- مصنف, کیرولین ڈیویز اور اعظم خان
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- ایک گھنٹہ قبل
قطر میں ایک بار پھر افغان طالبان کے لیے میز سجائی گئی۔ اقوام متحدہ کے زیر انتظام دو دن تک جاری رہنے والے اجلاس میں مختلف ممالک نے شرکت اور طالبان سے تند و تیز سوالات بھی کیے۔ اس اجلاس میں اگر پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان سمیت دہشتگرد گروہوں کے خلاف اقدامات اٹھانے کا مطالبہ دہرایا تو کچھ ممالک نے براہ راست افغانستان میں خواتین کے کردار اور انسانی حقوق پر بھی بات کی۔تاہم طالبان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کا ایجنڈا صرف انسداد منشیات سے متعلق اٹھائے گئے طالبان حکومت کے اقدامات اور نجی شعبے میں دی جانے والی مدد کی حد تک ہی محدود تھا۔یہ اور بات ہے کہ اس اجلاس سے قبل طالبان نے یہ شرط رکھ دی تھی کہ کوئی بھی سول سوسائٹی کا نمائندہ ان اجلاسوں میں شریک نہیں ہو گا۔ طالبان کی یہ شرط مان بھی لی گئی۔طالبان کے سیاسی دفتر کے نمائندے سہیل شاہین نے اس بارے میں بی بی سی کو بتایا کہ ابھی ہمیں یہ واضح نہیں ہے کہ سول سوسائٹی کے نمائندوں کو کون مقرر کرتا ہے اور کیسے یہ طے ہوتا ہے کہ کون سول سوسائٹی ہے اور کون اس کا حصہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس اجلاس میں صرف طالبان حکومت کے وفد نے شرکت کرنا تھی کیونکہ افغانستان کے مسائل ترجیح اول تھے۔
’افغان طالبان سے دہشتگرد گروہوں کے خلاف اقدامات اٹھانے کی بات کی‘
پاکستان کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے آصف درانی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ بطور سفارتکار تو اس اجلاس کے نتائج سے ناامید نہیں ہیں۔ تاہم انھوں نے کہا کہ دیگر بہت سے امور کے علاوہ پاکستان نے افغان طالبان سے دہشتگرد گروہوں کے خلاف اقدامات اٹھانے کی بات کی ہے۔پاکستان کا موقف ہے کہ شدت پسندی کی لہر میں اضافے کی وجہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کا استعمال ہے جسے روکنے میں افغان حکومت ناکام رہی ہے اور سرحد پار سے شدت پسند پاکستان کی سکیورٹی فورسز، چینی اور پاکستانی شہریوں کے خلاف حملے کرتے ہیں۔ماضی میں پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندر کارروائی کی جا چکی ہے۔ رواں سال مارچ میں افغان طالبان نے کہا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی جس کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے بتایا کہ اس آپریشن میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد ہدف تھے۔سہیل شاہین نے کہا کہ پاکستان سے دو طرفہ بھی دہشتگردی سمیت مختلف امور پر بات چیت چل رہی ہے۔ ان کے مطابق ’ہمارا پاکستان کے ساتھ سفارتی چینل کھلا ہے۔‘پاکستان کی طرف سے آپریشن عزم استحکام کے اعلان اور افغانستان کی حدود میں ’ٹی ٹی پی‘ کے خلاف کارروائی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ غلط خبریں بھی پھیلاتے ہیں اور سنی سنائی باتوں کو سوشل میڈیا پر عام کر دیا جاتا ہے جبکہ افغانستان اور پاکستان دو طرفہ سطح پر بھی ہر مسئلے پر بات کرتے ہیں۔
خواتین سے متعلق طالبان کی سوچ میں کتنی تبدیلی آئی؟
،تصویر کا ذریعہEPAسہیل شاہین کے مطابق قطر میں ہونے والے اس اجلاس میں دنیا کو ہم نے ’ویڈیو فلم‘ میں دکھایا کہ کیسے افغانستان سے افیون کا خاتمہ کیا گیا ہے، فیکٹریاں کی فیکٹریاں جلا دی گئی ہیں اور اب ان کسانوں کے لیے متبادل منصوبے دینے میں مدد کی ضرورت ہے۔ سہیل شاہین نے دعویٰ کیا کہ اجلاس میں شریک ممالک نے افغانستان کی کوششوں کو سراہا ہے۔سہیل شاہین سے جب میں نے پوچھا کہ اس کا مطلب ہے خواتین سے متعلق ابھی طالبان کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے تو ان کا جواب تھا کہ ’ملک کے اندر تین برسوں میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔ خواتین پیشہ وارانہ مہارت کی نہ صرف تعلیم حاصل کر رہی ہیں بلکہ ملازمتوں کے دروازے بھی ان پر کھلے ہیں۔