کورونا ویکسین: دنیا بھر کے لوگوں کو کب تک وائرس سے حفاظت کا ٹیکہ لگ جائے گا؟
ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا بھر کی آبادی کو ویکسین دینے کی راہ میں بہت سے عوامل سرگرم عمل ہیں
عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ تیدروس ادھانوم غبرائسس کا کہنا ہے کہ ’ویکسین وبائی بیماری کا رخ موڑنے کے لیے بہت امید افزا ہے لیکن دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ تمام لوگوں کو ٹیکے لگائے جائیں نہ کہ صرف ان ممالک میں جو حفاظتی ٹیکوں کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں کیونکہ ہر جگہ انھیں خطرہ لاحق ہے۔’
ویکسین وبائی مرض کے بعد کی دنیا کو معمول پر لانے میں کلیدی کردار ادا کرے گی لیکن اس کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں اور کئی ممالک کے مقابلے میں دوسرے ممالک کو لمبا سفر طے کرنا پڑ سکتا ہے۔
مثال کے طور پر ویکسین کی فراہمی کی سہولیات کے مسائل کے علاوہ کچھ ریاستوں اور سیاسی گروہوں نے مقابلہ کرنا شروع کردیا اور ایک طرح کی ’ویکسین نیشنلزم‘ سامنے آئی ہے جس سے غریب ممالک کی آبادی ٹیکے کی قطار میں پیچھے کر دی گئی۔
اس میں دوسری طرح کی روکاوٹیں بھی ہیں جس میں ٹیکے لگانے میں ہچکچاہٹ، ٹیکوں کی پیداوار اور ان کی فراہمی وغیرہ شامل ہیں، جو عالمی سطح پر کووڈ 19 کے خلاف حتمی جنگ کے مقصد کے لیے ٹیکے لگانے کی راہ مسدود کرتی ہیں۔
ان رکاوٹوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم کب تک یہ امید کر سکتے ہیں کہ عالمی سطح پر کووڈ کے خلاف ویکسینیشن کا یہ پروگرام کووڈ واقعی مفید ہوگا؟
ویکسین کا عمل کیسے چل رہا ہے؟
کوویڈ 19 کے خلاف حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام بہت سارے ممالک میں شروع ہو چکے ہیں لیکن رسد اور طلب کے مابین مطابقت نہیں۔
آور ورلڈ ان ڈیٹا (او ڈبلیو آئی ڈی) کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 138 ممالک میں ساڑھے 56 کروڑ خوراکیں فراہم کی گئیں ہیں اور 30 مارچ تک لگ بھگ 13.9 ملین لوگوں کو خوراکیں دی گئیں ہیں۔
مجموعی طور پر یہ مقدار بہت زیادہ نظر آ سکتی ہے لیکن سات ارب 80 کروڑ عالمی آبادی میں یہ صرف 7.2 فیصد لوگوں کے لیے محض ایک خوراک ہے۔
عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ تیدروس ادھانوم غیبرسز کا کہنا ہے کہ ‘ویکسین وبائی بیماری کا رخ موڑنے کے لیے ایک بہت امید افزا ہے۔’
اگر اسی رفتار سے ٹیکے دیے جاتے رہے تو دنیا بھر میں ہر ایک کو ویکسین دینے میں تین سال سے بھی زیادہ کا وقت لگ جائے گا خاص طور پر ایسی صورت میں جبکہ ان ویکسینوں کو اپنا پورا اثر دکھانے میں دو خوراکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ (ای آئی یو) کا کہنا ہے کہ امیر معیشتوں میں زیادہ تر بالغ آبادی کو سنہ 2022 کے وسط تک ٹیکے لگائے جا سکتے ہیں۔
درمیانی معیشت والے ممالک کے لیے یہ ٹائم لائن 2022 کے آخر تک یا 2023 کے اوائل تک جاتی ہے جبکہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں بڑے پیمانے پر حفاظتی ٹیکے لگنے کے لیے 2024 تک انتظار کرنا پڑ سکتا ہے، اگر انھیں ٹیکہ ملتا ہے تو۔
غریب ممالک کے مقابلے میں امیر ممالک اپنی آبادی کو زیادہ تیزی سے ٹیکہ لگا رہے ہیں
کون سی ویکسین استعمال میں ہیں؟
