دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک وسطی افریقی جمہوریہ نے بٹ کوائن کیوں اپنایا؟
صدر فوسٹن آرکان ٹویڈیرا ملک کے اقتصادی فلسفے میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں
وسطی افریقی جمہوریہ (سینٹرل افریقن ریپبلک یا کار) کے اس فیصلے نے کہ بٹ کوائن کو ایک لیگل ٹینڈر یا قانونی کرنسی (سکۂ رائج الوقت) سمجھا جائے بہت سوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے، لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے ملک آزادانہ اقتصادی مستقبل کی جانب بڑھے گا۔
بی بی سی کے ڈیمیئن زین اور گائے بندولو کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لگتا ہے کہ کرپٹو کرنسی کی ٹویٹس کے حوالے سے کار کے صدر، ایلون مسک کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔
کار کے صدر فوسٹن آرکان ٹویڈیرا نے اپنے ایک پیغام میں لاطینی زبان کا محاورہ ’وائرز ان نیومریز‘ لکھا تھا جس کا مطلب ’نمبروں میں طاقت‘ ہے۔ یہی جملہ بٹ کوائن کے ساتھ بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ اب یہی ان کا نعرہ بن گیا ہے۔
اسے اس واقعہ کے ٹھیک ایک مہینے کے بعد شیئر کیا گیا جب کار بٹ کوائن کو لین دین کے لیے استعمال کرنے والا دوسرا ملک بنا تھا۔ اس سے پہلے ایل سلواڈور نے بھی اسے قانونی کرنسی کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔
معدنیات سے مالا مال اس ملک کو دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، تقریباً ایک دہائی سے زیادہ خانہ جنگی کی وجہ سے، جس نے ملک کا بیشتر حصہ تباہ کر دیا ہے، صورت حال مزید پیچیدہ کر دی ہے۔ حکومت نے باغیوں کے خلاف لڑائی میں مدد کے لیے روسی کرائے کے فوجیوں کے ویگنر گروپ کو بھرتی کیا ہے۔
کار کے بٹ کوائن کے اعلان نے بہت سے لوگوں کو مخمصے میں ڈال دیا تھا اور کچھ سوچ رہے تھے کہ کیا اس کا مطلب فرانس سے دور ہو کر روس کی طرف سیاسی تبدیلی ہے۔
یقینی طور پر دارالحکومت بنگوئی میں دکانوں یا کیفیز نے بٹ کوائن کو ایک دم قبول نہیں کیا۔
2020 کے ایک تجزیے کے مطابق کار کے 10 میں سے نو باشندوں کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے، جو کہ بٹ کوائن کے استعمال کی بنیادی شرط ہے۔
اس کی اور اس کے ساتھ، بجلی کی پیچیدہ اور ناقابل اعتماد فراہمی کی وجہ سے، کچھ لوگ یہ سوال کرنے پر مجبور ہوئے کہ آیا کار اس نظریے کا تجربہ کرنے کے لیے صحیح ملک ہے کہ کرپٹو کرنسیز پیسے کی روایتی شکلوں کو تبدیل کر سکتی ہیں۔
’بصیرت والا منصوبہ‘
27 اپریل کو کیے گئے ابتدائی فیصلے کے ساتھ اس سے زیادہ وضاحت نہیں کی گئی تھی کہ اس سے ’ہمارے ملک کے لیے نئے مواقع‘ پیدا ہوں گے۔
صدر ٹویڈیرا نے اپنی مئی کی ٹویٹ میں جو حوالہ دیا وہ دارصل سانگو نامی منصوبے کا اعلان تھا، جو ملک کی سرکاری زبانوں میں سے ایک کے نام پر رکھا گیا ہے۔
ایک سرکاری پریس ریلیز کے مطابق، یہ ’بصیرت والا منصوبہ ہر اس شخص کے لیے ایک شاندار موقع پیدا کرے گا جو کرپٹو سرمایہ کاری پر یقین رکھتا ہے۔‘
