دوسری جنگ عظیم: جب شکست کے خوف سے ہٹلر کے ساتھیوں نے خود کشی کر لی
- ریحان فضل
- بی بی سی ہندی، دہلی
گوئبلز میاں بیوی اپنے چھ بچوں کے ساتھ
ہٹلر کی موت کی خبر ان کے ہم وطنوں کو ان کی موت کے ایک دن بعد یعنی یکم مئی کی رات 10:26منٹ پر دی گئی تھی۔ خبروں میں بتایا گیا کہ ہٹلر چانسلری میں سوویت فوجیوں کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے۔ انھوں نے آخری سانس تک سوویت فوجیوں کا مقابلہ کیا۔
ابھی 30 اپریل سنہ 1945 کو ہٹلر کی لاش چانسلری کے باغ میں مکمل طور پر نہیں جلی تھی کہ ان کے ساتھیوں نے برلن کی قریب آنے والی سوویت فوج سے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔ انھوں نے جنرل کریبس کو اپنے نمائندوں میں سے ایک کے طور پر سوویت فوج کے جنرل مارشل زوکوف سے ملاقات کے لیے بھیجا۔
ایان کرشا ہٹلر کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں: ‘جنرل کریبس کو بھیجنے کا فائدہ یہ تھا کہ وہ ماسکو میں پہلے جرمن ملٹری اتاشی کے طور پر کام کر چکے تھے اور روسی زبان بولنا جانتے تھے۔ کریبس رات دس بجے گوئبلز اور بورمان کے خط اور سفید جھنڈے کے ساتھ سوویت کیمپ کی طرف روانہ ہوئے۔ صبح چھ بجے واپسی پر انھوں نے بتایا کہ سوویت فوج غیر مشروط ہتھیار ڈالنے پر اصرار کر رہی ہے اور وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہم یکم مئی کو شام چار بجے تک انھیں اپنا ارادہ بتا دیں۔’
یہ سن کر گوئبلز اور ان کے دوسرے ساتھیوں کے چہرے لٹک گئے اور سب اپنی جان بچانے کی کوشش کرنے لگے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
گوئبلز کی اہلیہ ماگدا گوئبلز
گوئبلز کی بیوی نے اپنے چھ بچوں کو زہر دے کر مار ڈالا
لیکن ہٹلر کے قریبی گوئبلز نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ بھی ہٹلر کی طرح مریں گے۔
ایک دن پہلے، یعنی 30 اپریل کو ہٹلر کی خودکشی کے بعد گوئبلز کی بیوی میگڈا گوئبلز نے اپنی پہلی شادی سے پیدا ہونے والے بیٹے کو ایک خط بھیجا، جس میں اسے یہ بتایا کہ وہ اپنے شوہر اور چار بچوں کے ساتھ خودکشی کرنے جا رہی ہے۔
یکم مئی کی شام کو، ڈاکٹر ہیلمٹ گستاو کنز نے گوئبلز کے چھ بچوں، ہیلگا، ہلڈا، ہیلمٹ، ہولڈے، ہیڈا اور ہیڈے کو مارفین دی تاکہ انھیں نیند آجائے ۔ ان بچوں کی عمریں چار سے 12 سال کے درمیان تھیں۔
جوشم فیسٹ اپنی کتاب ‘انسائڈ ہٹلرز بنکر’ میں لکھتے ہیں: ’اس کے بعد ہٹلر کے ذاتی معالج لڈوگ سٹمپفیگر کی موجودگی میں کسی نے ان بچوں کا منہ کھولا اور مگڈا نے ہائیڈروجن سائینائڈ کے چند قطرے ان کے گلے میں اتار دیے۔ صرف ان کی سب سے بڑی بیٹی ہیلگا نے احتجاج کیا۔ اس 12سالہ لڑکی کے جسم پر موجود خراشوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے کس طرح زہر کھانے کی مزاحمت کی تھی۔
سب نے ایک دم سے دم توڑ دیا۔ اس کے بعد جب میگڈا گوئبلز اپنے بنکر پہنچیں تو ان کے شوہر ان کا انتظار کر رہے تھے۔ میگڈا نے اپنے شوہر سے صرف تین الفاظ کہے، ‘کام ہو گیا’۔ اس کے بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔’