سب سے پہلے برطانیہ نے گذشتہ سال دو دسمبر کو فائزر کی بايون ٹیک ویکسین کی منظوری دی اور پھر امریکہ نے اور پھر یورپی یونین نے۔
اس کے بعد بہت سی دیگر ویکسینیں بھی سامنے آئیں، جن میں امریکہ میں تیار ہونے والی موڈرنا، ایسٹرا زینیکا (برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی نے تیار کیا)، چین میں تیار کی جانے والی سائینوفارم اور سینوویک اور روس میں تیار کی جانے والی سپوتنک فائیو شامل ہیں۔
بڑے پیمانے پر ہونے والی آزمائشوں کے نتائج بعد دو مزید ویکسینوں کو بھی حال ہی میں پیش کیا گیا ہے۔ اس پر جاپان میں کام ہوا ہے اور جانسن اینڈ جانسن اور نواویکس کی ملکیت والی ان ویکسین کو منظوری دینے سے قبل کئی ممالک کے ڈرگ ریگولیٹرز جائزہ لیں گے۔ جانسن اینڈ جانسن کو امریکہ میں منظوری مل چکی ہے۔
اسرائیل اور برطانیہ جیسے ممالک میں ویکسین کے استعمال کی حوصلہ افزا علامات سامنے آنے لگی ہیں کیونکہ ہسپتالوں میں داخلوں اور اموات میں کمی کے ساتھ ساتھ کمیونٹی ٹرانسمیشن یعنی ایک سے دوسرے میں منتقلی بھی کم ہو رہی ہیں۔
دنیا بھر میں 200 سے زائد ویکسینوں پر اس کی افادیت اور حفاظت کے لیے جانچ جاری ہے۔ اگر ان کو منظوری حاصل ہو جاتی ہے اور پیداوار ہونے لگتی ہے تو حفاظتی ٹیکوں کے عالمی پروگراموں میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے۔
لیکن ریکارڈ وقت میں ان ویکسین کے ڈیزائن کرنے، بنانے اور منظوری کی بے مثال کوشش کے باوجود عالمی سطح پر ان پر عمل در آمد ناقابل یقین حد تک غیر مستحکم ہے کیونکہ یہ مختلف قسم کی رکاوٹوں کا شکار ہے۔
ویکسین لینے میں ہچکچاہٹ کے باوجود فرانس کے ایک مرکز پر بھیڑ
’ویکسین نیشنلزم‘ کیا ہے؟
’ویکسین نیشنلزم‘ سے مراد ایسی حکومتیں ہیں جو لالچ یا غیر منصفانہ طریقے سے دوسروں کی قیمت پر اپنی قوم یا آبادی کے لیے سامان حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
بہت سارے دولت مند ممالک دوا ساز ممالک کے ساتھ دوطرفہ معاہدوں کے تحت بے تحاشا اور ضرورت سے زیادہ ویکسین خرید رہے ہیں۔
مثال کے طور پر کینیڈا نے اپنی آبادی کے لیے پانچ گنا مقدار میں ٹیکے حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے ساتھ وہ صدر بائیڈن کے اعلان کے تحت امریکہ سے اضافی ایسٹرا زینیکا ویکسین بھی وصول کرے گا۔
اسی طرح برطانیہ پر بھی ویکسین کے ذخیرہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ویلکم کے ڈائریکٹر جیریمی فارر کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے پاس اپنی پوری آبادی کو دو بار ٹیکہ لگانے کے لیے کافی مقدار میں خوراک دستیاب ہو گی۔
انھوں نے کہا ’ہمیں اپنی سرحدوں سے آگے سوچنے کی ضرورت ہے۔ اتنی زیادہ خوراکیں برطانیہ میں کام نہیں آئیں گی، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان خوراکوں کو عالمی سطح پر زیادہ ضرورت مندوں کے ساتھ بانٹنا شروع کردیں۔۔۔ یہ صرف اخلاقیات کے سوال سے زیادہ ہے، یہ ایک سائنسی اور معاشی ضرورت بھی ہے۔‘
اسی طرح یورپی یونین نے بھی اپنے علاقے میں تیار کی جانے والی ویکسینوں پر ایکسپورٹ کنٹرول لگانے کے خلاف آواز اٹھائی کیونکہ اسے بھی اپنے ویکسینیشن پروگرام پر عمل درآمد میں مشکلات کا سامنا ہے۔
کینیڈا نے اپنی آبادی سے پانچ گنا زیادہ ٹیکوں کا آرڈر دے رکھا ہے