تاہم جس ویب سائٹ پر یہ پریس ریلیز شائع کی گئی وہ خود بھی کافی مبہم سی ویب سائٹ ہے۔
سانگو ویب سائٹ پر آنے والے افراد کو مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک خفیہ کوڈ کی ضرورت ہے
سرمایہ کاروں کی ویٹنگ لسٹ میں جانے کے لیے صارف کو سائن اپ کرنے کی ترغیب دی جاتی تاکہ وہ ’خفیہ کوڈ‘ حاصل کر سکے۔
یہ کوڈ ایک چمکدار سلائیڈ پریزنٹیشن تک رسائی فراہم کرتا ہے جس میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ سینٹرل افریقن ریپبلک ’پارلیمنٹ کے ذریعے تسلیم شدہ پہلا قانونی کرپٹو ہب بنانا چاہتا ہے، جو کاروباروں کا خیرمقدم کرتا ہے اور عالمی کرپٹو کے شوقین افراد کو راغب کرتا ہے۔‘
سانگو ایک ’کرپٹو جزیرہ ہے۔۔۔ میٹاورس میں پہلا جزیرہ جسے حقیقت کی حمایت حاصل ہے۔‘
کرپٹو کرنسی کے ماہر، سٹون ایٹوائن، جو ڈیجیٹل فنانشل کمپنی ’ایورسنڈ‘ چلاتے ہیں، کہتے ہیں کہ اس پریزنٹیشن کے پیچھے لوگوں نے بہت سارے ’بڑے بڑے الفاظ‘ استعمال کیے لیکن ’دستاویز بالکل واضح نہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔‘
ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو اس منصوبے سے کان کنی اور دیگر صنعتوں میں سرمایہ کاری کے لیے بٹ کوائن کے استعمال کی ترغیب دی جا رہی اور وعدہ کیا جا رہا ہے کہ اس پر کوئی آمدنی یا کارپوریشن ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔
مسٹر ایٹوائن سمجھتے ہیں کہ اس سے ممکنہ فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ ’کرپٹو کرنسی کے بہت سے شوقین ایسی جگہیں تلاش کر رہے ہیں جہاں چیزیں قانونی ہوں۔‘
یہ بھی پڑھیے
کار میں ہیروں اور سونے کے ساتھ ساتھ دیگر معدنیات کے اہم ذخائر ہیں، اور سمجھا جا رہا ہے کہ بٹ کوائن ملک میں سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کا ایک آسان طریقہ ہے۔
صدر ٹویڈیرا نے سانگو منصوبے کے حوالے سے کہا کہ ’ناقابل تسخیر بیوروکریسی ہمیں ایسے نظاموں میں پھنساتی رہی ہے جو ہمیں کارکردگی دکھانے کی صلاحیت نہیں دیتے۔ اس کا حل یہ تھا کہ ہم اپنے معاشی فلسفے پر نظر ثانی کریں۔‘
کار میں سونے اور ہیروں کے ذخائر ہیں
منصوبے کو اس کے عزائم کی وجہ سے غلط قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن جب بات کرپٹو کرنسی اور عام وسطی افریقیوں کی ہو تو زیادہ تشہیر اور بنیادی ڈھانچے کی واضح طور پر ضرورت ہے۔
بنگوئی میں کاساوا سبزی فروخت کرنے والی ایڈتھ یامبوگیز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے تو یہ ہی سمجھ نہیں آ رہا کہ کریپٹو کرنسی ہے کیا۔‘
’میرے پاس سمارٹ فون ہے، لیکن میرے پاس اتنا اچھا انٹرنیٹ نہیں ہے کہ کرپٹو کرنسی استعمال کر سکوں۔ اس کے علاوہ میں کریپٹو کرنسی پر بھروسہ نہیں کرتی کیونکہ انٹرنیٹ پر فراڈ کرنے والے بہت لوگ ہیں۔‘