گوئبلز اور ان کی اہلیہ نے بھی سائینائیڈ کھائی
رات ساڑھے آٹھ بجے، گوئبلز نے بغیر کچھ کہے اچانک اپنی ٹوپی اور دستانے پہن لیے۔ وہ اور ان کی بیوی بنکر کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ میگڈا نے پارٹی کا وہ سنہری بیج پہنا ہوا تھا جو انھیں تین دن پہلے ہٹلر نے دیا تھا۔
سیڑھی پر چڑھتے ہوئے، گوئبلز نے اپنے ٹیلی فون آپریٹر روہس مش سے کہا: ’اب آپ کی ضرورت نہیں رہی۔’
رچرڈ جے ایونز اپنی کتاب ‘دی تھرڈ ریچ ایٹ وار’ میں لکھتے ہیں: ‘بنکر سے باہر نکلنے سے پہلے گوئبلز جوڑے نے توقف کیا اور پھر سائینائڈ کا ایک کیپسول چبایا۔ وہ چند ہی لمحوں میں مر گئے۔ ایک ایس ایس کے سپاہی نے ان کی موت کی تصدیق کے لیے ان کے جسم پر دو گولیاں چلائیں، اس کے بعد ان کی لاشوں کو آگ لگا دی گئی۔
ہٹلر اور ایوا براؤن کو جلانے کے بعد، بہت کم پٹرول بچا تھا۔ چنانچہ گوئبلز اور میگڈا کی لاشیں پوری طرح سے نہیں جلی تھیں، اور جب سوویت فوجی اگلے دن چانسلری میں پہنچے تو انھوں نے آسانی سے ان کی لاشوں کو پہچان لیا۔
جب سوویت فوجی چانسلری میں داخل ہوئے تو انھوں نے جنرل برگڈورف اور جنرل کریبس کو ایک میز پر بیٹھے ہوئے پایا۔ ان کے سامنے شراب کی آدھی خالی بوتلیں پڑی تھیں اور وہ زندہ نہیں تھے۔ اس سے قبل بنکر میں موجود تمام اہم فائلوں کو جلا دیا گیا تھا۔
ایس ایس کے سپاہیوں نے کہیں اور سے پیٹرول لا کر ہٹلر کے سٹڈی روم کو آگ لگا دی۔ لیکن وینٹی لیشن سسٹم بند ہونے کی وجہ سے آگ زیادہ پھیل نہ سکی اور کمرے میں موجود صرف فرنیچر ہی جلا۔
گوئبلز میاں بیوی
گورنگ نے زہریلا کیپسول بھی کھایا
رات 11 بجے کے قریب، بنکر میں رہنے والے باقی لوگ باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور کسی طرح انڈر گراؤنڈ ریلوے سٹیشن فریڈریسٹاس تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے چاروں طرف تباہی تھی اور ہر طرف سوویت گولے گر رہے تھے۔
کرشا ہٹلر کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں: ‘ہٹلر کے دو ساتھی بورمان اور اسٹمپفیگر کسی نہ کسی طرح انویلڈ سٹراسے پہنچ گئے، لیکن جب انھوں نے وہاں ریڈ آرمی کو دیکھا تو انھوں نے بھی گرفتاری سے بچنے کے لیے زہر کھا لیا۔ ہٹلر کی طرح ان کے کئی ساتھیوں کو بھی یہ خوف تھا کہ ان پر مقدمہ چلایا جائے گا، سرعام مذمت کی جائے گی اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی جائے گی۔
نو مئی سنہ 1945 کو جب امریکی فوجی ہٹلر کے ایک اور ساتھی ہرمن گورنگ کی باویریا میں موجود رہائش گاہ میں داخل ہوئے تو انھوں نے خود ہتھیار ڈال دیے۔
یہ بھی پڑھیے
