سورب: جرمنی کی وہ نسلی اقلیت جس تک خطوط آج بھی کشتی کے ذریعے پہنچائے جاتے ہیں
- تھومس سپیرو
- بی بی سی ٹریول
جرمنی کی شہری انڈریا بونار جو نوکری کرتی ہیں وہ شاید دنیا کی عجیب ترین نوکریوں میں سے ایک ہے۔
ہر سال اپریل سے لے کر اکتوبر کے مہینوں کے دوران وہ تقریباً ہر روز وہ ایک نو میٹر لمبی کشتی پر سوار ہو کر چھوٹی چھوٹی نہروں کے ایک پرسکون نیٹ ورک سے گزرتی ہوئی تقریباً 65 گھروں میں ڈاک پہنچاتی ہیں۔ ان 65 گھروں تک کسی اور طریقے سے رسائی ممکن ہی نہیں ہے۔
بونار ایک جرمن گاؤں ’لید‘ کی مقامی خاتون ڈاکیہ ہیں۔ لید 150 افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو کہ مارشی جزیروں پر بنا ہوا ہے۔ یہ برلن سے تقریباً 100 کلومیٹر دور واقع ہے۔
47 ہزار ہیکٹر سے زائد رقبے پر محیط اس علاقے میں شاید ہی کوئی سڑک ہو۔ یہ پورا علاقہ گھاس کے میدانوں، جنگلات اور نہروں پر مشتمل ہے۔ مگر اس میں ہائیکنگ کے بہت سارے ٹریک ہیں اور جرمن دارالحکومت کی چہل پہل اور گہما گہمی سے دور بھاگنے والے شہریوں میں یہ ٹریک کافی مقبول ہے۔
جرمن زبان میں ’سپری والڈ‘ کہلانے والے اس علاقے کے نام کا مطلب ’سپری دریا کا جنگل‘ ہے۔ یہاں تقریباً 250 کلومیٹر تک ایسے آبی راستے ہیں جن پر سفر کیا جا سکتا ہے۔
اِدھر بہت سے آرگینک فارم موجود ہیں جو اس علاقے کی مشہور سوغات ’سپری والڈ گرکن‘ کی پیداوار کے لیے مشہور ہیں۔ یہ نمکین کھیرے نما گرکن جولائی سے اگست کے دوران پودوں سے اتارے جاتے ہیں اور پھر اسی علاقے میں بنے 260کلومیٹر طویل سائیکل ٹریکس پر قائم عارضی دکانوں میں فروخت کیے جاتے ہیں۔
بونار کو اپنی نوکری سے منسلک سکون بہت پسند ہے اور وہ اس علاقے کے چپے چپے سے واقف ہیں۔ ہر ہفتے وہ تقریباً 650 خطوط یہاں کے رہائشیوں تک پہنچاتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی چھوٹے چھوٹے پارسل بھی ڈیلیور کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ماضی میں انھوں نے سیب کے پودے، گھاس کاٹنے کی مشینیں، فلیٹ سکرین ٹی وی سبھی کچھ اپنی چھوٹی سی کشتی پر لاد کر لے جانا پڑا ہے۔ ان کی کشتی میں موٹر نہیں ہے بلکہ اسے چلانے کے لیے وہ چار میٹر لمبا چپو استعمال کرتی ہیں۔
سپری والڈ کی یہ پُرسکون آبی شاہراہیں ہمیشہ سے اس کی شہ رگ رہی ہیں۔ یہاں موجود چھوٹے چھوٹے کھیتوں میں ہر کسی کے پاس ایک چھوٹی سی کشتی موجود ہوتی ہے۔ گذشتہ 124 سال سے ان آبی گزرگاہوں کو مقامی افراد تک ڈاک پہنچانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
تاہم اگرچہ بونار نے اپنی ساری زندگی سپری والڈ کے قریب ہی گزاری ہے مگر انھیں افسوس ہے کہ وہ یہاں بسنے والوں کی مقامی زبان (جرمن کے علاوہ) نہیں بول سکتی ہیں۔ یہی زبان اس خطے کی نایاب شناخت بناتی ہے۔ اس خطے میں چھ ہزار اقسام کے پودے اور جانور پائے جاتے ہیں۔
سپری والڈ ’سورپ کمیونٹی‘ کا بھی گھر ہے۔ یہ برادری دنیا کی سب سے چھوٹی سلاوک نسل سے تعلق رکھتی ہے اور جرمنی میں تسلیم شدہ چار اقلیتوں میں سے ایک ہے۔
سوربوں کے آباؤ اجداد سلاوک قبیلوں سے تھے اور مشرقی اور وسطی یورپ کی کارپاتھیان پہاڑیوں میں رہتے تھے۔ تقریباً 1500 سال قبل ان میں سے کچھ قبیلے لوساٹیا کے خطے میں آ گئے جو مشرقی جرمنی، مغربی پولینڈ اور چیک ریپبلک کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ یورپ میں مختلف قومیتوں کے افراد آئے اور گئے مگر سورب آج بھی یہاں موجود ہیں اور سلاوک زبان بولنے والی یہ برادری آج بھی جرمنی میں رہتی ہے۔
بونار کہتی ہیں کہ ‘یہ اچھا ہوتا ہے جب ایسے پرانی روایات کو زندہ رکھا جاتا ہے۔ یہ دیہاتی زندگی کو بہترین کر دیتا ہے۔‘
جرمنی میں تقریباً 60 ہزار سورب بستے ہیں۔ ان میں سے ایک تہائی برینڈندبرگ کی ریاست میں رہتے ہیں جہاں سپری والڈ ہے۔ باقی جنوب میں ساکسونی کے علاقے میں رہتے ہیں۔
