دنیا بھر کے ماہرین آثار قدیمہ اہرام مصر کے ’بحالی منصوبے‘ کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟،تصویر کا ذریعہGetty Images2 گھنٹے قبلمصر کا ہرم اکبر ’گیزا‘ تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ ہرم اکبر قاہرہ کے جنوب مغرب کے ریگستان میں ایک عظیم تہذیب کی شان و شوکت اور جاودانی کی علامت کے طور پر موجود ہے۔ لیکن ہرم اکبر اور اس کے قریب بنائے گئے دو دیگر اہرام اب ایسے نہیں ہیں جیسے وہ پہلے تھے۔ گذشتہ چند صدیوں کے دوران انھیں کافی نقصان پہنچا ہے۔ان کے اندر رکھے خزانے لوٹ لیے گئے۔ ڈھانچے کی بیرونی تہہ کو بھی نقصان پہنچا۔ اب گیزا کے مینکاور اہرام کے حوالے سے ایک بڑا تنازع پیدا ہو گیا ہے کیونکہ مصر کا محکمہ نوادرات ان اہرام کو بحال کرنا چاہتا ہے یعنی اس کی مرمت اور تزئین و آرائش کا خواہاں ہے۔

مصر کے محکمہ نوادرات کے سربراہ اس منصوبے کو صدی کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ مصر کی طرف سے دنیا کو دیا جانے والا تحفہ ہو گا۔ لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بحالی کا یہ منصوبہ آثار قدیمہ کے تحفظ کے اصولوں اور قواعد کے مطابق نہیں ہے۔اس منصوبے پر ملک کے اندر اور دنیا بھر سے تنقید بھی ہو رہی ہے۔ اس وجہ سے ممکن ہے کہ انتظامیہ اب اس منصوبے کا از سر نو جائزہ لے۔ ،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

اہرام کی تزئین و آرائش پر تنازع کیا ہے؟

برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی میں مصریات کے پروفیسر ایڈن ڈوڈسن اہرام کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’اہرام مصر دراصل مقبرے ہیں۔ اور ہم جن شاہی اہرام کی بات کر رہے ہیں وہ ایک خاص قسم کے مقبرے ہیں۔ اس کے تین پہلو ہیں جن میں سے ایک وہ ہیں جس کی نوکدار چوٹی ہے۔’شاہی مقبرے کے اندر ایک کمرہ ہے جس میں ایک قبر ہے۔ بعض عقائد کے مطابق یہ ’ابدی آرامگاہ‘ ہے، جس کے بارے میں یہ اعتقاد پایا جاتا ہے کہ یہاں مدفون مینکاور اس دنیا اور مرنے کے بعد والے جہان کے درمیان رابطہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔’لہٰذا ایک مندر یا عبادت گاہ بھی ہے، جہاں لوگ مینکاور کے لیے دعا یا نذرانہ پیش کر سکتے ہیں اور جہاں مرنے والوں کی روح اس دنیا میں آسکتی ہے۔ اہرام کے زمانے میں یعنی 2600 قبل مسیح اور 1550 قبل مسیح میں اہرام کو اس کے دو پہلوؤں سے دیکھا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ عبادت گاہ اور مقبرے ہیں۔شاہی مقبروں کے لیے اہرام کی شکل کا انتخاب کیوں کیا گیا اس بارے میں کچھ حتمی طور پر کہنا مشکل ہے، لیکن ایڈن ڈوڈسن کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق مصری سورج دیوتا ’را‘ سے ہو سکتا ہے، جسے دنیا کے تمام دیوتاؤں میں سب سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا تھا۔ اسے مصری افسانوں کا باپ بھی سمجھا جاتا تھا۔ایڈن ڈوڈسن کہتے ہیں کہ ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ اہرام کی شکل سورج کی کرنوں کے آسمان سے زمین تک پھیلنے کی عکاسی کرتی ہے۔ گیزا کے میدانی علاقوں میں تین اہراموں میں مینکاور اہرام سب سے چھوٹا ہے۔ اس کی اونچائی تقریباً 60 میٹر ہے اور اس کا فرش تمام سمتوں میں سو میٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ایڈن ڈوڈسن کا خیال ہے کہ مینکاور کا اہرام چھوٹا تھا، لیکن دوسرے اہراموں سے زیادہ شاندار تھا۔ اس کے نچلے حصے کی دیواریں گرینائٹ سے ڈھکی ہوئی تھیں۔تمام اہرام کی بیرونی دیواریں اب سیڑھیوں کی طرح بن چکی ہیں، لیکن پہلے ان کی بیرونی دیواروں پر نرم پتھروں کی تہہ ہوتی تھی۔اس کے لیے پالش چونا پتھر استعمال کیا گیا۔ مینکاور کے اہرام کا تقریباً آدھا حصہ گرینائٹ پتھروں سے ڈھکا ہوا تھا۔اس سرخ گرینائٹ کے ہر بلاک کا وزن دو ٹن سے زیادہ تھا، جسے پانچ سو میل دور اسوان سے دریائے نیل کے ذریعے بیڑے پر لایا گیا تھا۔ایڈن ڈوڈسن کا کہنا ہے کہ ’مینکاور اہرام کی بیرونی تہہ تقریباً مکمل طور پر پھٹ چکی ہے۔‘ اس کی ایک دیوار میں ایک بڑا سوراخ بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مصر کے ایک قرون وسطیٰ کے بادشاہ نے اسے گرانے کی کوشش کی تھی۔ اب اس اہرام کے صرف 15-29 فیصد پر گرینائٹ کی تہہ برقرار ہے۔اہرام کے ارد گرد ریت پر گرینائٹ پتھروں کے ٹوٹے ہوئے بلاکس پڑے ہیں۔ اس کے اوپری حصے سے اچھے معیار کے پالش شدہ چونے کے پتھر کی تہہ پہلے ہی ہٹا دی گئی ہے۔ شاید قرون وسطیٰ کے قاہرہ میں ان پتھروں کو ہٹا کر مساجد میں استعمال کیا گیا تھا۔اب مینکاور اہرام کی بحالی کے لیے جو منصوبہ بنایا جا رہا ہے اس کی سربراہی ڈاکٹر مصطفیٰ وزیری کر رہے ہیں، جو مصر کے محکمہ نوادرات کے سربراہ ہیں۔ وہ خود ایک معروف ماہر آثار قدیمہ ہیں۔ لیکن ان کا یہ منصوبہ تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