رچرڈ جے ایونز لکھتے ہیں: ‘انھیں یہ خوش فہمی تھی کہ امریکی انھیں شکست خوردہ حکومت میں ایک اہم شخصیت سمجھیں گے اور انھیں ہتھیار ڈالنے کی شرائط پر بات چیت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ امریکی کمانڈر نے ان سے مصافحہ کیا اور انھیں کھانا دیا۔ جب امریکی صدر آئزن ہاور کو اس بات کا پتہ چلا تو انھوں نے فوراً گورنگ کو جیل بھیجنے کا حکم دیا۔ ان کی منشیات کی خوراک روک دی گئی اور ان سے پوچھ گچھ کی جانے لگی۔’
گورنگ کو اپنے کیے پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا، اس لیے انھیں موت کی سزا سنائی گئی۔ گورنگ نے درخواست کی کہ انھیں پھانسی پر لٹکانے کے بجائے فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے قتل کیا جائے۔ جب ان کی درخواست کو ٹھکرا دیا گیا تو انھوں نے گارڈ کی مدد سے زہریلا کیپسول حاصل کیا اور 15 اکتوبر سنہ 1946 کو خود کشی کر لی۔
ہرمان گورنگ
ہملر نے بھی خود کشی کر لی
ہینرخ ہملر کا بھی ایسا ہی انجام ہوا۔ ہملر ایلبا دریا عبور کرنے میں کامیاب ہوا لیکن اس کو برطانوی فوجیوں نے گرفتار کر لیا۔ اس وقت ہملر نے بہت گندے کپڑے پہن رکھے تھے۔ جب اس نے دیکھا کہ اب کھیل ختم ہو چکا ہے تو اس نے آنکھوں پر بندھی پٹی اتار دی اور عینک پہن لی۔ تلاشی کی دوران ہملر کی جیب سے زہر کی چھوٹی سی شیشی برآمد ہوئی۔
برطانوی فوجی افسر نے حکم دیا کہ ہملر کا طبی معائنہ کیا جائے۔ رچرڈ جے ایونز لکھتے ہیں کہ ‘جب ڈاکٹر نے ہملر کو منہ کھولنے کا کہا تو اس نے دانتوں میں کوئی کالی چیز دبا رکھی تھی۔ ہملر نے فورا اس چیز کو چبا لیا۔ دراصل یہ سائینائیڈ کیپسول تھا جس کا شیشہ ٹوٹا تو چند ہی سیکنڈ میں ہملر کی موقت واقع ہو گئی۔ اس وقت اس کی عمر 44 سال تھی۔
ہٹلر کے ساتھ ہملر
برلن میں اچانک خودکشیوں میں اضافہ ہو گیا
ہملر کے بعد ایس ایس کے ایک اور افسر اوڈیلو گلوبوکینک نے بھی زہر کھا لیا جب کہ ارنسٹ گراوٹز نے خاندان سمیت خود کو ہینڈ گرینیڈ سے اڑا لیا۔ فلپ بوہلر نامی ایس ایس افسر جو ذہنی اور جسمانی مریضوں کو خودکشی کرنے میں مدد دیتے تھے، انھوں نے بھی 19 مئی کو اہلیہ سمیت خود کشی کر لی۔
جرمنی کی سپریم کورٹ کے سربراہ ارون بمکین نے بھی اپنی جان لے لی۔ ہٹلر کے چیف ملٹری افسر فیلڈ مارشل والٹر ماڈل نے ڈزلڈروف کے قریب جنگل میں ہتھیار ڈالنے کی شرمندگی سے بچنے کے لیے خود کو گولی مار لی۔ رڈول ہیس، جن کو عمرقید کی سزا سنائی گئی تھی، انھوں نے زندگی کے آّخری ایام قید تنہائی میں گزارے۔ 1987 میں میں 93 سال کی عمر میں رڈولف ہیس نے جیل ہی خود کشی کر لی۔
کرسچن گوشیل نے اپنی کتاب تیسری جرمن ریخ کے اختتام پر خود کشی میں لکھا کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مارچ کے مہینے میں برلن میں 238 خودکشیاں ہوئیں جو اپریل میں بڑھ کر 3881 ہو چکی تھیں۔ زیادہ تر نے خودکشی کے نوٹ میں حالات اور سوویت یونین کے حملے کا ذکر کیا۔ خوف بھی ایک بڑی وجہ تھی۔ کئی والدین نے خود کو مارنے سے پہلے اپنے بچوں کو مار ڈالا۔
،تصویر کا ذریعہPENGUIN PRESS
روسی فوجی کے ہاتھ میں ہٹلر کے مجسمے کا سر
ارجنٹینا میں اسرائیلی جاسوسوں کے ہاتھوں ایشمین کی گرفتاری
