دنیا کے سب سے بڑے زیر زمین ’انسانیت کے مندر‘ جن کی تعمیر 15 برس تک رازداری میں جاری رہی
سنہ 1979 میں اٹلی کے پہاڑی سلسلے ایلپس میں ایک چھوٹی سے برادری کے 28 افراد نے رات کے اندھیرے میں سب سے چھپ کر پہاڑ کھودنا شروع کیا۔
ان کا مقصد دنیا کا سب سے بڑا زیر زمین مندر بنانا تھا۔ اور جب کئی برسوں بعد انھوں نے اپنا کام ختم کیا تو یقیناً انھوں نے ایک شاندار اور زبردست کام کر دکھایا تھا۔
پانچ منزلوں پر نو آرائشی کمرے جو کئی سو میٹر طویل سرنگ سے جڑے ہوئے ہیں ایک تین جہتی کتاب کی طرز پر تعمیر کیے گئے ہیں جن میں موجود فنپارے انسانی تاریخ بیان کرتے ہیں۔
اس کیتھیڈرل کو ’انسانیت کے مندر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
باریس ایلیبورو، جو دامنہور میں پیدا ہوئے اور آج اس کے سفیر ہیں، نے بی بی سی ریل کو بتایا کہ ’آج یہ حقیقت کا ایک مرکز ہے، یہ دامنہور کا تاریخی مرکز اور بین الاقوامی فیڈریشن کا دارالحکومت ہے جس میں دنیا بھر سے 1500 افراد کی پانچ کمیونٹیز ہیں۔‘
اس ماحول دوست اور روحانی برادری کا نام قدیم مصری زیر زمین مندر دامنہور کے نام پر رکھا گیا ہے جس کا مطلب روشنی کا شہر ہے۔ یہ افسانوی دیوتا حورس کے لیے مختص کیا گیا تھا۔
یہ اطالوی شہر ٹیورن سے 50 کلومیٹر شمال میں واقع ہے اور اس کی بنیاد اطالوی فلسفی اوبرٹو ایئراڈی نے رکھی تھی اور جس نے اپنا نام مصری قدیم دیوتا کی مناسبت سے فالکو ٹراساکوز رکھ لیا تھا۔
یونیورسٹی آف ٹیورن میں سوشیالوجی آف ریلیجن کی پروفیسر سٹیفنیا پالیسانو کا کہنا ہے کہ ’ فالکو کو اس کے اکثر پیروکار ایک غیر معمولی مخلوق سمجھتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ان کے لیے یہ ایک مستقبل کی دنیا کا شخص ہے جو اپنے جادوئی مشن کے ذریعے زمین اور اس کے باسیوں کو بچانے کے لیے آج کے زمانے میں واپس آیا ہے۔‘
پیروکار
اور اپنے فرقے کے ابتدائی برسوں کے دوران دامنہور برادری کے لوگوں نے ’ٹریول کیبنوں‘ کا استعمال کرتے ہوئے وقت کے دھارے میں سفر کرنے کے بارے میں بات کرتے تھے اور جو وجد کی انتہائی کیفیت پر پہنچ جاتا وہ ٹائم ٹریولر بن جاتا تھا۔
فالکو نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ چھ سو برس مستقبل سے ہو کر واپس آیا ہے تاکہ انسانیت کو تباہی سے بچا سکے۔
اس نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ماضی بعید میں بھی سفر کیا تھا، اور ایک ایسی برادری (فرقے) کی بنیاد رکھی اور اپنی قیادت میں اس کی ترقی کی حوصلہ افزائی کی جو اٹلانٹس کی افسانوی تہذیب بن جائے گی۔
ان دعوؤں کے باعث آپ کے ذہن میں بہت سے شکوک جنم لے سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی قریب میں اس نے ایک ایسے فرقے کی بنیاد رکھی تھی جس کا طرز زندگی کا اپنا ہی فلسفہ تھا۔
پروفیسر پالیسانو جنھوں نے برسوں اس فرقے کے متعلق تحقیق کی ہے وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’دامنہور دنیا میں منفرد برادری ہے۔‘
’یہ دنیا کے وہ انسان ہیں جنھوں نے اپنی پرسکون زندگی کو چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایک مشکل مشن کا بیڑہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔‘
پروفیسر پالیسانو کا کہنا ہے کہ ’فالکو اس قسم کی وابستگی کی حوصلہ افزائی اس لیے کرتا تھا کیونکہ اپنے ’جادوئی‘ مشن کی تکمیل کے لیے اسے مندر بنانے کی ضرورت تھی جہاں اس کی ’جادوئی ٹیکنالوجی‘ موجود ہوتی۔‘
انھی پیروکاروں میں سے ایک دامنہور اکیڈمی کے انٹیلوپ وربینا بھی ہیں، جن کا نام جانوروں اور پودوں کے ناموں کو اپنانے کی روایت کی عکاسی کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں یکم اپریل 1985 کو دامنہور برادری میں رہنے آیا تھا‘