اہرام سے متعلق منصوبہ ہے کیا؟

تقریباً ایک ماہ قبل مصطفیٰ وزیری نے ایک ویڈیو جاری کی تھی۔ اس میں وہ مینکاور اہرام کے قریب ایک گرینائٹ پتھر پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کے ارد گرد بہت سے مزدور اہرام پر کام کر رہے تھے۔ اس ویڈیو سے اشارہ دیا جا رہا تھا کہ وہاں کام شروع ہو گیا ہے۔نیوزی لینڈ کی آکلینڈ یونیورسٹی میں قدیم تاریخ کی پروفیسر ڈاکٹر جینیفر ہیلم کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ وہاں کتنے بڑے پیمانے پر کام ہونے جا رہا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر کام پہلے کبھی نہیں ہوا۔ان کے مطابق ’وہ دکھا رہے تھے کہ وہ اس اہرام کی مرمت کیسے کریں گے۔ اس ویڈیو میں وہ کارکنوں سے عربی زبان میں بات کر رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ کارکن اہرام کے گرد پڑے ملبے کو ہٹا رہے ہوں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ ویڈیو میڈیا میں دکھانے کے لیے بنائی گئی ہو۔‘دنیا بھر کے ماہرینِ مصر اور ماہرین آثار قدیمہ اس واقعے سے کافی حیران ہوئے ہیں۔ اس پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ مصری حکومت نے فوری طور پر ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس کمیٹی نے اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ لیکن مصر کے محکمہ نوادرات کے سربراہ نے مینکاور کے اہرام کی بحالی کے بارے میں کیا مشورہ دیا؟ڈاکٹر جینیفر ہیلم کا کہنا ہے کہ ’ہمیں معلوم ہوا کہ انھوں نے ایک جاپانی گروپ سے رابطہ کیا تھا۔‘کہا جاتا ہے کہ وہ مینکاور اہرام کو گرینائٹ سے دوبارہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہ گرینائٹ گیزا کے دیگر اہراموں میں استعمال ہونے والے پتھر سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ گرینائٹ پتھر اس اہرام کی تعمیر میں استعمال ہونے والے تھے۔ ’گرینائٹ کی تہوں کی سات قطاروں میں استعمال کرنے کے لیے کافی گرینائٹ پتھر پہلے سے موجود ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ اس اہرام سے گرینائٹ کی تہوں کی نو قطاریں غائب ہیں اور وہ اسے دوبارہ اہرام پر لگانا چاہتے ہیں۔ کیا یہ ایک اچھا منصوبہ ہے؟ڈاکٹر جینیفر ہیلم کہتی ہیں کہ ’سوال یہ ہے کہ کیا انھوں نے اس حقیقت کے بارے میں سوچا ہے کہ وہاں استعمال ہونے والا اصل چونا پتھر پہلے سے ہی اچھی کوالٹی کا نہیں تھا، اس لیے اس پر گرینائٹ کی تہہ ڈالنی پڑی۔ سیکڑوں سال کے موسم کی وجہ سے ان پتھروں کی حالت مزید خراب ہو گئی ہے۔ اور کیا انھوں نے دیکھا ہے کہ وہ اب کتنے مستحکم ہیں؟‘ان کے مطابق ’وہاں پڑے گرینائٹ کے بلاکس کو پالش نہیں کیا گیا ہے کیونکہ ان بلاکس کو اہرام میں رکھنے سے پہلے پالش اور شکل دی گئی تھی۔ ان پتھروں کو پالش نہیں کیا گیا ہے اس لیے اگر ان کو ’لیپ‘ کر دیا جائے تو یہ اصل اہرام سے مماثل نہیں ہوں گے۔‘کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ مینکاور اہرام کے قریب پڑے گرینائٹ کے بلاکس کبھی اس اہرام پر استعمال ہوئے تھے یا نہیں۔ بعض مصری ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ مینکاور کی موت کم عمری میں ہوئی تھی، اس لیے اس کے اہرام کی تعمیر ادھوری تھی، جس کی وجہ سے اس میں استعمال ہونے والا سامان وہیں پڑا رہا۔ لیکن اب ان گرینائٹ بلاکس کو اہرام میں ڈالنے کے منصوبے نے آثار قدیمہ کے بنیادی اصولوں پر بحث چھیڑ دی ہے۔ڈاکٹر جینیفر ہیلم کا کہنا ہے کہ اس اہرام کو محفوظ کرنے کے بجائے اس کی تزئین و آرائش کی جا رہی ہے جو کہ دنیا بھر کے قدیم ورثوں کے تحفظ کے لیے کیے گئے وینس معاہدے کے رہنما اصولوں کے خلاف ہے۔ڈاکٹر جینیفر ہیلم کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ وزیری نے یونیسکو اور اس کام سے وابستہ ماہرین آثار قدیمہ سے مشورہ نہیں کیا۔ ان کے مطابق ان کی ڈرامائی ویڈیو کا مقصد اہرام کے بارے میں ہنگامہ کھڑا کرنا تھا۔ لیکن اگر یہ ہنگامہ اہرام پر دنیا کی توجہ مرکوز کرے تو یہ سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