جرمنی لیبر فرنٹ کے سربراہ رابرٹ لے کو امریکی فوج نے ٹیرول کی پہاڑیوں کے پاس سے گرفتار کیا۔ 24 اکتوبر 1945 کو انھوں نے نیورمبرگ میں ایک جیل کے ٹائلٹ میں اپنے ہاتھوں سے گردن دبا کر خود کشی کی۔ سابق جرمن وزیر خارجہ جوخیئم ربن ٹراپ اور ہٹلر کے چیف ملٹری ایڈوائزر الفریڈ جوڈل کو سزا کے بعد 16 اکتوبر 1946 کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔
ایڈولف آئخمن نامی جرمن، جس پر جنگی جرائم کے الزامات تھے، جعلی شناختی کارڈ کی مدد سے چھپنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ فرار ہو کر ارجنٹینا پہنچا جہاں کی حکومت بہت سے نازی افراد اور فوجیوں کو تحفظ فراہم کر رہی تھی۔
مئی 1960 میں آئخمن کو اسرائیلی جاسوسوں نے اس وقت اغوا کر لیا جب ایک جرمن یہودی فرٹز نے اسے تلاش کر نکالا۔ ایڈولف آئخمن کو اسرائیل لے جایا گیا جہاں اس پر مقدمہ چلایا گیا اور موت کی سزا سنائی گئی 31 مئی 1962 کو اسے پھانسی دے دی گئی۔
ایڈولف آئیشمان
سوویت خواتین فوجیوں کو ایوا براون کے کپڑے ملے
ہٹلر کی موت کے بعد جنگ بندی کے اعلان کے باوجود برلن کے کئی حصوں میں دو مئی تک لڑائی ہوتی رہی۔ دو مئی کو ہی چیف انجینیئر جوہانس ہیٹشل، جو اس وقت تک بنکر میں ہی موجود تھے، کو چند خواتین کی آّواز آئی۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے دیکھا کہ روسی فوج کے یونیفارم میں ملبوس 12 خواتین جو میڈیکل کور کا حصہ تھیں آ رہی تھیں۔
اپنی کتاب ہٹلر کے بنکر میں انھوں نے لکھا کہ ’ان خواتین کی سربراہ نے جرمن زبان میں مجھ سے پوچھا کہ ہٹلر کہاں ہے؟ اگلا سوال ہٹلر کی بیوی کے بارے میں تھا۔ انھوں نے کہا کہ ایوا براون کے کمرے میں لے جایا جائے جہاں پہنچ کر انھوں نے الماری سے جو کچھ ملا بیگ میں بھرا اور ساتھ لے گئیں۔‘
ہٹلر کی جنگ میں پانچ کروڑ لوگ مارے گئے
دو مئی 1945 کو جب جرمن کمانڈرز نے برلن میں موجود اپنے باقی ماندہ سپاہیوں سے ہتھیار ڈالنے کا کہا تو ان کی توجیہ یہ تھی کہ ہٹلر نے خود کو مارنے کے بعد ان کو اپنے سہارے چھوڑ دیا۔
ہینرخ بریلور نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جرمنی میں اس وقت ہٹلر کی موت پر کوئی ماتم نہیں ہوا۔ آٹھ سال بعد سٹالن کی موت پر جس طرح روس کے شہری روئے تھے، جرمنی میں ایسا کوئی منظر نہیں دیکھا گیا۔
انسانی تاریخ میں ایک شخص کی ذات سے اتنی تباہی کبھی نہیں جوڑی گئی۔ ہٹلر نے جس جنگ کا آغاز کیا اس نے پانچ کروڑ لوگوں کی جان لی۔ صرف برلن کو فتح کرنے میں ہی سوویت یونین نے تین لاکھ سپاہی گنوائے۔ اس دوران چالیس ہزار جرمن فوجی بھی مارے گئے اور پانچ لاکھ کو قیدی بنا لیا گیا۔
دو مئی 1945 کو تین بجے سویت یونین کے فوجی دستے جرمنی کی چانسلری میں داخل ہو گئے۔ ان کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہٹلر کے بنکر میں داخل ہونے والا سوویت یونین کا پہلا سپاہی لیفٹیننٹ آئیوان تھا جس کو ہیرو آف سوویت یونین کا اعزاز دیا گیا۔
Comments are closed.