اس سب کا مطلب یہ ہے کہ ویکسین کی قیمتی فراہمی مٹھی بھر دولت مند معیشتوں تک محدود ہے اور غریب ممالک کے ساتھ یکساں طور پر ان کا اشتراک نہیں کیا جا رہا۔
ویکسین کے اتحاد گاوی کے سی ای او سیتھ برکلے نے گذشتہ ماہ کہا تھا: ’اگر حکومتیں اس طرح کی ویکسن نیشنلزم کو جاری رکھیں گی اور اگر اسے بنانے والے کووڈ 19 کے ٹیکے صرف سب سے زیادہ قیمت دینے والوں کو فراہم کریں گے تو سنہ 2009 کی [سوائن فلو کی ویکسین کی طرح] طرح یہ بحران طویل تر ہو جائے گا۔‘
’اگرچہ ٹیکوں کی خوراک کا وعدہ ہر ملک میں کیا جاتا ہے تاہم اس کی فراہمی میں تاخیر سے کورونا وائرس کو پھیلنے کرنے، اپنی ہیئت تبدیل کرنے اور ممکنہ طور پر بہتر طور پر انسانی جسم میں رچنے بسنے اور حالات کے مطابق ڈھلنے میں مدد ملے گی۔
گھانا کوویکس ویکسین حاصل کرنے والا پہلا افریقی ملک ہے جسے فروری میں ویکسین فراہم کی گئی ہے
کیا ویکسین وہاں پہنچ رہی ہیں جہاں اسے پہنچنا چاہیے؟
بہت سے درمیانی معیشت والے ممالک اور بیشتر کم آمدنی والے ممالک اپنی آبادی کو محفوظ بنانے کے لیے ویکسین کے اتحاد کوویکس پر انحصار کر رہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے زیر اہتمام اس مہم کا مقصد غریب ممالک کے لیے چھ ارب خوراکیں فراہم کرنا ہے، جس میں رواں سال سنہ 2021 میں دو ارب خوراک دی جائیں گی۔
ویکسین کے اتحاد گاوی کے مطابق اب تک 70 اتحادی ممالک کو 32 ملین خوراکیں بھیجی گئی ہیں جن میں ٹونگا، اور ٹرینیڈاڈ اور ٹوبیگو کو تازہ ترین فراہمی ہوئی ہے۔
افریقی ممالک اپنی زیادہ تر آبادی کو ٹیکہ لگانے والے آخری ممالک میں شامل ہوں گے اور یہ خاص طور پر گاوی پر انحصار کریں گے۔
گھانا پہلا ملک ہے جس نے سخت معیار پر پورا اترنے اور فوری تقسیم کے وعدہ پر گذشتہ ماہ کوویکس سے ویکسین حاصل کرنا شروع کیا تاہم تین کروڑ سے زیادہ آبادی والے اس ملک کو ابتدائی طور پر صرف چھ لاکھ خوراکیں ہی دی جا سکی ہیں۔
بی بی سی افریقہ کی ہیلتھ ایڈیٹر این مواتھی کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ بہت سے افریقی ممالک کو مغربی ممالک کے مقابلے میں زیادہ قیمت پر ویکسین خریدنا پڑیں گی جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انھوں نے سپلائی کا پہلے سے آرڈر نہیں دیا تھا۔
انھوں نے مزید کہا: ’کچھ [ممالک] نے بڑی دوا ساز کمپنیوں سے پیٹنٹ میں چھوٹ کا مطالبہ کیا ہے، جس کی وجہ سے خوراک کی قیمتیں کم ہو جائیں گی اور اس کا مطلب مزید ویکسین کی تیاری آسان ہو جائے گی۔‘
’لیکن ان بڑی کمپنیوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ اس سے ان کے منافع میں کمی واقع ہو جائے گی۔‘
افریقی ممالک کو امداد کی سخت ضرورت ہو گی
کووڈ 19 کی نئی قسمیں ویکسینز کو کیسے متاثر کرتی ہیں؟
اس بات کی توقع کی جارہی تھی کہ وائرس کی نئی شکلیں سامنے آئیں گی کیونکہ تمام وائرس تبدیل ہوتے ہیں اور وہ خود کو پھیلانے اور زندہ رہنے کے لیے اپنی نقل تیار کرتے ہیں۔
ان میں سے بیشتر تبدیلیاں کافی حد تک معمولی ہوتی ہیں لیکن کبھی کبھار ایسا تغیر بھی پیدا ہوتا ہے جس سے وائرس کو پنپنے میں مدد ملتی ہے، جیسے برطانیہ، برازیل اور جنوبی افریقہ میں اپنی ہیئت بدلنے والے وائرس کے معاملے میں سامنے آیا ہے۔
