دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز جسے پہلے صدام حسین کی فوج نے ڈبویا اور پھر اس کا اپنا حجم اس کے زوال کا باعث بنا
لیکن ہر عظیم سمندری داستان کی طرح، یہ تباہی اس جہاز کی کہانی کا اختتام نہیں تھا۔ اس کو دوبارہ بنایا گیا اور یہ اس کے بعد بھی کئی برسوں تک فعال رہا۔اس سپر ٹینکر کو ابتدائی طور پر سنہ 1979 میں جاپان کے شہر اوپاما میں واقع سومیتومو ہیوی انڈسٹریز شپ یارڈ میں بنایا گیا تھا۔ مختلف ذرائع کے مطابق اس جہاز کی تعمیر کا حکم ایک یونانی کاروباری شخصیت نے دیا تھا تاہم اس کی تیاری مکمل ہونے کے بعد اس نے اسے خریدا نہیں۔ بالآخر 1981 میں ہانگ کانگ کے ایک بزنس مین ٹنگ چاؤ ینگ نے اسے خرید لیا۔ وہ ایک سمندری جہازرانی کی کمپنی ’اورینٹ اوورسیز کنٹینر لائن‘ کے مالک تھے۔،تصویر کا ذریعہAUKEVISSER/JULLIAN LELLIOTT
جنگی مقاصد
لیکن جس جہاز کا بی بی سی نے دورہ کیا تھا وہ دوبارہ تعمیر شدہ تھا۔مشرق وسطیٰ اور مغرب کے درمیان تیل کی تجارت کے عروج پر، اس سپر ٹینکر نے پوری دنیا میں نہ صرف تیل کی ترسیل کا کام کیا بلکہ یہ ایک تیرتے ہوئے بڑے گودام کے طور پر بھی کام آیا۔اس جہاز نے اپنی آخری مہم مئی 1988 میں اس وقت پوری کی جب وہ ایرانی جزیرے لارک پر لنگر انداز تھا۔ اس وقت خلیج فارس میں عراق اور ایران کے درمیان جنگ اپنے آخری مراحل میں تھی۔بنا کسی وارننگ کے صدام حسین کی فوج نے اس پر بموں سے حملہ کر دیا۔اس کے نتیجے میں جہاز میں آگ لگ گئی اور وہ ڈوب گیا۔،تصویر کا ذریعہAUKEVISSER
دیو قامت جہاز کا زوال
مرمت کے بعد یہ سپر ٹینکر ایک بار پھر فعال ہو گیا مگر اب یہ مرچنٹ ٹرانسپورٹ فرم ’کے ایس‘ کی ملکیت تھا اور اس کا نام بدل کر ’جاہرے وائکنگ‘ رکھ دیا گیا۔مگر نوے کی دہائی میں جہاز رانی کی صنعت میں کم ایندھن خرچ کرنے والے ٹینکرز کا استعمال بڑھنے لگا تھا اور اس معاملے میں جاہرے وائکنگ کی شہرت کچھ خاص نہ تھی۔،تصویر کا ذریعہAUKEVISSER/HONZA PLENER
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.