’میرا پہلا دن بہت دلچسپ تھا کیونکہ اس وقت یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں آپ کو پہنچنے پر اپنی تمام چیزیں باہر چھوڑ کر ایک ایسی حقیقت میں رہنا شروع کرنا تھا جو بہت زیادہ اسرائيلی آبادی کيبوتس جیسی تھی۔‘
فالکو کی قیادت میں دامنہور کے پہلے باسیوں نے کھدائی کا کام شروع کیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ان برسوں کے دوران ہم سب نے مندروں کی تعمیر میں حصہ لیا۔ اس دنوں ہماری زندگی بس یہ ہی تھی‘
رازداری کے ساتھ تعمیر
ایلیبورو کا کہنا ہے کہ ’پہلے 15 برسوں کے دوران یہ سب انتہائی رازداری کے ساتھ ہوا کیونکہ اٹلی میں ایسا کوئی قانون نہیں تھا جو نجی زیر زمین عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دیتا تھا۔‘
اس کے علاوہ انھیں یہ بھی خطرہ تھا کہ اٹلی جیسے سخت گیر کیتھولک ملک میں کسی اور مذہب یا فرقے کے مندر کی تعمیر کو مسترد کر دیا جائے گا۔
اس لیے انھوں نے کبھی بھی اس مندر کی تعمیر کے لیے کسی اجازت نامے کی درخواست نہیں دی اور خفیہ طور پر اپنے منصوبے کو آگے بڑھایا۔
رفتہ رفتہ بہت سے لوگ جو اس مثالی معاشرے کی تشکیل اور زمین کی حفاظت اور احترام کے نظریے پر یقین رکھتے تھے ان کے ساتھ جڑتے گئے۔ اور تھوڑا تھوڑا کر کے وہ مزید زمین یا جائیدایں حاصل کرتے گئے۔
اس برادری کی ضروریات کو پورا کرنے اور روزی کمانے کے لیے انھوں نے بیکریوں، انگور کے باغات، کتابوں کی دکانیں اور سٹورز پر مشتمل چھوٹے چھوٹے کاروبار قائم کیے۔
ان کاروباروں کے مالکان کے علاوہ وہ لوگ جو مستری، فنکار، کسان اور کاریگر تھے دن کے وقت اپنا کام کرتے تھے اور سال بہ سال شفٹوں میں رازداری سے رات کو مندر کی تعمیر کے لیے کھدائی کرتے تھے۔
تمام تر احتیاطی تدابیر کے ان کا یہ راز بلاخر افشاں ہو گیا۔ اور جولائی 1992 میں جب اس مندر کا بیشتر کام مکمل ہو گیا تو اس وقت دامنہور پر سرکاری حکام نے چھاپہ مارا اور انھیں دھمکی دی کہ ’ہمیں مندر دکھاؤ ورنہ ہم پورا پہاڑی علاقہ اڑا دیں گے۔‘
جب فالکو اور ان کے پیروکاروں کے پاس کوئی حل نہ بچا تو انھوں نے مجبوراً مندر کو جانے والا خفیہ دروازہ کھول دیا۔
خطرے سے دوچار
وربینا کہتے ہیں کہ ’یہ سوچنا یا تصور کرنا بھی ناممکن تھا کہ لکڑی کے ایسے گمنام دروازے کے پیچھے ایک ناقابل یقین اور ناقابل تصور دنیا کھل سکتی ہے۔‘
سرکاری پراسکیوٹر اور تین پولیس اہلکاروں سونے کے پتوں سے آراستہ ستونوں والے مخصوص کمروں کا دورہ کیا۔ ان کمروں کی دیواروں کو اور چھتوں کو فن پاروں، آبرنگوں، موزیک اور کرسٹل سے سجایا گیا تھا۔
دامنہور کی رہائشی ایسپرائیڈ اناناس نے اپنی کتاب ’دامنہور: انسانیت کے مندر‘ میں لکھا ہے کہ ’یہ ناقابل یقین تھا، وہ بارود کے ساتھ آئے تھے، لیکن جب انھوں نے ہر ایک چیمبر کو دیکھا اور اس میں موجود موروثی حکمت کو سمجھنا شروع کیا، تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔‘
’نو چیمبروں کو دیکھنے کے بعد ہمیں اس پر نقش نگاری جاری رکھنے لیکن مزید کمرے نہ بنانے کا کہا گیا تھا۔‘
اگلے چند سالوں میں دامنہور کے باسیوں نے ایک سیاسی اور قانونی جنگ لڑی جو 1996 میں اپنے زیر زمین مندر کو برقرار رکھنے اور اسے دوبارہ کھولنے کی سرکاری اجازت کے بعد ختم ہوئی۔
اناناس کہتی ہیں کہ ’ہم نے ان مندروں کو بچانے کے لیے ایک لاکھ لوگوں سے دستخط کروائے۔‘
ایلیبورو کہتے ہیں کہ ’یہ مندر انسانیت کی حمد ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس مندر کا ہر کمرہ ہماری زندگی کے ایک مختلف باب کے بارے میں بتاتا ہے، اپنی ذات سے، ماحول کے ساتھ، وقت کے ساتھ، زندگی اور موت کے ساتھ کلام کرنے کا ہمارا طریقے کو بیان کرتا ہے۔
لہذا ہمارے نظریے کے مطابق یہ انسانی روحانیت کا انسائکلوپیڈیا ہے۔
Comments are closed.