دور دراز گاؤں، گنتی کی آبادی اور ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ ماہانہ: برطانوی حکومت ڈاکٹروں کو یہ آفر کیوں دے رہی ہے؟
یہاں رہنے والے اکثر افراد کے لیے یہ نوکریوں سے بڑھ کر پُرکشش ہے، یہ دراصل نئے لوگوں کو سکاٹ لینڈ کے جزائر میں موجود آبادی میں شامل کرنا ہے۔این ایچ ایس ویسٹرن آئلز کے چیف ایگزیکٹو گورڈن جیمیسن کا کہنا ہے کہ ’ہم ہمیشہ یہ دیکھتے ہیں کہ کون آ رہا ہے، اس کی شخصیت اور خاندان کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔’ہم نا صرف اس شخص کے لیے مواقع فراہم کر رہے ہیں جو کامیاب ہوا ہے، بلکہ ان افراد کے لیے بھی جو ان کے ساتھ آ رہے ہیں۔ ’سب لوگ کسی دور دراز جزیرے میں آ کر رہنے کے حوالے سے خود سے فیصلہ نہیں کرتے۔ طبی شعبے میں کام کرنے والے افراد کے لیے ان جزائر پر کام کرنا بہت دور دراز علاقوں میں آ کر کام کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہBENBECULA MEDICAL PRACTICEبینبیکولا میڈیکل پریکٹس میں شمولیت کے لیے این ایچ ایس ویسٹرن آئلز کی جانب سے عام طور پر دی جانے والی تنخواہ سے ’40 فیصد زیادہ‘ تنخواہ دی جا رہی ہے تاکہ دیہی سطح پر نئے لوگوں کو لایا جا سکے۔وہ ایسے ڈاکٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جنھیں ’ایڈونچر کا شوق ہے اور دیہی سطح پر طبی سہولیات میں کام کرنا چاہتے ہیں۔‘یہ ڈاکٹر ان چھ جزائر کو سہولیات فراہم کریں گے جن کی کل آبادی 4700 لوگوں پر محیط ہے۔ ہیلتھ بورڈ کی جانب سے ان نوکریوں کی تشہیر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ برطانیہ کے ’سب سے خوبصورت علاقوں‘ میں کام کرنے کا موقع ہے۔یہی نہیں حکومت کی جانب سے کامیاب امیدواروں کو ان جزائر میں منتقل ہونے کے لیے بھی خرچہ دیا جائے گا اور انھیں ’گولڈن ہیلو‘ کے تحت 10 ہزار پاؤنڈ بھی دیے جائیں گے۔ بی بی سی ریڈیو کے گڈ مارننگ سکاٹ لینڈ سے بات کرتے ہوئے جیمیسن نے بتایا کہ ’یہ ایک خاص سوچ کا حامل شخص ہو گا جو یہ نوکری اور ذمہ داری لینا چاہے گا۔’ظاہر ہے کہ ہم انھیں اس پر انعام دینا چاہیں گے۔ یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ تاہم دنیا بھر میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دیہی علاقوں میں ہیلتھ کیئر کے شعبے سے منسلک ہونا چاہتے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesانھوں نے بتایا کہ این ایچ ایس آئلز کو اس دوران ’وسیع قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا‘ اور دیہی علاقوں میں کنسلٹنٹس جی پی ایس اور نرسز سب ہی دباؤ کا شکار ہیں۔‘تاہم ان کا ماننا ہے کہ تنخواہ ان مراعات میں سے ہے جس کے باعث ’لوگ یہاں رہنے، کام کرنے اور زندگی گزرانے کے لیے تیار ہو جائیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں ایک پائیدار سروس بنانا چاہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ان کمیونٹیز میں طویل عرصے کے لیے رہیں۔‘آئل آف رم میں اندرونی علاقوں میں آبادی صرف 40 افراد پر محیط ہے، یہ سب کنولاک کے دیہات میں رہائش پذیر ہیں۔رم پرائمری سکول میں صرف پانچ بچے پڑھتے ہیں اور ان کی عمریں پانچ سے 11 سال کے درمیان ہیں۔ ان کے علاوہ دو بچے نرسری میں ہیں جن کی عمریں تین اور چار برس ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesہائی لینڈ کونسل کی جانب سے ہیڈٹیچر کے لیے سالانہ تنخواہ 62 ہزار پاؤنڈ کے قریب دی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ریموٹ ورکنگ الاؤنس 5500 پاؤنڈ بھی دیا جا رہا ہے۔کونسل کا کہنا ہے کہ انھیں اس نوکری میں لوگوں کی ’کچھ دلچسپی‘ تو دیکھنے کو ملی ہے تاہم ابھی یہ مرحلہ جاری ہے۔ جزیرے پر زندگی کے بارے میں بات کی جائے تو یہاں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے تحت بجلی بنائی جاتی ہے اور یہاں سے مین لینڈ تک پہنچنے کے لیے ڈیڑھ گھنٹے کا کشتی کا سفر کرنا پڑتا ہے۔اس جزیرے پر بڑی تعداد میں سرخ ہرن بھی موجود ہیں اور اس کا زیادہ تر رقبہ سکاٹش حکومت کی ایجنسی نیچرسکاٹ کی ملکیت ہے۔ چار سال پہلے کنلاک میں چار نئے گھر بنا لیے گئے تھے۔ آئل آف رم کمیونٹی ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے ان اقدامات سے نوجوان فیملیز یہاں آباد ہوں گی اور ’جزیرے پر زندگی مزید بہتر ہو گی۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.