ایسا لگتا ہے کہ ایل سلواڈور میں بھی کچھ لوگ کرپٹوں کرنسی کے استعمال کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جہاں صدر نائیب بوکیل ایک جزبے کے ساتھ بٹ کوائن کو فروغ دیتے ہیں۔
وارک یونیورسٹی میں کرپٹو کرنسی کے ماہر گنیش وشواناتھ نٹراج کہتے ہیں کہ ’ایل سلواڈور کو چیوو والیٹ لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘
چیوو والیٹ بٹ کوائن کے لین دین کو آسان بنانے کے لیے حکومت کی تیار کردہ ایک ایپ ہے، لیکن حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اگرچہ گذشتہ سال اس کی لانچ کے بعد اسے بہت زیادہ ڈاؤن لوڈ کیا گیا تھا لیکن 2022 میں عملی طور پر اسے ایک مرتبہ بھی ڈاؤن لوڈ نہیں کیا گیا۔
کچھ لوگوں نے محققین کو بتایا کہ انھیں بٹ کوائن پر بھروسہ نہیں ہے۔
’انٹرنیٹ آ رہا ہے‘
تاہم کار میں کرپٹو کرنسی کو اپنانے کے حامیوں نے لوگوں سے کہا ہے کہ ابھی صبر کریں۔
رکن پارلیمنٹ ژان گالوانیس نگاسیومبو نے، جو قومی اسمبلی کے اقتصادی، منصوبہ بندی اور مالیاتی کمیشن میں شامل ہیں، اعتراف کیا کہ ملک میں ابھی تک تکنیکی بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔
لیکن انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اگلے سال کے آخر تک ایک فائبر آپٹک نیٹ ورک لگایا جائے گا جس سے ہر کسی کو انٹرنیٹ کی سہولت مل سکے گی۔ کار نے 2023 میں اپنے فائبر آپٹک نیٹ ورک کا اشتراک کرنے کے لیے پڑوسی ملک کیمرون کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بٹ کوائن کے قانون کی وجہ سے ٹیکنالوجی کی توقع کی جا رہی ہے، تاکہ حقیقت میں ’جب ہمیں وہ ٹیکنالوجی دستیاب ہو تو ہم اس کے لیے اس وقت تیار ہوں۔‘
وہ خود کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنے فون پر قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے بارے میں باقاعدگی سے اپ ڈیٹس کیسے حاصل کرتے ہیں۔ انھوں نے ہنستے ہوئے ایپ دکھائی اور کہا کہ ’میں نے آج پیسے بنائے ہیں۔‘
یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں بہت کم لوگوں کے بینک اکاؤنٹس ہیں، بٹ کوائن کو اپنانے سے بچت کی حوصلہ افزائی ہو گی اور رقم کو ذخیرہ کرنے اور منتقل کرنے کے لیے ایک محفوظ جگہ بھی دستیاب ہو گی۔
لیکن بہت سے لوگ ایسا نہیں سمجھتے۔
ڈاکٹر وشواناتھ نٹراج کہتے ہیں اگرچہ اس کے فوائد بھی ہیں لیکن دوسری طرف ملک کے مالی استحکام کے بارے میں سرمایہ کاروں کی تشویش درحقیقت شرح سود کو بڑھا سکتی ہے اور بٹ کوائن کی قیمت میں اتار چڑھاؤ سے بچت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
کیمرون میں قائم بینک آف سنٹرل افریقن سٹیٹس (بی ای اے سی) کار کی کرنسی سی ایف اے فرانک کی نگرانی کرتا ہے، جسے فرانس کی حمایت حاصل ہے اور خطے کے پانچ دیگر ممالک اسے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بینک بٹ کوائن کا قانون پاس ہونے پر خوش نہیں تھا۔