پرکشش اہرام

’فنانشل ٹائمز‘ کی قاہرہ کی نمائندہ حبا صالح کا کہنا ہے کہ مصر کی معیشت کے لیے سیاحت بہت اہم ہے کیونکہ یہ شعبہ ملک کی دس فیصد آبادی کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ مجموعی گھریلو پیداوار میں سیاحت کا حصہ 12 فیصد ہے۔ اس سے ملک کو زرمبادلہ فراہم ہوتا ہے جو اس کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ مصر گذشتہ دو سالوں سے زرمبادلہ کی کمی کا شکار ہے۔اسی دوران غزہ میں لڑائی کے باعث نہر سویز کے راستے آمدورفت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس سے ہونے والی آمدنی میں کمی آئی ہے، اس لیے سیاحت کو فروغ دینا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں حکومت کو لگتا ہے کہ ملک کے سیاحت کے وسائل کو پوری طرح سے استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ مصر میں بہت سی قدیم عمارتیں اور ورثے کے مقامات ہیں۔ ایک صحرا بھی ہے، جہاں ڈیزرٹ سفاری کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ یہاں ایک لمبا ساحل ہے جس سے سیاح لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور انھیں یہاں راغب کرنے کے لیے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔اہرام مصر کی سیاحت کی صنعت کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ہر سال لاکھوں سیاح اس ملک میں آتے ہیں لیکن مصری حکومت کو سیاحوں کو راغب کرنے میں کئی مسائل کا سامنا ہے۔حبا صالح کا خیال ہے کہ سیاسی عدم استحکام کا براہ راست اثر سیاحت پر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر سنہ 2015 میں روسی سیاحوں کو لے جانے والا ایک طیارہ شرم الشیخ سے اڑان بھرتے ہی پھٹ گیا، جس کی وجہ سے سیاحت کی صنعت کو کئی سالوں سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ جب سیاحت کی صنعت دوبارہ پٹری پر آنا شروع ہوئی تو پھر وہ کورونا وائرس کی وبا کی نظر ہو گئی۔ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے مصری حکومت نے بہت سے قدیم ورثے کے تحفظ اور بحالی کے منصوبے شروع کیے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا منصوبہ گرینڈ مصری میوزیم یا جی ای ایم پروجیکٹ ہے جو دنیا میں قدیم مصری نوادرات اور مجسموں کا سب سے بڑا میوزیم بن سکتا ہے۔حبا صالح نے بتایا کہ جی ای ایم پراجیکٹ پر 20 سال سے کام جاری تھا۔ اب یہ تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سال اس کا افتتاح ہونے کا امکان ہے۔ مصر اس کے لیے ایک شاندار تقریب منعقد کرنا چاہتا ہے۔ اس میں دنیا بھر سے قائدین کو مدعو کیا جائے گا۔ اس میوزیم میں لاکھوں قدیم نوادرات اور اشیا رکھی جائیں گی۔ اس میں توتنخمین کے خزانے کی قیمتی اشیا بھی ہوں گی۔ مصر کو امید ہے کہ یہ میوزیم سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کافی مدد دے گا۔مینکاور اہرام کو گرینائٹ سے دوبارہ سر اٹھانے کا منصوبہ مصر بھر میں قدیم عمارتوں کو صاف اور روشن کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ سے اس کی اصلی شکل برقرار نہیں رہے گی۔ بہت سے لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔حبا صالح کا کہنا ہے کہ اس سکیم کو لوگوں کے سامنے صحیح طریقے سے پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی ماہرین سے کوئی مشاورت کی گئی۔ اس لیے یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ قدیم عمارتوں کے تحفظ اور بحالی کے درمیان کیا توازن برقرار رکھا جانا چاہیے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اہرام کا تحفظ

قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں مصریات کی پروفیسر سلیمہ اکرام کہتی ہیں کہ مینکاور اہرام میں گرینائٹ کا ایک پتھر شامل کرنے سے پہلے انجینئرز اور ماہرین کو اس بات کی تحقیق کرنی چاہیے کہ اس کے ڈھانچے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ انھیں خدشہ ہے کہ جلد بازی میں اٹھائے گئے اقدامات سے مستقل نقصان ہو سکتا ہے۔’اس ڈھانچے پر ہزاروں سالوں سے گرینائٹ کی کوئی تہہ نہیں ہے۔ اب اگر ہم اس پرت کو لگاتے ہیں تو کیا اس سے ساخت کا توازن بدل جائے گا؟‘منظر عام پر آنے والی ویڈیو سے ایسا لگتا تھا کہ مینکاور اہرام پر کام شروع ہو گیا ہے لیکن جب ہنگامہ ہوا تو حکومت نے ماہرین آثار قدیمہ کی ایک کمیٹی تشکیل دی، جس نے اہرام کی مرمت کے منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے اس پر سوالات اٹھائے۔سلیمہ اکرام کہتی ہیں کہ تحفظ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، جس پر مختلف آرا ہیں۔ اس کا کوئی سیدھا جواب نہیں ہے کیونکہ یہ عمارت کی نوعیت پر بھی منحصر ہے۔ ان کے مطابق ایک قول یہ ہے کہ اگر کوئی شگاف ہو تو اسے عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والے مواد سے مماثل مواد سے بھرنا چاہیے یا اسے ویسا ہی چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ تحفظ کا مقصد کیا ہے۔سلیمہ اکرام کا کہنا ہے کہ قدیم عمارت سے گرا ہوا میٹریل دوبارہ لگایا جا سکتا ہے لیکن جو بھی کام کیا جائے ایسا ہونا چاہیے کہ اگر وہ ٹھیک نہ لگے تو اسے ہٹایا جا سکے۔ مثال کے طور پر ستر اور اسی کی دہائیوں میں ان مقاصد کے لیے سیمنٹ کا استعمال کیا جاتا تھا، جسے ہٹانا مشکل ہو گیا اور ان قدیم عمارتوں کو نقصان پہنچا۔تحفظ پسندوں کا مقصد قدیم ڈھانچے کو ان کی اصل شکل میں محفوظ کرنا ہے۔ ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جس سے عمارت کی حفاظت کو خطرہ ہو۔اب واپس آتے ہیں اپنے اصل سوال کی طرف مصری اہرام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ جیسا کہ ماہرین نے ہمیں بتایا قدیم عمارتوں کا تحفظ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔اہرام ہزاروں سالوں سے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ یہ مصر کی سیاحت کی صنعت کے لیے بہت اہم ہے۔ لیکن اگر ان کے تحفظ کے لیے غلط طریقے استعمال کیے جائیں تو انھیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ جب وہ بنائے گئے تو ان کی اصل شکل کیا تھی۔ ایسے میں بہتر ہوگا کہ انھیں اسی حال میں چھوڑ دیا جائے جس میں وہ اب ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}