ابھی تک اس بات کے شواہد نہیں ہیں کہ یہ مختلف اقسام زیادہ شدید بیماری کا باعث بنی ہیں اور زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے باوجود ویکسین مؤثر ثابت ہوں گی، کم از کم قلیل مدتی طور پر ہی سہی۔
لیکن یہ خدشہ ہے کہ اگر کووڈ 19 کو پوری دنیا میں بغیر روک ٹوک بڑھنے دیا گیا تو یہ وائرس اس حد تک تبدیل ہو سکتا ہے کہ موجودہ ویکسین اور علاج اس کے خلاف مزید کام نہ کر سکے، یہاں تک کہ ان کو بھی انفیکشن کا خطرہ لاحق ہو جائے گا جنھیں ویکسین دی جا چکی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انتہائی خراب صورتحال میں اگر ضروری ہوا تو ہفتوں یا مہینوں کے اندر ویکسین میں تبدیلی لا کر اس کا مؤثر توڑ تیار کیا جا سکتا ہے۔
اس صورت میں ہر سال کورونا وائرس کے خلاف ایک تازہ خوراک کی ضرورت پڑ سکتی ہے تاکہ نئی قسم کے وائرس سے نمٹا جا سکے جس طرح پہلے موسمی فلو کے معاملے میں ہوتا رہا ہے۔
ویکسین لینے میں ہچکچاہٹ بھی کورونا کے خاتمے کے راستے میں حائل ایک اہم مسئلہ ہے
’ویکسین لینے میں ہچکچاہٹ‘ کے بارے میں کیا خیال ہے؟
’ویکسین لینے میں ہچکچاہٹ‘ سے بھی عالمی سطح پر مدافعت پیدا کرنے پر خاصے اثرات ہو سکتے ہیں۔
کچھ دولت مند ممالک میں ویکسین تک رسائی کے باوجود بھی اسے لینے کی رفتار متاثر ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر فرانس اور جاپان میں حالیہ سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی نصف آبادی ویکسین نہیں لینا چاہتی۔
اس کے بعد جرمنی کے ساتھ اٹلی نے کئی ہفتوں تک پوری طرح سے ایسٹرا زینیکا کے ٹیکے دینے کے کام کو معطل کردیا یہاں تک کہ دونوں ممالک کو تیسری لہر کے انفیکشن کا سامنا بھی رہا جس کے بعد ڈبلیو ایچ او کو اس ویکسین کی حفاظت کے متعلق بیانات جاری کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
ترقی یافتہ دنیا میں نظر آنے والی یہ ہچکچاہٹ غریب ممالک میں بھی سامنے آ سکتی ہے، خاص طور پر ایسے میں جب عالمی سطح پر ٹیکے دینے کا عمل سست روی کا شکار ہو۔
کچھ ممالک خاص طور پر زیادہ نوجوان آبادی والے ممالک، ویکسین لینے میں دلچسپی کھو سکتے ہیں، خاص طور پر اگر اس مرض کا وسیع پیمانے پر پھیلاؤ ہے (اور آبادی کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کر چکا ہے) یا اگر اس سے وابستہ اخراجات بہت زیادہ ہیں۔
ای آئی یو کی عالمی سطح پر پیشگوئی کرنے والے ڈائریکٹر اگاتھے دیماریس نے کہا: ’عالمی سطح پر ویکسینیشن ٹائم لائن سنہ 2022 اور 2023 کے آخر تک بڑھتا ہے تو اس سے یہ خطرہ بڑھ جائے گا کہ کچھ ترقی پذیر ممالک اپنی آبادی کو ویکسین نہیں دینا چاہیں گے۔‘
’اس طرح کی صورتحال سے عالمی معیشت کی بحالی میں تاخیر ہو گی اور کورونا وائرس کی نئی شکلوں کے ظہور کو فروغ ملے گا جو موجودہ ویکسین کے خلاف مزاحمت ثابت ہو سکتے ہیں اور ہمیں پھر سے وہیں پہنچا سکتے ہیں جہاں سے ہم شروع ہوئے تھے۔‘
مجموعی آبادی پر کم ٹیکے لینے کے ڈرامائی اثرات پڑیں گے اور ماہرین کے مطابق پوری آبادی کو ویکسین دینا ہی وبائی بیماری کے خاتمے کے لیے بہترین موقع ہے۔
ہم انسانوں کی بڑی آبادی کو بیماری سے کیسے مدافعت فراہم کر سکتے ہیں؟
انسانوں کی بڑی آبادی کو ویکسینیشن کے ذریعے ہم بیماری سے مدافعت فراہم کر سکتے ہیں اور پھر ہم باقیوں میں اس کے پھیلاؤ کو روک سکتے ہیں۔ یہ ہر بیماری کے لیے مختلف ہوتا ہے، مثال کے طور پر خسرہ کے لیے 95 فیصد آبادی کو ٹیکے دینے ہوتے ہیں اور پولیو سے بچاؤ کے 80 فیصد آبادی کو قطرے پلانے کی ضرورت ہے۔
