دنیا کا سب سے بڑا کرسٹل غار جس نے سائنسدانوں کو حیرت میں ڈال دیا
سپین کے جنوب مشرقی صوبے المیریا کے علاقے پلپی میں چاندی کی ایک متروکہ کان ایک ایسا خزانہ ہے جو کسی بھی قیمتی دھات سے وجود میں نہیں آیا۔
اس کے بجائے، جو کچھ یہاں دفن ہے وہ ہے دنیا کا سب سے بڑا جیوڈ (چٹانوں میں قیمتی پتھروں کا ٹکڑا) – ایک قدرتی کرسٹل کا شاہکار جس نے سائنسدانوں کو حیران کر دیا ہے۔
جیسا کہ ماہر ارضیات اور پلپی جیوڈ کی رابطہ کار میلا کیریتیرو نے وضاحت کی کہ جیوڈ ایک چٹان کے اندر ایک خلا ہے جو کرسٹل سے ڈھکی ہوئی ہے۔
بڑے سائز کے کرسٹل ستون کے پس منظر میں بیٹھی، میلا کیریتیرو نے فرق واضح کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی چٹان کو توڑا جس کے اندر چھوٹے جواہرات تھے۔ انھوں نے اپنی پشت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہنستے ہوئے کہا ’یہ وہی ہے جو میرے عقب میں ہے، صرف یہ ایک بہت بڑا ٹکڑا ہے۔‘
پلپی جیوڈ آٹھ میٹر چوڑا، دو میٹر اونچا اور دو میٹر گہرا ہے۔ انھوں نے کہا ہے ’جب جیوڈ کی بات آتی ہے تو، یہ اب تک کی سب سے بڑی دریافت ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ پلپی کا ایک اور کرسٹل عجوبے، میکسیکو میں نائکا مائن کے ساتھ موازنہ نہیں کرنا چاہیے، جس میں 15 میٹر طویل کرسٹل کے ستون ہیں لیکن وہ ایک غار ہے جس میں جیوڈ کے بجائے کرسٹل ہے۔
یہاں سپین میں جیوڈ کو اصل میں مینا ریکا میں کان کنوں نے دیکھا تھا، یہ چاندی کی ایک کان تھی جہاں 1873 سے 1969 تک کھدائی جاری رہی۔ لیکن برسوں بعد، 1999 میں، ماہرین ارضیات نے اسے دوبارہ تلاش کیا اور دنیا کی توجہ اس طرف دلائی۔
کیریتیرو کا کہنا ہے کہ ’جب کان کنوں نے اس چٹان کو دھماکے سے اڑا دیا اور انھیں جیوڈ ملا، تو وہ شاید پریشان ہو گئے کیونکہ وہ کرسٹل کو تلاش کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔‘
’اس کا مطلب ان کے لیے اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ایک اضافی کام تھا کیونکہ وہ بہت زیادہ وزنی اور منافع بخش نہیں تھے۔‘
اگرچہ سائنسدان ابھی تک اس پر تحقیق کر رہے ہیں، لیکن ان کا خیال ہے کہ یہ پورا علاقہ کبھی زیر آب تھا۔ ایک خاص مقام پر، آتش فشاں کی سرگرمی نے تلچھٹ کی چٹانوں کو توڑا اور انھیں گرم سیالوں سے بھر دیا۔ جب سیال ٹھنڈا ہوا تو کرسٹل بننا شروع ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیے
ماہرین ارضیات کے مطابق پلپی میں اینہائیڈرائٹ (وہ معدنیات جس نے چٹانوں کو تشکیل دیا تھا) تقریباً 250 ملین سال پہلے ڈائنوسار کے زمانے کی ہیں، لیکن وہ خود جپسم کرسٹل کی عمر کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان میں بہت کم ملاوٹیں پائی جاتی ہیں۔ تاریخ دانوں کا اندازہ یہ ہے کہ کرسٹل 20 لاکھ سال سے بھی کم عرصہ پہلے بڑھنا شروع ہوئے تھے۔
کیریتیرو نے کہا کہ ’کرسٹل جتنا آہستہ بڑھتا ہے، اس کا سائز اتنا ہی بڑا ہوتا ہے۔ اور کرسٹل اتنا ہی کامل ہوتا ہے۔‘
اس کان کو 2019 میں کچھ ملبہ صاف کرنے اور حفاظتی اقدامات جن میں 42 میٹر ہنگامی سیڑھیاں نصب کرنا تھا کے بعد عوام کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ اس عمل میں، کارکنوں کو اصل کان کنوں کی طرف سے پیچھے چھوڑی گئی اشیا ملیں، جن میں سگریٹ، جیکٹس، ربڑ کے سینڈل، بیئر کی بوتلیں اور دیوار پر موجود لکیریں تھیں۔
اب تک 100,000 سے زیادہ لوگ جیوڈ کا دورہ کر چکے ہیں، اور کیریتیرو کی ٹیم کرسٹل کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے درجہ حرارت، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نمی کی احتیاط سے نگرانی کر رہی ہے۔
انھوں نے کہا ’کاربن ڈائی آکسائیڈ سے زیادہ نمی کرسٹل کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ’کیونکہ اگر (نمی کی) ایک تہہ کرسٹل پر چڑھ جاتی ہے، تو وہ اپنی شفافیت کھو دیتے ہیں۔‘
پلپی کے کرسٹل، غیر معمولی طور پر شفاف رہتے ہیں، اور زائرین اور سائنس دان یکساں طور پر قدرتی نظارے سے حیران رہ جاتے ہیں۔
کیریتیرو نے کہا کہ ’میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی کہ میں نے اسے دیکھ کر کیا محسوس کیا۔ یہ ناقابل بیان ہے کیونکہ اس سے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم کتنے چھوٹے ہیں۔ دیکھیں قدرت نے ہمیں کیا دیا ہے۔‘
Comments are closed.