بینک کے گورنر عباس محمد ٹولی نے اپریل میں کار کے وزیر خزانہ کو بھیجے گئے ایک خط میں کہا کہ بٹ کوائن کے قانون سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ ملک ایک ایسی کرنسی قائم کرنا چاہتا ہے جو سی ایف اے کا مقابلہ کر سکے یا اس کی جگہ لے سکے۔
انھوں نے کار پر یہ کہتے ہوئے زور دیا کہ وہ اس قانون کو ختم کر دے، کیونکہ اس سے خطے میں مالی استحکام متاثر ہو سکتا ہے۔
مالیاتی خبر رساں ایجنسی بلومبرگ نے بھی رپورٹ کیا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ’بڑے قانونی، شفافیت اور اقتصادی پالیسی کے چیلنجز‘ کھڑے کیے ہیں۔
بٹ کوائن کے حامی پہلے سے قائم شدہ اقتصادی اداروں کے رویے سے شاید حیران نہ ہوں۔
لیکن ایسا بھی لگتا ہے کہ کار کے اس اقدام کے پیچھے سیاسی مقاصد کے ساتھ ساتھ معاشی مقاصد بھی ہو سکتے ہیں۔
کیونکہ سی ایف اے میں فرانس کی شمولیت ہے اور یہ حقیقت کہ یہ یورو سے منسلک ہے اس کے استحکام کو یقینی بناتا ہے۔ ناقدین اسے نوآبادیاتی کنٹرول کی ایک شکل کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔
ان کا استدلال ہے کہ یہ نظام معاشی آزادی کو روکتا ہے اور سابق نو آبادیاتی طاقت فرانس کو اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
روسی صدر ولادمیر پوتن کار کے ہم منصب کو روس میں ہونے والے افریقہ سمٹ میں خوش آمدید کہتے ہوئے
’دی ژان افریق‘ نامی جریدے کی ایک رپورٹ کے مطابق کچھ حکومتی وزرا فرانس سے الگ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کے تجزیہ کار نیتھن ہیز نے بی بی سی کو بتایا کہ بی ای اے سی کے خدشات کے باوجود، اس بات کے امکانات زیادہ نہیں ہیں کہ کار سی ایف اے کو ترک کر دے گا ’کیونکہ یہ ایک بڑا اقتصادی خلل پیدا کر سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ مانیٹری پالیسی میں سنجیدہ تبدیلی کے بجائے حکومت کی طرف سے ایک عوامی اعلان ہے۔‘
یہ روس کی طرف بڑھنے کا اشارہ بھی ہو سکتا ہے۔
2016 میں صدر ٹویڈیرا کے اقتدار میں آنے کے بعد کار نے فرانس سے اپنا سٹریٹجک اتحاد منتقل کرنا شروع کر دیا تھا۔
اس کی ایک مثال روسی ویگنر گروپ کے کرائے کے فوجی ہیں جنھیں باغی افواج سے لڑنے میں مدد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
ہیز کہتے ہیں کہ یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ انھیں کان کنی کے معاہدوں کے ذریعے ادائیگی کی جاتی ہے لیکن اگر وہ مستقبل میں اس سے ہٹنا بھی چاہیں تو بٹ کوائن ادائیگیوں پر کسی بھی پابندی کو جل دینے کا ایک طریقہ ہو گا۔‘
لیکن رکن پارلیمان نگاسیومبو کے لیے کرپٹوکرنسی کی طرف بڑھنے کے رجحان کا روس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
’جس طرح سے ہم اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔۔۔ اس بات پر منحصر ہے کہ اس ملک کے صدر اپنے لوگوں کے لیے کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
اور اگر آنکھوں کو چکاچوند کرنے والی سانگو پیشکش کو ہی سچ مان لیا جائے تو وہ ’لامتناہی امکانات کا ایک ڈیجیٹل مستقبل بنانا چاہتے ہیں۔‘
Comments are closed.