چونکہ کووڈ 19 ایک ایسا نیا خطرہ ہے جس سے ریوڑ کے ریوڑ میں مدافعت کا پتہ نہیں چل سکا لیکن وبائی امراض کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تقریبا 70 فیصد لوگوں کو ٹیکے لگا کر اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
تاہم جوں جوں یہ وبائی مرض اپنے دوسرے سال میں داخل ہو رہا ہے ماہرین آہستہ آہستہ اس اعداد و شمار کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
صدر بائیڈن کے چیف میڈیکل ایڈوائزر انتھونی فوکی نے اعتراف کیا کہ انھوں نے وقت کے ساتھ اس تخمینے میں بتدریج اضافہ کیا اور ان کا خیال ہے کہ یہ تعداد 70 فیصد اور 90 فیصد کے درمیان ہو سکتی ہے۔
کیا ویکسینیشن کووڈ 19 کا خاتمہ کر دے گی؟
برطانیہ کے چیف میڈیکل آفیسر کرس وائٹی نے ایک سرکاری بیان میں کہا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ کووڈ 19 کو ختم کرنے کے امکانات ’صفر کے قریب ہیں کیونکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘
پروفیسر وائٹی نے مزید کہا: ’ہم نے صرف ایک بیماری کا خاتمہ کیا ہے جو چیچک ہے اور وہ بھی ایک طویل عرصے میں غیرمعمولی طور پر مؤثر ویکسین کے ساتھ۔‘
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ویکسینیشن کی کوششیں بیکار ہیں کیونکہ جزوی طور پر حفاظتی ٹیکوں والی عالمی آبادی وائرس کی بڑھتی ہوئی منتقلی اور مزید مختلف ہیئتوں کا باعث بن سکتی ہے۔
نیوزی لینڈ میں کورونا کے متعلق لگائی جانے والی تمام تر پابندیاں اس وقت ختم کر دی گئی جب وہاں اس کے کیسز صفر ہو گئے
واشنگٹن یونیورسٹی میں کرسٹوفر مرے اور لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے پیٹر پائوٹ کے تجزیے نے خبردار کیا ہے کہ ویکسینیشن کی عالمی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی ان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’مستقل اور موسمی کووڈ 19 کا امکان حقیقی ہے‘ اور اس میں بیماری کی روک تھام کے پہلے قدم کے طور پر عالمی سطح پر ویکسینیشن کی کوششوں کی سفارش کی گئی ہے۔
لیکن اگر ایسا ہے تو بھی ویکسینیشن پروگراموں کا اپنا بہت ہی قیمتی کردار ہے۔
امپیریل کالج لندن میں متعدی امراض کی چيئر پرسن پروفیسر عذرا غنی کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کے لیے بنائی جانے والی ویکسینوں کا بنیادی مقصد جان بچانا ہے اور اس کا حصول ویکسینیشن کے ذریعے بیماری سے مدافعت پیدا کرنے اور وائرس کی منتقلی کو روکنے سے ہوتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا: ’جس طرح ایک سال قبل وائرس کی نشاندہی کی گئی اور اسی درمیان اس کے لیے ویکسینیون کی نشوونما اور ترقی میں جو پیشرفت ہوئی ہے وہ بے مثال ہے۔ اس نئے وائرس کے خلاف سائنسی طور پر ترقی ہو رہی اور بڑی تعداد دنیا بھر میں سائنسدانوں کی ٹیمیں ویکسین کی جانچ اور بہتری میں سرگرم عمل ہیں۔‘
’اس لیے میرے خیال سے ہم پرامید ہو سکتے ہیں کہ ان کوششوں سے براہ راست اور بالواسطہ دونوں طرح کے تحفظ کی اعلی سطح کا حصول ممکن ہو گا جو اگر وائرس کو ختم نہ بھی کر سکے تو بھی زندگی کو معمول پر لوٹنے کا موقع فراہم کرے گا۔‘
Comments are closed.