‘تاہم ان کے مطابق اس اجلاس میں ابھی خواتین اور انسانی حقوق موضوع بحث نہیں تھے۔بی بی سی نے اس اجلاس میں شریک ہونے والے جن سفارتکارں اور حکام سے بات کی ہے ان کا کہنا ہے کہ قطر کے دارالخلافہ دوحہ میں افغان طالبان سے ہونے والی بات چیت سودمند رہی ہے۔ دوحہ میں ہونے والے اجلاسوں میں سے یہ پہلا اجلاس تھا جس کا مقصد طالبان کو عالمی دھارے میں لانا تھا کیونکہ جب سے طالبان نے افغانستان میں اقتدار سبنھالا ہے تو ان تین برسوں میں دنیا کے کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم نہیں کیا ہے۔طالبان کے اصرار پر اس اجلاس میں طالبان کے ساتھ سول سوسائٹی کا کوئی بھی نمائندہ شریک نہیں ہوا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ افغانستان سے کسی بھی خاتون کو اس اجلاس میں شریک نہیں کیا گیا، جس کے بعد سماجی گروہوں اور کارکنان کی طرف سے اس پر تنقید بھی کی گئی۔اقوام متحدہ کے حکام نے منگل کو افغانستان کی سول سوسائٹی کے نمائندوں سے علیحدہ سے ملاقاتیں بھی کی ہیں، جن میں افغانستان کی خواتین نے خطاب بھی کیا۔ اس اجلاس میں متعدد نمائندوں نے شرکت نہیں کی اور جو اس اجلاس میں شریک تھے ان میں سے کوئی بھی میڈیا سے اس متعلق بات کرنے پر رضامند نہیں ہوا۔ اب دوحہ میں اے سی والے شاندار ہال میں ہونے والا اجلاس تو اختتام پذیر ہو گیا ہے مگر یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ کیا افغانستان میں خواتین سے متعلق طالبان کی سوچ میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے؟،تصویر کا ذریعہEPAاس اجلاس میں کوئی بڑے اعلانات نہیں ہوئے۔ کوئی بڑی پیشرفت نہیں ہوئی۔ کوئی حل سامنے نہیں آیا۔ نہ ہی اس اجلاس سے ایسی کوئی توقع کی جا رہی تھی۔ بس ایک ہی چیز نظر آئی کہ افغان طالبان اور سفارتکار کسی حد تک مثبت نظر آئے۔بی بی سی نے اس اجلاس میں شریک جن سفارتکاروں اور حکام سے بات کی ہے ان کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں اختیار کیا جانے والا لب و لہجہ بہت تکریم والا تھا اور ماحول بہت دوستانہ تھا۔ اس اجلاس میں طالبان نے کوئی رعایات حاصل کیں اور نہ کوئی وعدے ہوئے۔ سہیل شاہین نے کہا کہ عملی طور پر دنیا کے بہت سے ممالک افغانستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت 38 ممالک ایسے ہیں جہاں افغانستان کے سفارتکار کام کر رہے ہیں۔ طالبان کی طرف سے وفد کی قیادت ذبیح اللہ مجاہد کر رہے تھے۔ بی بی سی نے ان سے پوچھا کہ طالبان حکومت کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کیا ہے؟ان کا جواب تھا کہ ’جب ہم آگے بڑھیں گے تو دیکھیں گے کہ دنیا کو ہم سے کیا چاہیے اور ہم شریعیت کے دائرے میں رہ کر کیا کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق جو کچھ بھی شرعی قوانین کے خلاف ہو گا اس پر بات نہیں ہو گی۔ اور جو کچھ شرعی دائرہ کار میں ہو گا ہم اس پر بات کریں گے۔‘ان کے مطابق یہ بات چیت کا ایک سلسلہ ہے جو جاری رہے گا، ہم دیکھیں گے کہ یہ سب صورتحال ہمیں کس طرف لے جاتی ہے اور ہم اس میں کس حد بہتری لا سکتے ہیں۔طالبان کے ترجمان کے مطابق اس اجلاس کا ایجنڈا انسداد منشیات اور نجی شعبہ تھا۔خواتین کے کردار اور انسانی حقوق سے متعلق سوال پر ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ’ہم اس طرح کے موضوعات کو دوسرے ممالک کے سامنے زیر بحث نہیں لانا چاہتے۔ ہم اس کا کوئی حل اپنے ملک میں ہی تلاش کریں گے۔‘جب بی بی سی نے انھیں کہا کہ تین برس سے تو ابھی تک ان مسائل کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکا ہے تو پھر اس کی کیا وجہ ہے۔ ان کا جواب تھا کہ ’ہم اسے نظر انداز نہیں کر رہے ہیں۔ ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ ہم شرعی قوانین کے عین مطابق اس کا حل تلاش کر رہے ہیں۔‘افغانستان میں خواتین کی حالت زار پر خود اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ وہاں صنفی امتیاز بھرتا جا رہا ہے۔ خواتین کو عوامی مقامات جیسے کہ پارکس اور جمز تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ وہ کچھ ملازمتیں نہیں کر سکتی ہیں۔اقوام متحدہ کی روزمیری ڈی کارلو کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک اندرونی معاملہ نہیں ہے اور ہم نے یہ بات ان (طالبان) پر واضح کر دی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ طالبان حکام کی طرف سے اگست 2021 میں کابل میں اقتدار سنبھالنے سے قبل افغان حکام نے ایسے متعدد معاہدات پر دستخط کر رکھے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی فرق نہں پڑتا کہ اگر حکومت تبدیل ہوجاتی ہے تو کیونکہ وہ ابھی بھی ان معاہدات کے فریق ہیں۔‘افغانستان کے لیے یورپی یونین کے خصوصی نمائندے تھامس نکلاسن نے کہا کہ میرے خیال میں وہ اس طرح کے کچھ امور (خواتین کو درپیش مسائل) پر بات چیت کے لیے تیار ہیں مگر وہ کچھ کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے ہیں۔‘انھوں نے کہا ’مجھے امید ہے کہ خواتین کے حقوق سے متعلق تبدیلی آئے گی تاہم میں وقت سے متعلق زیادہ واضح نہیں ہوں کہ ایسا کب ہو سکے گا۔‘
- افغانستان میں بھوک کا شکار بچے: ’طالبان نے کہا انھیں زہر دے دو لیکن کمانے کے لیے گھر سے باہر مت نکلنا‘18 دسمبر 2023
- افغانستان میں کارروائی کا نشانہ حافظ گل بہادر گروپ اور تحریک طالبان پاکستان کے دہشتگرد تھے، دفتر خارجہ پاکستان18 مار چ 2024
- وہ افغان شہزادی جنھیں ان کی شاعری کی وجہ سے صوفی کا درجہ ملا17 مار چ 2024
،تصویر کا ذریعہREUTERS
’ہم خواتین کے مسائل کو مغربی طرز پر حل نہیں کریں گے‘
طالبان کے سیاسی دفتر کے نمائندے سہیل شاہین نے ملک میں خواتین کی نمائندگی اور حقوق سے متعلق صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’مختلف معاشروں کی اپنی روایات اور اخلاقیات ہوتی ہیں۔ ہم (خواتین کو درپیش تمام) مسائل کو حل کریں گے مگر مغربی معاشرے کے طرز پر نہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ہم نے کچھ مسائل حل بھی کیے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت افغانستان میں لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ڈاکٹرز اور انجنیئرز بن رہی ہیں۔ ملازمتیں حاصل کر رہی ہیں اور یہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ایک لاکھ اور 25 ہزار خواتین کے لیے بھی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کی طرف سے جاری فہرست کے مطابق اس اجلاس میں چین اور روس نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔اس طرح کے کسی دوسرے اجلاس کے بارے میں ابھی کسی نئی تاریخ کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ بہت سے ممالک کے حکام جنھوں نے طالبان سے دو طرفہ بات چیت بھی کی ہے کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اجلاس مزید ہوں گے۔ جن حکام اور سفارتکاروں سے بی بی سی نے بات کی ہے ان کا کہنا ہے کہ یہ تو ابھی شروعات ہیں اور آگے چل کر اس طرح کے مزید اجلاس ہوں گے۔ جن سفارتکاروں سے ہماری ملاقات ہوئی ہے ان کا یہی مؤقف تھا کہ ابھی تین برس میں کابل میں بہت کم ہی امور پر پیشرفت ہوئی ہے۔روزمیری ڈی کارلو نے منگل کو اختتامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں یہ محسوس ہوا کہ ہمیں کہیں سے اب بات چیت کا آغاز کرنا چاہیے۔‘یہ سوال ابھی بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ یہ بات چیت صورتحال کو کس طرف لے کر جائے گی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.