جرمن کے علاوہ سورب اپنی مغربی سلاوک زبانیں بولتے ہیں، تقریباً 20 ہزار لوگ اپر سوربئن بولتے جس میں چیک زبان سے کافی مماثلت ہے۔ پانچ ہزار لوگ لوئر سوربئن بولتے ہیں جو کہ پولش زبان سے ملتی جلتی ہے۔ ان دونوں زبانوں کے معدوم ہونے کا خطرہ ہے اور انھیں مقامی سطح پر فروغ دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
جب یہاں پر سیاح آتے ہیں تو انھیں سپری والڈ میں نصب عوامی سائن بورڈز دو زبانوں میں نظر آتے ہیں۔ لید میں لوئر سوربئن زیادہ بولی جاتی ہے اور اسی لیے اگر آپ کسی مقامی شخص سے کہیں کو وہ اپنا نام لکھیں تو وہ دونوں زبانوں میں اپنا نام لکھیں گے۔
سوریئن تاریخ پر کام کرنے والے ادارے سوربئین انسٹیٹیوٹ میں ماہرِ لسانیات فابیان کالفروسٹ کہتے ہیں کہ ’کئی لوگوں کے لیے زبان انتہائی اہم ہے۔ ’یہ ان کے لیے اپنی سورب پہچان بتانے کا طریقہ ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’سوربئن نہ صرف بڑی عمر کے لوگ بولتے ہیں، بلکہ یہ وہ زبان ہے جو روز مرہ کی زندگی میں سپر مارکیٹوں میں بولی جاتی ہے۔ یہ بہت عام بات ہے کہ آپ کو لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہوئے جرمن زبان میں ہیلو کے بجائے ’وتاج‘ کہتے سنائی دیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم خوش قسمت ہیں کہ آج بھی ہمیں ایسے لوگ ملتے ہیں جو اسے ایک عام سی زبان سمجھتے ہیں اور اس کے بارے میں زیادہ سوچنے کے بجائے بس اسے بولتے ہیں۔‘
مزید پڑھیے
سورب برادری اپنی زبان اور ثقافت کو اس لیے بھی محفوظ رکھ سکی ہے کیونکہ یہ کیتھولک برادری آبادی میں تو انتہائی کم ہے مگر یہ جہاں بستے ہیں اس کے گرد پہاڑیاں اور کھیت موجود ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ سے وہاں پہنچنا مشکل ہے۔ یہ سیکسونی کے دارالحکومت ڈریسڈن سے صرف 50 کلومیٹر دور ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک الگ ہی دنیا میں ہیں۔
یہی نایاب خصوصیت کروسٹوٹز کے گاؤں میں بھی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں 90 فیصد لوگ سوربیئن ہیں اور مہینہ وار سیاسی اجلاسوں میں اپر سوربئن بولی جاتی ہے۔ سرکاری دستاویزات دونوں زبانوں میں چھاپی جاتی ہیں۔
کروسٹوٹز کے میئر مارکو کلمن، جو خود ایک سورب ہیں، کہتے ہیں کہ ’یہ یہاں عام سی بات ہے اور اسی لیے یہ اہم ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے مصنوعی طور پر بنایا گیا اور پھر اسے زندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ روزمرہ کی زندگی ہے۔ یہ روزمرہ کی زبان ہے۔‘
اور اس کو قائم رکھنے کے لیے سورب اپنی نئی نسل پر توجہ دے رہے ہیں۔ 41 پرائمری سکولوں میں تقریباً 5000 بچے سورب زبان سیکھ رہے ہیں۔ درجن بھر سیکنڈری سکولوں میں بھی یہ سیکھائی جاتی ہے۔
سوربئن سکول اسوسی ایشن کی سربراہ کاتھرینا جرک کہتی ہیں کہ کروسٹوٹز کے مقامی پرائمری سکول میں سارے کے سارے 60 بچے سورب بطور اپنی مادری زبان اور جرمن بطور اپنی دوسری زبان کے سیکھتے ہیں۔
مگر اس میں ایک مشکل اساتذہ کو ڈھونڈنا ہے۔ جرک کہتی ہیں کہ نوجوان خاندان نہ صرف اپنی زبان کو اہمیت دے رہے ہیں بلکہ دیگر سورب روایات بھی اپنی نسلوں کو سیکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جرمن تاریخ میں سورب لوگ اپنی ثقافت کو محفوظ کرنے میں خود ہی کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ ملک بھر میں اپنے شاندار ایسٹر انڈوں کے لیے معروف ہیں جو کہ تمام خاندان انتہائی دھیان کے ساتھ مارچ اور اپریل میں تیار کرتے ہیں۔
وہ اپنے میلوں کی روایات بھی بچائے ہوئے ہیں جن میں وہ باطلی بلاؤں کو بھگاتے ہیں اور سال کے سرد مہینوں کو خیرآباد کہتے ہیں۔ بونار کہتی ہیں کہ انھیں اپنے بچوں کے ساتھ یہ روایت منانا بہت پسند ہے۔
’ہم پورے گاؤں کا پیدل چکر لگاتے ہیں۔ ہم انڈے، گوشت اور پیسے جمع کرتے ہیں اور ایک ہفتے بعد اپنے روایتی کپڑے پہن کر سردیوں کو خیرآباد کہہ کر موسمِ بہار کا جشن مناتے ہیں۔‘
’یہ سب انتہائی خوبصورت ہوتا ہے۔‘
Comments are closed.