیم’ ہو سکتے ہیں۔ جولی کہتی ہیں کہ ‘وہ اس زبان اور انداز میں نہیں لکھے گئے تھے جو وہ (ان کی بھابھی) استعمال کرتی تھی۔’ انھیں شک ہے کہ پولیس انھیں یہ پیغامات بھیجنے کی ہدایت کر رہی تھی۔
واشنگٹن ڈی سی میں ان کے شوہر اور چین میں ان کی بہن کے درمیان حالیہ ویڈیو کال کے دوران پولیس افسر سے براہ راست بات کرنے کا موقع ملا۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘وہ لڑکھڑا کر بولا اور ہم سے کہا کہ ہم انھیں غلط نہ سمجھیں۔’ افسر نے بتایا کہ پولیس امریکہ اور چین کے درمیان ‘نازک’ تعلقات کے پیش نظر امریکی رشتہ داروں کے ساتھ تمام مقامی خاندانوں کے دورے کا انتظام کرا رہی ہے۔
جولی اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ ایک سفید فام امریکی اور ایک ہان چینی خاندان کو ایک حد تک تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جو کہ اویغوروں کو حاصل نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘لیکن ہم اب بھی پولیس کی ہراسانی کے بارے میں، دھمکیوں کے بارے میں، روزمرہ کی حقیقت کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو کچھ بھیہے اچھا نہیں ہے۔’
ان کے خیال میں چینی حکام کا غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنانے اور اپنا کام کروانے کا رجحان تشویش ناک ہے۔
امریکی حکومت اس مسئلے کو باضابطہ طور پر حل کرنا شروع کر رہی ہے۔
مارچ میں سینیٹرز نے بین الاقوامی جبر کی پالیسی ایکٹ متعارف کرایا ہے جس میں ‘پراکسی کے ذریعے زبردستی’ متعدد زیادتیوں کی فہرست دی گئی، جو بیرون ملک مقیم خاندان کے افراد کو لاحق خطرات کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ قانون اگر منظور ہو جاتا ہے تو دھمکیوں کی اطلاع دینے کے لیے ایک وقف شدہ فون لائن کی تخلیق کی جائے گی اور جہاں بھی ممکن ہو کانگریس کو مجرموں کے خلاف پابندیاں لگانے کا اشارہ کرے گا۔
ناروے میں مقیم اویغور حقوق کی مہم چلانے والے عبدالولی ایوب کا خیال ہے کہ امریکی قانون سازی درست سمت میں ایک قدم ہو گا لیکن مغربی حکومتوں کو مزید آگے بڑھنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بھی کسی معاملے کی حکام کو اطلاع دی جائے تو سوالات براہ راست چینی حکومت کے پاس درج کیے جانے چاہئیں اور اس بات کی یقین دہانی کی درخواست کی جانی چاہیے کہ خاندان کے افراد محفوظ رہیں۔
جولی نے جب ایک چینی پولیس سے بات کی تو وہ گھبرا گیا
مسٹر ایوب کہتے ہیں: ‘ہم آپ کے شہری، آپ کے پڑوسی اور آپ کے ٹیکس دہندگان ہیں۔ ہماری حکومتوں کو کچھ تو ذمہ داری لینی چاہیے۔’
ڈاکٹر ٹوبن اس مسئلے سے نمٹنے میں آنے والی پیچیدگیوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘کیا آپ اپنے خاندان سے بات کرنا چاہیں گے؟’ یہ کہنا کوئی جرم نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ دھمکی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ برادریوں میں پھوٹ ڈالتی ہے، اور ذہنی صحت کے مسائل اور صدمے کا سبب بنتا ہے، لیکن یہ برطانوی سرزمین پر کوئی جرم نہیں ہے۔’
برطانیہ کے ہوم آفس کا کہنا ہے کہ بیرون ملک مقیم ناقدین کو دھمکانے کی کوششیں ‘ناقابل قبول’ ہیں اور یہ کہ بین الاقوامی جبر کا اندرونی طور پر جائزہ لیا جانا چاہیے اور ایسے تمام واقعات کی اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دی جانی چاہیے۔
لندن میں چینی سفارت خانے نے ایک بیان میں بین الاقوامی جبر کے الزامات کو ‘مکمل طور پر بے بنیاد’ قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چینی حکومت ‘قانون کے مطابق اویغوروں اور بیرون ملک مقیم ان کے رشتہ داروں کے ساتھ ان کے رابطے کی حفاظت کرتی ہے۔’
علیم نے پولیس میں شکایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن انھوں نے لندن میں اویغور حقوق کے کارکنوں کے ایک گروپ کے سامنے اپنی پریشانی کا اعتراف کیا ہے۔
گروپ کے لیڈروں میں سے ایک نے ہمیں بتایا کہ اس طرح کی درخواستیں بہت عام ہیں، اور اس برادری کی سالمیت کے لیے چیلنجز ہیں۔ لیکن انھوں نے اصرار کیا کہ ان کی طرفداری یا وکالت کا کام جاری رہے گا۔ ان کے تجربے میں چینی پولیس کی تقریباً تمام پیش قدمی کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔
علیم کسی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے اس مسئلے سے لڑتا رہا۔ علیم نے کہا: ‘میں نے محسوس کیا کہ اپنے خاندان کی خاطر دوسروں کو دھوکہ دینے کا مطلب اپنی قوم کو بیچنا ہوگا، اور میں ایسا نہیں کر سکتا۔ اگر انھیں یہ قیمت دینا پڑی تو یہی سہی۔’
علیم نے بھی چین کی پیشکش کو ٹھکرا دیا ہے۔
Comments are closed.