آسٹریلیا جسے ’الرجی کا عالمی دارالحکومت‘ بھی کہا جاتا ہے، میں ہر دس بچوں میں سے ایک کو کھانے کی کسی چیز سے الرجی ہوتی ہے اور اس میں مونگ پھلی سے ہونے والی الرجی سب سے زیادہ جان لیوا اور تیزی سے بڑھنے والی الرجی ہے۔آسٹریلیا میں 12 ماہ کی عمر کے بچوں میں سے تین فیصد کو مونگ پھلی سے الرجی ہوتی ہے اور ان میں سے بہت کم ایسے ہوتے ہیں جن کی الرجی وقت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔سکول جانے کی عمر کے بچوں میں سب سے زیادہ مونگ پھلی سے الرجی پائی جاتی ہے۔آسٹریلیا کی اسسٹنٹ وزیر صحت گیڈ کرنی کے مطابق ’ہم سب چاہتے تھے کہ کوئی ایسا علاج آئے جس سے اس الرجی کو زور پکڑنے سے روکا جا سکے۔‘آسٹریلیا میں ’اورل امیونوتھیراپی‘ کا یہ پروگرام مفت فراہم کیا جائے گا۔ یہ علاج صرف ان 12 ماہ کے بچوں کو میسر ہو گا جو ان دس ہسپتالوں میں پہلے سے مونگ پھلی سے الرجی کی وجہ سے زیر علاج ہیں۔پروگرام کے سربراہ ٹِم بریٹگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بچوں کو کس وقت کتنی مقدار میں مونگ پھلی پاؤڈر دینا ہے اس کا بہت احتیاط سے حساب لگایا جائے گا تاکہ وہ پاؤڈر کی اس مقدار تک پہنچ جائیں جسے دو سال تک بر قرار رکھا جا سکے۔‘
- مونگ پھلی سے الرجی: 25 سالہ برطانوی ماڈل کی مونگ پھلی والے بسکٹ کھانے سے موت26 جنوری 2024
- بچوں میں کھانے کی الرجیز کیوں بڑھ رہی ہیں؟10 دسمبر 2018
- کینیڈین خاتون جسے سردی سے الرجی ہے14 دسمبر 2018
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesکچھ بچوں میں مضر اثرات سامنے آنے کا بھی خدشہ ہے جس میں مونگ پھلی سے الرجی شامل ہے تاہم اس طبی تجربے میں جو بچے شامل ہیں ان میں الرجی کی شدت قدرے کم ہے۔ڈاکٹر ٹِم بریٹگ نے مزید بتایا کہ اس پروگرام کا مقصد بچوں میں مونگ پھلی سے ہونے والی الرجی کے خطرات کو کم کرنا اور ان کی قوت برداشت کو بڑھانا ہے۔ڈاکٹر ٹِم نے بتایا کہ ’کچھ بچوں میں برداشت اتنی بڑھ جائے گی کہ ان کی خوراک میں مونگ پھلی شامل کی جا سکے اور کچھ بچوں میں اس طرح ہو گا کہ اگر وہ غلطی سے مونگ پھلی کھا لیں تو انھیں الرجی نہیں ہو گی۔‘آسٹریلیا کے نیشنل الرجی سینٹر کی ڈائریکٹر پروفیسر کرسٹن پیڑٹ نے بتایا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ الرجی کی وجہ سے بچے بیمار نہ ہوں تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے اس جان لیوا الرجی کے خوف کے بغیر سکول جا سکیں۔‘آسٹریلیا میں الرجی پر کام کرنے والا یہ قومی ادارہ اس علاج کی جانچ کرے گا کہ یہ مونگ پھلی سے الرجی کے خاتمے میں کتنا موثر اور بچوں کے لیے کتنا محفوظ ہے تاکہ اسے مزید ہسپتالوں میں متعارف کروایا جا سکے۔علاج کے اختتام میں فوڈ الرجی ٹیسٹ بھی کیا جائے گا تاکہ پتا چل سکے کہ علاج کس حد تک کامیاب رہا۔تاہم ڈاکٹرز نے خبردار کیا ہے کہ والدین ’اورل امیونوتھیراپی‘ گھر پر نہ کریں۔ ڈاکٹر ٹِم بریٹگ نے بتایا کہ یہ پروگرام ہر کسی کے لیے قطعی مفید نہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.